اگرتم ایک گھوڑے ہوتے۔۔۔ (افسانہ)

غسان کنفانی (ترجمہ: محمد افتخار شفیع)

”اگر تم ایک گھوڑے ہوتے تو میں گولی مار کر۔۔ تمکارا۔۔ بھیجا۔۔۔ اڑا دیتا۔۔۔“

ایک گھوڑا ہی کیوں؟ کوئی اور جانور کیوں نہیں۔۔کتا، بلی، چوہا یا کوئی بھی دوسرا جانور ہوتا تو گولی اس کی کھوپڑی سے بھی گزر سکتی تھی۔

ہوش سنبھالتے ہی جو پہلی آواز اس کی سماعتوں سے ٹکڑائی تھی، وہ آج تک اسے بھول نہیں سکا تھا۔ یہ آواز اس کے چاروں طرف گونج رہی تھی۔ یہ آواز کسی اور کی نہیں، اس کے اپنے باپ کی تھی۔۔ اس کا باپ اکثر اس خواہش کا اظہار کرتا ر ہتا تھا۔۔ ”کاش میرابیٹاایک گھوڑا ہوتا“

شاید وہ دنیا کا پہلا باپ تھا، جس کی خواہش تھی کہ اس کے گھر میں پیدا ہونے والا،اس کا اکلوتا وارث، انسان کی بجائے ایک گھوڑا ہوتا۔۔

اس کا خیال تھا کہ اس کے باپ کو گھوڑوں سے شدید نفرت ہے، اس لیے وہ اپنے غصے کا اظہار اس بات سے کرتا ہے اور جب اس کو پیار آتا ہے تو دل میں خواہش پیدا ہوتی ہے۔ کاش میرا بیٹا ایک گھوڑا ہوتا۔۔ اس نے اپنے طور پر یہ تصور کر لیا تھا کہ اس کا باپ دنیا میں سب سے زیادہ نفرت اپنے بیٹے سے کرتا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ باپ نے آج تک کسی دوسرے شخص کے لیے اس طرح کے الفاظ استعمال نہیں کیے تھے۔ ”کاش تم ایک گھوڑے ہوتے۔ میں تمہیں گولی مار دیتا اور وہ تمہارے دماغ کی رگوں کو چیرتی ہوئی آگے نکل جاتی“

اس کے لاشعور میں یہ بات کہیں موجود تھی کہ اس کے باپ کے لیے روئے زمین پر سب سے زیادہ نفرت کے قابل انسان کوئی اور نہیں، خود اس کا اپنا بیٹا ہے۔ جیسے جیسے وقت گزرتا جاتا تھا، یہ بات اس کے لاشعور میں اور بھی پختہ ہوتی جاتی تھی۔

جب وہ جوان ہوا تو یہ خیال اس کے لاشعور کے کسی کونے کھدرے میں دب گیا۔۔ اس نے تمام منفی سوچوں کو جھٹک کر اپنے خیالات کو ایک نقطے پر یکجا کر لیا۔ اب وہ سمجھنے لگا تھا کہ اس کا باپ گھوڑوں سے بہت زیادہ پیارکرتاہے، اسے ان کے ساتھ وقت گزارنا، ان کی دیکھ بھال کرنا اچھا لگتا ہے۔

ایک روز باپ کا موڈ ذرا ٹھیک دیکھ کر اس نے پوچھ ہی لیا ”ابا جان! آخر آپ یہ کیوں چاہتے ہیں کہ میں ایک گھوڑا ہوتا۔ آپ کی ملکیت میں ہمیشہ نایاب نسل کے گھوڑے رہے ہیں۔ آپ نے تمام عمر گھڑسواری کی ہے، میں آپ کی اس عجیب سی خواہش کا سبب جاننا چاہتاہوں“

