چین کے فٹبال حکام نے ہفتے کو کرونا وائرس کی وبا کی وجہ سے چین ایشین کپ 2023ع کی میزبانی سے دستبردار ہونے کا اعلان کیا ہے
اولمپک مقابلوں کے حجم کے ایشین گیمز، جو ستمبر میں ہانگزو میں ہونے والے تھے، پہلے ہی گذشتہ ہفتے ملتوی کر دیے گئے تھے، جب کہ ہفتے کو ایشین فٹبال کنفیڈریشن (اے ایف سی) نے کہا کہ چین اب ایشین کپ کی میزبانی نہیں کرے گا
چین کے فٹبال حکام نے گورننگ باڈی کو آگاہ کر دیا ہے کہ وہ چوبیس ٹیموں کے مقابلے کی میزبانی نہیں کر سکیں گے۔ یہ مقابلہ اگلے سال جون اور جولائی میں چین کے دس شہروں میں ہونے تھے۔ ابھی تک نئے میزبان کی نامزدگی نہیں کی گئی
اے ایف سی کا کہنا ہے کہ ٹورنامنٹ سے متعلق اگلے اقدامات کا اعلان مناسب وقت پر کیا جائے گا
گورننگ باڈی کے بیان کے مطابق: ’اے ایف سی کووڈ 19 کی وجہ پیدا ہونے والے غیرمعمولی حالات کو تسلیم کرتی ہے جن کی بنا پر (چین) اپنے میزبانی کے حقوق سے دستبردار ہوا‘
امریکی خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق ایشین فٹ بال کنفیڈریشن نے کہا ہے کہ ’یہ بہت مشکل لیکن اے ایف سی کپ کے اجتماعی مفاد میں ضروری فیصلہ‘ کرنے پر چین کے فٹبال حکام کی تعریف کی ہے
چین کے ایشین کپ کی میزبانی سے دستبردار ہونے کے بعد قطر یا سعودی عرب ٹونارمنٹ کی میزبانی کر سکتے ہیں
دونوں ممالک 2027 کے ایڈیشن کی میزبانی کے لیے بولی میں حصہ لے رہے ہیں۔ بھارت اور ایران بھی ٹورنامنٹ کے 2027 کے ایڈیشن کی میزبانی کے امیدوار ہیں۔ اس حوالے سے کوئی فیصلہ اگلے سال کے شروع میں متوقع ہے
نومبر میں شروع ہونے والے ورلڈ کپ 2022ع کی میزبانی کے لیے قطر کے پاس اسٹیڈیمز موجود ہیں تاہم موسم گرما میں شدید گرمی کی وجہ سے قطر کی جانب سے 2023ع کے جون میں ایشین کپ کی میزبانی کا امکان نہیں ہے۔ اس ضمن میں 2024ع کا شروع بہترانتخاب ہو سکتا ہے
واضح رہے کہ چین کی صفر کووڈ پالیسی کی وجہ سے ملک میں کھیلوں کے حوالے سے عزائم کو دھچکا لگا ہے
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق چینی حکام وائرس کو مکمل طور پر ختم کرنے کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہیں جس میں تیزی سے لاک ڈاؤن کا نفاذ اور بڑے پیمانے پر ٹیسٹنگز شامل ہیں
شنگھائی میں لاکھوں افراد کو ایک ماہ سے زیادہ عرصے سے سخت پابندیوں کا سامنا ہے
دوسری جانب عالمی سطح پر اب اس قسم کے اقدامات کم ہی کیے جا رہے ہیں کیوں کہ زیادہ تر ممالک نے کووڈ کے ساتھ زندہ رہنے کی پالیسی اپنا لی ہے۔ لیکن چین کے اقدامات نے کھیلوں کے مقابلوں کی میزبانی کو بڑا چیلنج بنا دیا ہے.