تاج محل کے بند کمروں کا راز آخر کیا ہے؟

ویب ڈیسک

کیا دنیا کی سب سے بڑی یادگاروں میں سے ایک کے قفل شدہ تہہ خانوں میں کوئی راز چھپا ہے؟ ممکن ہے ایسا ہو لیکن بھارت میں ہائی کورٹ سے تعلق رکھنے والے جج ایسا نہیں سوچتے

جمعرات کو بھارتی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے ایک رکن کی طرف سے دائر کی گئی درخواست کو مسترد کر دیا گیا، جس میں تاج محل کے بیس سے زیادہ ’مستقل طور پر بند کمروں‘ کے دروازے کھولنے کا مطالبہ کیا گیا تھا تاکہ ’یادگار کی حقیقی تاریخ‘ کا پتا لگایا جا سکے

رجنیش سنگھ نے عدالت کو بتایا کہ وہ ’تاریخ دانوں اور عبادت گزاروں کے دعوؤں‘ کی تصدیق کرنا چاہتے ہیں کہ کمروں میں ہندو دیوتا شیو کا مزار ہے

تاج محل آگرہ شہر میں سترہویں صدی کے دریا کے کنارے کا ایک مقبرہ ہے، جسے مغل بادشاہ شاہ جہاں نے اپنی ملکہ ممتاز کی یاد میں تعمیر کرایا تھا، جو اپنے چودہویں بچے کو جنم دیتے وقت فوت ہو گئی تھیں

حیرت انگیز یادگار جو اینٹوں، سرخ ریت کے پتھر اور سفید سنگ مرمر سے تعمیر کی گئی، یہ اپنی پیچیدہ جالیوں کے کام کے لیے مشہور ہے اور بھارت کے سب سے بڑے سیاحتی مقامات میں سے ایک ہے لیکن تسلیم شدہ تاریخ بی جے پی رہنما کے لیے قابل قبول نہیں

انہوں نے عدالت سے استدعا کی ”ہم سب کو معلوم ہونا چاہیے کہ ان کمروں کے اندر کیا ہے“

واضح رہے کہ بہت سے مقفل کمرے، جن کی جانب رجنیش سنگھ اشارہ کر رہے ہیں، وہ مقبرے کے زیرِ زمین چیمبر میں واقع ہیں اور یادگار کی سب سے زیادہ مستند دستاویزی تاریخ کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جاتا ہے کہ وہاں کچھ زیادہ نہیں

تاج محل کی مجسٹریل اسٹڈی کی مصنفہ ایبا کوچ نے اپنی تحقیق کے دوران تاج محل کے کمروں اور گزرگاہوں کا دورہ کیا اور ان کی تصویر کشی کی

یہ کمرے گرمی کے مہینوں میں تہہ خانے یا زیرِ زمین کوٹھری کا حصہ ہوتے تھے۔ یادگار کے دریا کے رخ پر برآمدے میں ایک گیلری ’کمروں کے ایک سلسلے‘ پر مشتمل ہے۔ ایبا کوچ کو پندرہ کمرے ملے، جو دریا کے رخ کے ساتھ ایک قطار میں ترتیب سے تعمیر کیے گئے اور ایک تنگ راہداری یہاں تک جاتی ہے

سات بڑے کمرے تھے، جن میں ہر طرف طاق بنے ہوئے تھے، چھ مربع کمرے اور دو بڑے کمرے اصل میں خوبصورت محرابوں کے ذریعے دریا کا منظر دیکھنے کے لیے ہیں

انہوں نے دیکھا کہ کمروں میں ’سفیدی کے نیچے پینٹ شدہ نقش و نگار کے اثرات ہیں۔ کمروں کی چھت پر خوبصورت دائروں میں نقش و نگار ہیں اور چھت کے بیچ میں جالی دار نمونے‘ تھے

ایشین آرٹ کی پروفیسر کوچ کے مطابق ’یہ ایک خوبصورت ہوا دار جگہ ہے، جو شہنشاہ، ان کی خواتین اور ان کے رفقا کو مقبرے کی زیارت کے دوران ایک ٹھنڈی آرام گاہ فراہم کرنے کے لیے بنایا گیا تھا۔ اب اس میں قدرتی روشنی نہیں‘

ایسی زیرِ زمین گیلریاں مغل فن تعمیر میں جا بجا ملتی ہیں۔ پاکستان کے شہر لاہور میں مغلیہ دور کے ایک قلعہ میں بھی، دریا کے رخ پر قائم اس طرح کے کمروں کا ایک سلسلہ ہے