اس کی بات سن کر باپ کے چہرے کارنگ متغیر ہو گیا۔ اس کی آنکھوں میں غصہ دکھائی دے رہا تھا، پھر وہ تھوڑے توقف کے بعد بولا ”تم یہ بات نہیں سمجھوگے۔۔ بعض اوقات ایسے حالات پیدا ہو جاتے ہیں کہ ہمیں گھوڑے کو مارنا پڑتا ہے۔ںان حالات میں اس عمل کوفائدہ مند سمجھا جاتا ہے“

”لیکن میں گھوڑا تو نہیں ہوں“ اس نے معصومیت سے کہا

”میں جانتا ہوں، میں جانتا ہوں“اس کے باپ نے جواب دیا
یہ کِہہ کراس کق باپ دوسری طرف مڑا، وہ شاید کھیتوں کی طرف جاناچاہتاتھا۔ اس نے باپ کی طرف سے تسلی بخش جواب نہ ملنے پر احتجاج کرنے کا فیصلہ کر لیا۔اگلے ہی لمحے وہ آگے بڑھا اور باپ کاراستہ روک کرکھڑا ہو گیا۔

باپ نے بیٹے کو سر سے لے کر پاؤں تک چبھتی ہوئی نظروں سے دیکھا، اس کی آنکھوں میں کسی بھیڑئیے کی سی چمک تھی، باپ کا یہ انداز دیکھ کر وہ حیرت زدہ رہ گیا۔
آخر اس کا باپ اس سے اتنی نفرت کیوں کرتاہے۔۔ اس نے بے ساختہ اندازمیں پوچھ لیا ”آخر آپ مجھ سے اتنی نفرت کیوں کرتے ہیں؟“ اس کے لہجے میں جھنجھلاہٹ نمایاں تھی

”میں اپنے بیٹے سے کیسے نفرت کر سکتا ہوں“ باپ نے جواب دیا

”تو پھر کیا وجہ ہے“

”میں نفرت نہیں کرتا، بلکہ تم سے خوف زدہ ہوں“

کچھ دیر کے لیے خاموشی کا وقفہ ہو گیا، جو خاصا طویل ہوتا گیا۔ اس نے باپ کارستہ چھوڑ دیا۔ اس روز اسے اپنا وجود بہت بھاری محسوس ہوا، لیکن وہ یہ جان گیا تھا کہ یہ بوڑھا شخص اس سے بے حد محبت کرتا ہے۔ اسے یاد آیا کہ کچھ عرصہ پہلے اس نے گھڑسواری کے شوق کو اچانک ترک کر دیا تھا۔ اس بدقسمت باپ کی تنہائیوں اور ناسایوں کی ماری زندگی میں کون سے ایسے راز پوشیدہ تھے۔۔ آخر وہ اپنی جوان بیوی کے انتقال کے بعد نوزائیدہ بچے کو لے کر کیوں شہر چلا آیا۔۔ یہ سارے مشکل فیصلے تھے لیکن اس کے باپ کو کرنے پڑے۔ اس نے اپنے سارے گھوڑے اور چراگاہیں کیوں بیچ دی تھیں۔۔ اف!! اس کی چراگاہیں۔۔۔ جہاں اس کی پسندیدہ گھوڑیاں چرتی تھیں۔۔ سمارہ، بیدہ اورصبا۔۔۔اور ایک گھوڑا، جس کانام باراک تھا۔۔ یہ سب کچھ برداشت کرنا اس کے لیے آسان نہیں تھا لیکن اسے یہ فیصلہ کرنا پڑا

اس کے والد نے یہ انتہائی قدم کیوں اٹھایا تھا۔ کسی بھی نوجوان شخص کی زندگی میں اس طرح کے واقعات کا رونما ہونا عجیب ہے۔ اس کے اندر چھپے ہوئے غم کی شدت کو سمجھنا یا بیان کرنا اس کے بس میں نہ تھا۔ باپ کے بارے میں سوچ سوچ کر وہ اعصابی طور پر شدید تناؤ کا شکار تھا۔ وہ جلد از جلد اپنے باپ کے اس رویے کے پیچھے چھپے راز کو جاننا چاہتا تھا۔

ایک دن اس کا باپ آبائی گاؤں گیا ہوا تھا۔ اس کے بہت سے دوست احباب ابھی تک وہیں مقیم تھے اور وہ ان سے ملنے کے لیے آتا جاتا رہتا تھا۔موقع غنیمت جان کر وہ اپنے باپ کے کمرے میں داخل ہوا، وہ پہلے بھی اس کمرے میں آتا جاتا رہتا تھا لیکن آج اس کا دیکھنے کا انداز جدا تھا۔ کمرے کی دیواروں پر چاروں طرف مختلف نسلوں کے گھوڑوں کی تصویریں آویزاں تھیں۔ ان تصویروں نے کمرے کے حسن کو دوبالا کر دیا تھا۔وہ کچھ سوچ کر ان تصویروں کو دیوار سے اتارنے لگا۔ ایک تصویر کے پیچھے اسے خفیہ دراز نظر آئی۔ وہ چاقو کی مدد سے اسے کھولنے میں کامیاب ہو گیا۔ دراز میں سیاہ رنگ کی ایک چرمی ڈائری تھی، اس نے وہ ڈائری اٹھائی اور ایک آرام دہ کرسی پر بیٹھ کر اسے پڑھنے لگا۔ اسے پوری امید تھی کہ یہ ڈائری اسے حقیقت تک ضرور رسائی دے گی اور وہ اپنے اعصاب پر حاوی گتھیوں کو سلجھا سکے گا۔

ڈائری نے اسے مایوس کیا، اس میں صرف گھوڑوں کی مختلف قسموں، عادتوں، نسلوں اور قیمتوں کے بارے میں بنیادی معلومات درج تھیں۔ اس کا باپ اپنے علم میں اضافے کے لیے یہ معلومات اس ڈائری میں درج کرتا جاتا تھا۔ اسے ڈائری میں چند نامکمل جملے ملے، یہ جملے قدرے عجلت یا لاپروائی میں لکھے گئے تھے۔ایک جملے پر پہنچ کر اس کی نگاہ رک گئی۔ وہاں درج تھا: ”اسے بیچ دو یا مار دو“ نیچے واضح طور پرتاریخ بھی درج تھی: ”۰۲ ستمبر۹۲۹۱ء“

ذہن پر ذرا سا زور دینے سے اسے محسوس ہوا کہ الجھی ہوئی ڈور کا ایک سرا اس کے ہاتھ میں آ گیا ہے۔ اب وہ اسے کھونا نہیں چاہتا تھا۔ آگے درج تھا: ”یہ میرا سب سے قیمتی اور عزیز ترین گھوڑا ہے۔۔ اور پھر بھی یہ مجھے کہتے ہیں کہ بیچ دو یامار دو“ ”تاریخ:یکم دسمبر۹۲۹۱ء“

”میں باراک کو کبھی نہیں بیچوں گا، نہ ماروں گا۔۔ باراک میرا شان دار گھوڑا ہے۔ میں نے اتنا آرام دہ گھوڑا کبھی نہیں دیکھا، میں اسے کبھی نہیں بیچوں گا نہ ماروں گا“

کانپتے ہاتھوں کے ساتھ ڈائری کے اوراق پلٹتے ہوئے اس کی نگاہ ایک جملے پر آکر رک گئی۔ یہ اس ڈائری میں لکھا ہوا، سب سے پراسرار جملہ تھا: ”وہ اسے دریا کے کنارے پر لے گیا اور کلہاڑے سے اس کا سرتن سے جدا کر دیا۔ اس کے بعد اس نے دائیں پاؤں کی ٹھوکر سے اس کو دریا میں دھکا دے کر گرا دیا۔ بعد میں ابومحمد نے اس کے سر میں گولی ماردی تھی۔“ تحریر کے نیچے ۷۲جولائی ۰۳۹۱ء کی تاریخ درج تھی۔