امیتا بیگ، ایک بھارتی کنزرویٹر ہیں، جنہوں نے تقریباً بیس سال قبل اس جگہ کا دورہ کیا تھا۔ وہ کہتی ہیں کہ شاہ جہاں اکثر دریائے جمنا پر کشتی کے ذریعے تاج محل پہنچتے تھے اور سیڑھیوں یا گھاٹوں کے ایک وسیع سلسلے سے ہوتے ہوئے مقبرے میں داخل ہوتے تھے

امیتا بیگ کہتی ہیں ’جب میں نے اس جگہ کا دورہ کیا تو مجھے خوبصورتی سے پینٹ کی گئی راہداری کا خیال آیا۔ مجھے ایک بڑی جگہ میں کھلنے والی راہداری یاد ہے۔ یہ واضح طور پر شہنشاہ کی گزرگاہ تھی‘

آگرہ میں پرورش پانے والی اور دلی میں مقیم مورخ رانا صفوی کو یاد ہے کہ زیر زمین کمرے سنہ 1978ع میں آنے والے سیلاب تک زائرین کے لیے کھلے تھے

وہ بتاتی ہیں ’پانی یادگار میں داخل ہو گیا تھا، زیر زمین کچھ کمروں میں گڑھے اور کچھ دراڑیں پڑ گئی تھیں۔ اس کے بعد حکام نے کمروں کو عوام کے لیے بند کر دیا تھا۔ ان میں کچھ بھی نہیں۔‘ بحالی کا کام کرنے کے لیے وقتاً فوقتاً کمرے کھولے جاتے ہیں

تاج محل کے بارے میں کئی افسانے گھڑے جاتے ہیں
ان افسانوں میں شاہ جہاں کی موجودہ یادگار کے بالمقابل ’سیاہ تاج‘ بنانے کے منصوبے شامل ہیں اور یہ بھی کہ تاج محل ایک یورپی معمار نے بنایا تھا

کچھ مغربی محققین کے بقول کہ یہ مسلم معاشروں میں خواتین کے کمتر مقام کی وجہ سے کسی عورت کے لیے نہیں بنایا جا سکتا تھا، ایسا کہنے والے اسکالروں نے اسلامی دنیا میں خواتین کے لیے بنائے جانے والے دیگر مقبروں کو نظر انداز کر دیا ہے

یادگار پر پُرجوش گائیڈ سیاحوں کو یہ کہانیاں سناتے ہیں کہ کس طرح شاہ جہاں نے عمارت مکمل ہونے کے بعد معمار اور مزدوروں کو قتل کیا

بھارت میں ایسے بے شمار افسانے ہیں کہ تاج اصل میں ایک ہندو مندر تھا، جو شیو کے لیے وقف تھا۔ سنہ 1761ع میں ایک ہندو بادشاہ سورج مل کے آگرہ فتح کرنے کے بعد، ایک درباری پجاری نے تاج کو مندر میں تبدیل کرنے کا مشورہ دیا

پی این اوک، جنہوں نے سنہ 1964ع میں ہندوستانی تاریخ کو دوبارہ لکھنے کے لیے ایک انسٹیٹیوٹ کی بنیاد رکھی، نے ایک کتاب میں دعویٰ کیا کہ تاج محل درحقیقت شیو مندر تھا

سنہ 2017ع میں بی جے پی رہنما سنگیت سوم نے تاج محل کو ہندوستانی ثقافت پر ایک ’دھبہ‘ قرار دیا، کیونکہ اسے ’غداروں نے بنایا تھا‘

اس ہفتے، دیا کماری، ایک بی جے پی ایم پی، نے کہا کہ شاہ جہاں نے ایک ہندو شاہی خاندان کی ملکیتی ’زمین‘ پر قبضہ کر لیا اور یادگار تعمیر کرائی

رانا صفوی کا کہنا ہے کہ ان نظریات نے گذشتہ ایک دہائی یا اس سے زیادہ عرصے میں انتہا پسند طبقے کے درمیان نئی مقبولیت حاصل کی ہے

وہ کہتی ہیں ”انتہا پسند طبقے کو جعلی خبروں، جھوٹی تاریخ اور ہندوؤں کے نقصان اور مظلومی کے احساس سے پروان چھڑایا جاتا ہے“

ایبا کوچ کا کہنا ہے ”ایسا لگتا ہے کہ تاج کے بارے میں افسانے اس پر سنجیدہ علمی تحقیق سے کہیں زیادہ ہیں“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close