میری جب ابو محمد سے ملاقات ہوئی تو اس نے رک رک کر تفصیل سے بتایا کہ:
”میں تو پیدائش کے وقت ہی باراک کو مار دینا چاہتا تھا۔مگراللہ تمہارے والد کو معاف کرے، وہ میرے اس ارادے کے راستے میں دیوار بن کر آن کھڑا ہوا۔ اس نے مجھے ایسا نہیں کرنے دیا، گھوڑے کے ساتھ جب چند سال گزار لیے جائیں تو وہ (باپ یا بھائی کی طرح) آپ کے ساتھ ایک گہرا رشتہ بنا لیتا ہے۔ یہ اس جانور کی سب سے بڑی خوبی ہے۔۔ اب بتاؤ، بھلا کوئی اپنے باپ یا بھائی کو قتل کر سکتا ہے؟

اللہ مجھے معاف کرے، میں نے یہ سخت سزا پانے کا گناہ کیا۔۔ باراک واقعی ایک خوب صورت ترین گھوڑا تھا۔ اس سے پہلے اتنا خوب صورت گھوڑا میں نے اپنی پوری زندگی میں نہیں دیکھا تھا

تمہارا باپ ایک ضدی آدمی تھا، اس نے ہماری ایک نہ سنی۔ اس نے گھوڑے کو مارنے دیا اور نہ ہی بیچ کر اس سے اپنی جان چھڑوائی

ابوابراہیم! اس پر کم از کم سواری تو مت کرو، مگر اللہ معاف کرے اس کو، وہ کسی کی بات کب سنتا تھا۔۔

تمہیں اپنی ماں کب یاد ہوگی۔تم نے تو اسے دیکھا ہی نہیں۔۔وہ ایک نہایت حسین عورت تھی۔ جو بھی اس سے ایک دفعہ مل لیتا تھا، اس کا گرویدہ ہو جاتا تھا۔ اللہ تمہارے باپ کی زندگی آسان کرے، وہ تمہاری ماں سے جنون کی حدتک عشق کرتا تھا۔ ان کے عشق کو مثالی قرار دیا جا سکتا ہے۔ تمہاری ماں واقعی ایک خوب صورت اور ذہین عورت تھی۔ ایک عورت میں ان دونوں خصوصیات کا اکٹھا ہونا بہت مشکل ہے

”تمہارے ماں باپ کی شادی کو بس ایک سال ہوا تھا، تمہاری پیدائش کے کچھ دن بعد گھوڑے نے تمہاری ماں کو دریا میں گرا دیا تھا

تم نے پوچھا ہے کہ ہم گھوڑے کوکیوں مارتے ہیں۔۔ میرے لیے اس سوال کا جواب دینا بہت مشکل بلکہ ناممکن ہے۔ کوئی عقلمند اور تجربہ کار شخص ہی اس کا بات جواب دے سکتا ہے۔ میں ایک بڈھا کھوسٹ۔۔آدمی ہوں، بہتر تھا تم کسی اور سے پوچھ لیتے

اور ہاں۔۔ ایک بات یاد رکھنا، تمہارا باپ تم سے بہت محبت کرتا ہے۔ ہاں جب سے تم پیدا ہوئے ہو، وہ تم سے خوف زدہ رہتا ہے۔ اگر تمہاری جگہ میں ہوتا تو کبھی یہ سوال نہ کرتا“

اس کا باپ اس سے کیوں اتنا خوف زدہ تھا، یہ سوال اس کے لیے ایک معمہ تھا۔ کوئی چیز تھی، جو اسے اندر سےہی اندر سے کھائے جا رہی تھی۔ وہ ایک ڈاکٹر تھا، شہر کے مختلف حلقوں میں لوگ اسے ایک شائستہ اور مہذب ماہر طبیب کے طور پر جانتے تھے۔وہ ایک معزز آدمی تھا، اپنی اب تک کی زندگی میں اس نے کبھی کوئی پتنگا بھی نہیں مارا تھا

’میں شہر میں ایک دردِ دل رکھنے والے ڈاکٹر کی حیثیت سے مشہور ہوں، تمام لوگ مجھ سے اتنا پیار کرتے ہیں، مجھے ایک بے ضرر انسان سمجھتے ہیں، ان کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کے مریضوں کا میرے علاوہ کوئی اور آپریشن نہ کرے۔ ایک میرا باپ ہے، جو مجھ سے انتہائی خوف زدہ رہتاہے۔‘ اس نے دل ہی دل میں سوچا

’میرا باپ، میرا باپ، مجھ سے خوف زدہ رہنے والا دنیا کا واحد شخص۔۔۔‘ وہ بڑبڑایا

ایک رات تو ایسا عجیب واقعہ ہوا، جس نے اس کی زندگی کی بازی پلٹ دی۔ وہ اپنے کمرے میں سو رہا تھا کہ اچانک اس نے اپنے باپ کے کراہنے کی آواز سنی۔ وہ بھاگ کر اس کے کمرے میں گیا۔ اس نے دیکھا کہ وہ انتہائی تکلیف دہ حالت میں بستر پر گرا پڑا ہے۔ اسے اپنڈکس کا درد تھا، حالت خطرناک تھی، اپنڈکس کسی بھی وقت پھٹ سکتا تھا۔ ہسپتال کے عملے نے اس کو ابتدائی طبی امداد دی، اسے اسٹریچرپر آپریشن تھیٹر کی طرف لے جایا جا رہا تھا کہ اس کے باپ نے اچانک سوال کیا ”میرا آپریشن کس ڈاکٹر نے کرنا ہے؟“

”آپ کا آپریشن اس شہر کا سب سے بہترین ڈاکٹر کرے گا ۔۔۔یعنی۔۔آپ کا قابلِ فخر بیٹا“ عملے میں سے کسی نے جواب دیا

یہ سنتے ہی اس کے باپ نے اسٹریچر سے چھلانگ لگا کر فرار ہونے کی کوشش کی۔ جب وہ اس میں کامیاب نہ ہو سکا تو زور زور سے رونے اور شورمچانے لگا ”میں نے اپنے بیٹے سے آپریشن نہیں کروانا، تم کسی قصائی کو بلوا لو، لیکن اس سے نہیں۔۔۔اف“ وہ زور سے چلایا

”کیوں۔۔۔ اس کے ہاتھوں سے اب تک ہزاروں لوگ شفایاب ہوئے ہیں“ کسی نے کہا

لیکن بوڑھا باپ کسی ضدی بچے کی طرح مسلسل روئے جا رہا تھا ”وہ مجھے مار دے گا، وہ مجھے مار دے گا“۔اس کی زبان پر بس یہی الفاظ تھے۔۔ ”میں نہیں چاہتا کہ میری سرجری۔۔میرا بیٹا کرے، مجھے کہا جائے کہ تم موت کے منہ میں جا رہے ہو۔۔اور ہسپتال میں اس وقت صرف ایک ہی ڈاکٹر موجود ہے، تمہارا بیٹا، میں پھر بھی اس سے آپریشن نہیں کراؤں گا“

ڈاکٹر بیٹے نے باپ کی یہ باتیں سنیں تو آبدیدہ ہو کر ویٹنگ روم میں بیٹھ گیا، اس نے اپنی جگہ ایک اور ڈاکٹر کو آپریشن کے لیے بھیج دیا تھا۔ جس ڈاکٹر نے اس کے باپ کا آپریشن کیا تھا، بعد میں اس کے پاس آیا، اس کے ہونٹوں پر ایک حیران کن مسکراہٹ تھی، اس نے کہا: ”یقین مانو، تمہارے باپ کا آپریشن میرے کیرئیر کا سب سے مشکل کام تھا، مجھے آج تک ایسا تجربہ نہیں ہوا، نشہ آور ادویات کے استعمال کی وجہ سے وہ مسلسل بڑبڑاتا رہا، اس نے مجھے کسی گھوڑے کو مارنے کی ایک عجیب داستان سنائی۔ ایک شیطانی قوت تھی جو گھوڑے پر حاوی ہو گئی تھی اور وہی قوت اس کی موت کا سبب بھی بنی۔۔

ڈاکٹر! کاش تم جان لیتے کہ تمہارے باپ کی یادداشت کتنی اچھی ہے۔ اسے اپنی جوانی کی ساری کہانیاں یاد ہیں۔ اس نے تمہاری ماں کی باتیں بھی بتائیں، باتوں باتوں میں وہ پھوٹ پھوٹ کر رو دیا، کہ میں اپنے پسندیدہ گھوڑے باراک کے قتل کا ذمہ دار ہوں“ ڈاکٹر نے حیرانی سے کہا

”اچھا، مجھے ساری باتیں ذرا تفصیل سے بتاؤ“ اس نے بے قراری سے پوچھا

”تمہارے باپ نے ایک گھوڑے کی کہانی سنائی، جو ایک طوفانی رات میں پیدا ہوا تھا، یہ دونسلوں کے ملاپ سے پیدا ہونے والا دنیا کا خوب صورت ترین گھوڑا تھا۔ اس کا رنگ سرمئی تھا اور گردن اور دم کے بال عام گھوڑوں سے زیادہ لمبے تھے۔ حیرت کی بات ہے کہ اس کے جسم پر کوئی داغ نہیں تھا

جیسے ہی وہ گھوڑا پیدا ہوا، اس نے دیوار پر چڑھنے کی کوشش کی، تمہارا باپ اس کی مدد کرنے لگا، جیسے ہی وہ گھوڑا اپنے قدموں پر کھڑا ہوا، دیوار کے دوسری جانب سے اس کے پڑوسی ابومحمد کی آواز آئی ’ابوابرہیم! اس گھوڑے کو اسی وقت ماردو‘

تمہارے باپ نے غصے سے پوچھا، وہ کیوں؟ ابومحمد نے جواب دیا، کیا تم نے اس کے جسم کے دائیں جانب خون کا دھبا نہیں دیکھا؟ اس دھبے کا مطلب ہے کہ یہ گھوڑا کسی روز تمہارے کسی بہت پیارے کی جان لے گا، یہ اپنے ساتھ شکار کا خون لے کر آیا ہے، اسے ابھی مار دو تو تمہارے حق میں بہتر ہوگا

مگر تمہارا باپ توہم پرستی کے سخت خلاف تھا،اس نے اس آرام دہ اور فرماں بردار گھوڑے کو اپنے پاس رکھنے کا فیصلہ کیا۔ اس کے بعد تمہارا باپ خاموش ہو گیا، سچی بات میں مجھے اس کہانی سے زیادہ اس کی خاموشی عزیز تھی، دراصل میں اس کہانی کو سن کر سحردہ ہو گیا تھا۔۔ میری توجہ آپریشن سے ہٹ رہی تھی، اس کی خاموشی کے بعد میں نے دوبارہ آپریشن شروع کیا

کیاتم نے زندگی میں کسی افسانوی کردار کو دیکھا ہے؟
کیا تم نے کبھی ایسا کوئی گھوڑا دیکھا ہے، جو اپنی گردن پر شکار کا خون لے کر پیدا ہوا ہو، تمہارے باپ کو اس بات کاپورا یقین تھا، وہ اسے روحانی حد تک ایک اٹل حقیقت سمجھتا ہے، کیا تمہیں اپنے باپ سے آج تک ایسی جھوٹی سچی کہانیاں سننے کا موقع نہیں ملا؟“

ڈاکٹر اس کے باپ کے متعلق گفتگو کر رہا تھا۔ باتوں ہی باتوں میں صبح ہو گئی

وہ گھر پہنچا تو اس کے ساتھی ڈاکٹر کی باتیں ایک بگولے کی طرح اس کے دماغ میں تباہی مچا رہی تھیں۔ وہ بار بار ایک عجیب طرح کی ہیجانی کیفیت میں چلا جاتا تھا

”اچھا تو اس تیس سالہ نفرت کے پیچھے یہ راز چھپا تھا، وہ اپنے باپ کے خوف کی وجہ جان گیا تھا۔ اسی وجہ سے وہ چاہتے تھے کہ اگر ان کا بیٹا گھوڑا ہوتا تواسے گولی مارنا آسان ہوتا“

یہ معمہ اس طرح حل ہوا، دراصل اس کی کمر پر ریڑھ کی ہڈی کے ساتھ دائیں طرف ایک گہرے سرخ رنگ کا دھبہ تھا۔۔ بالکل ویسا، جیسا باراک کے جسم پر تھا۔ اس نشان کو چُھو کر ایک دفعہ اس کی گرل فرینڈ نے کہا تھا ”میں نے اس طرح کا نشان آج تک نہیں دیکھا، یہ تو بالکل خون کے دھبے کی طرح ہے“ اس کا بے بس باپ اس نشان کی وجہ سے خوف زدہ تھا، جو اس نے اس کی پیدائش کے بعد یقیناََ اس کی کمر پر دیکھا ہوگا۔

باراک وہ گھوڑا تھا، جس نے اس کی ماں کو مار دیا تھا۔ اس نے اس کی ماں کا سر کچل کر اسے دریا میں دھکیل دیا تھا۔ اس کے جسم پر پایا جانے والا نشان باراک کی کمر کے نشان جیسا تھا۔ اس کا باپ اسی وجہ سے خوف زدہ تھا اور اسے کہتا تھا ’اگر تم گھوڑے ہوتے, میں گولی مار کر تمہارے سر کا بھیجا اڑا دیتا’

اتنی بے وقوفانہ کہانی اس کے ساتھ منسلک تھی۔ اس کہانی نے بہت سے لوگوں کی زندگیاں برباد کردی ہوں گی۔وہم کی ایک دیوار۔۔ جو تیس سال تک باپ اور بیٹے کے درمیان حائل رہی

کاش! ابومحمد اس بل کھاتے ہوئے ڈوری نما خونی دھبے کی طبی وجہ جانتا ہوتا، کیوں کہ اس کے باپ نے۔۔۔

’ابومحمد اور اس کے توہمات جیت گئے، میرا باپ ہار گیا۔۔اتنی بھاری قیمت ادا کی، میرے باپ نے’

اس نے خود سے سوال کیا ‹ایک بھورا یا لال دھبہ کیوں ہوتا ہے انسانی جسم پر، اس کی وجہ تو ہم جانتے ہیں لیکن اس کی جگہ کا تعین نہیں کر سکتے۔۔ اور نہ ہی وجہ جان پاتے ہیں کہ یہ کسی خاص جگہ پر کیوں نمودار ہوتا ہے’

ابومحمدکا کہنا تھا کہ باراک نامی گھوڑے نے اس کی ماں کو کچل کر مار دیا تھا، جب کہ وہ ایک نہایت حسین و جمیل عورت تھی۔ اسے گھڑسواری پر بھی پوری مہارت حاصل تھی۔ پھر باراک نے اسے کیوں مار دیا؟ خاص طور پر اس کے سر کو کیوں کچل دیا؟ اور پھر اسے دریا میں پھینک دیا۔ کسی بھی وجہ کے بغیر۔۔ سارے کا سارا زور اس کی ماں کے قتل پر ہی کیوں تھا۔۔ ابومحمد واقعی جنگ جیت گیا اور اس کا قابلِ رحم باپ ہار گیاتھا

”اب میرا باپ ایک اور جنگ لڑ رہا ہے، وہ بھی میرے ساتھ۔۔ اب ہم میں سے کون جیتے گا“ وہ چلتے چلتے رک گیا

ایک اذیت ناک سوچ ایک دھماکے کی طرح اس کے ذہن میں گونجی

”میں نے ایک باتونی ڈاکٹر کو اپنے باپ کی سرجری پر لگا دیا، اس میں میری مرضی شامل تھی“

وہ دراصل اپنے باپ کے رویے سے دل برداشتہ تھا، اس کی لاپروائی اس کے باپ کی جان بھی لے سکتی تھی۔ اس کی ساری توجہ اس کی باتوں کی طرف تھی

’اگر ایسا ہے تو میں ہی قاتل ہوں اپنے باپ کا، میں نے یہ کیا کر دیا۔۔میں پاگل ہوں؟’

ایک لمحے کے لیے وہ سکتے کی کیفیت میں چلا گیا، ہوش میں آتے ہی اس نے ہسپتال کی طر ف دوڑ لگادی

سورج اب طلوع ہوکر چاروں طرف روشنی پھیلا رہا تھا، اس کے بھاری قدم پتھریلی سڑک پر ایسے پڑ رہے تھے، جیسے تیزی سے بھاگتے ہوئے اچھلتے کودتے گھوڑوں کی قدموں کی آواز گونجتی ہے۔


نوٹ: اس افسانے کے مصنف غسان کنفانی(Ghassan Kanfani) عالمی سطح پر ایک سیاسی رہ نما کے طور پر شہرت رکھتے ہیں۔ وہ فلسطین کی تحریکِ آزادی کی جدوجہد کرنے والی ایک تنظیم پاپولر فرنٹ کے ترجمان تھے۔ وہ بہادری کے ساتھ اپنے خیالات پیش کرتے تھے۔ فلسطین میں غسان کنفانی سیاسی رہ نما ہونے کے علاوہ ایک اہم ادبی شخصیت کی حیثیت سے بھی متعارف ہیں۔ غسان کنفانی کاشمارفلسطین کے چنداہم ترین ادیبوں میں میں ہوتا ہے۔ان کی تحریروں میں موجود سماجی شعور انھیں سب سے منفرد کرتا ہے

غسان کنفانی ۶۳۹۱ء میں شمالی فلسطین میں پیداہوئے، وہاں سے ۸۴۹۱ء میں ان کا خاندان شام منتقل ہو گیا۔ اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد انھوں نے اپنے کیرئیر کا آغاز ایک استاد اور صحافی کی حیثیت سے کیا۔ وہ دمشق میں قیام پذیر تھے، یہاں سے انھوں نے کویت کا سفر اختیارکیا۔کچھ عرصے بعد مستقل طور پر لبنان کے شہر بیروت میں آباد ہوگئے۔یہاں انھوں نے مختلف اخبارات میں مضامین لکھنے شروع کیے۔ اس کے بعد انھوں نے اپنی تنظیم کے ترجمان اخبار ”الہدف“ کی ادارت سنبھال لی۔ ان کی کوششوں سے یہ اخبار بیرونی دنیا میں فلسطینیوں کا نمائندہ اخبار بن گیا۔ ۲۷۹۱ء میں غسان کنفانی اپنی بھتیجی کے ساتھ کار بم کے دھماکے میں مارے گئے۔ غسان کنفانی نے پانچ ناول، پانچ افسانوی مجموعے، دوڈرامے اور سیاسی اور سماجی موضوعات پر مشتمل مضامین کی دو کتابیں یادگار چھوڑیں۔


Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close