سکھر: صرافہ بازار کے کچرے اور نالیوں سے سونا نکالنے والے لوگ۔۔

ویب ڈیسک

ایسے لوگوں کے بارے میں تو آپ نے سنا ہوگا جو دریا کے بہتے پانیوں میں سے سونا نکالتے ہیں۔ گلگت بلتستان میں اور بالائی علاقوں میں بہتے دریا کے کنارے خیمہ بستیوں میں آباد ان قبیلوں کے لوگوں کا روزگار ہی یہی ہے۔ یہ ایک محنت طلب کام تو ہے ہی لیکن یہ لوگ بخوبی جانتے ہیں کہ کس جگہ سونا موجود ہے اور کہاں نہیں

سال بھر یہ قبیلے موسم سرما کا انتظار کرتا ہیں اور نومبر کا مہینہ آتے ہی ان سونا نکالنے والوں کی چاندی ہو جاتی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ موسم سرما میں دریاؤں میں پانی کی سطح کم ہو جاتی ہے تو ان کے لیے ریت چھان کر سونا نکالنا آسان ہو جاتا ہے

پانی میں سونا تو ہے لیکن اسے ڈھونڈ نکالنا ایک فن ہے۔ جگہ کا تعین کرنے کے بعد مختلف لیکن روایتی اوزاروں سے یہ سونا نکالا جاتا ہے۔

سارا کام مکمل کر لینے کے بعد یہ سونا ٹھیکیداروں کو فروخت کر دیا جاتا ہے، جو اسے آگے مارکیٹوں میں لے جاتے ہیں

لیکن سکھر کے رونق لعل چالیس سال سے صرافہ بازار کے کچرے سے سونے کے ذرّات تلاش کرنے کا کام کر رہے ہیں

صرافہ بازار میں دکاندار اپنی دکانوں کی صفائی کے دوران دھول، مٹی اور کچرہ باہر پھنک دیتے ہیں، جسے وہ ہر روز علی الصبح جمع کرتے ہیں

رونق لعل بتاتے ہیں ”میرے والد یہی کام کرتے تھے اور اب میں اپنے گھر کی کفالت کے لیے اس کام کو اپنائے ہوئے ہوں“

انہوں نے مزید بتایا کہ اس کام کے لیے خاصا پانی درکار ہوتا ہے، جس کے لیے وہ مجبوراً نالیوں کا گندہ پانی نکالتے ہیں اور مٹی کو چھان کر اس میں سے سونے کے چند ملی گرام ذرات جمع کرتے ہیں

پچاس سالہ رونق کہتے ہیں ”یہ انتہائی مشکل کام ہے۔ پہلے جب سونے کے نرخ کم تھے تو ہمارا روزگار اچھا خاصا تھا کیونکہ جب پچاس ہزار روپے تولہ سونا تھا تو دکان دار سو، دو سو ملی گرام سونے کو اہمیت نہیں دیتے تھے اور ہمارے لیے چھوڑ دیتے تھے، مگر جب سے سونے کے نرخ بڑھے ہیں، دکانداروں نے بہت زیادہ احتیاط کرنا شروع کردی ہے“

انہوں نے بتایا کہ وہ آج کل بمشکل تین چار سو ملی گرام جمع کر پاتے ہیں، جس کے انہیں پانچ سے چھ سو روپے مل جاتے ہیں

رونق کے مطابق انہوں نے اپنے تین بچوں کو اچھی پڑھائی کے لیے نجی اسکول میں داخل کروایا تھا، لیکن مہنگائی کی وجہ سے وہ ایک سال سے فیس نہیں دے پائے نتیجتاً اسکول نے بچوں کو بے دخل کر دیا

سکھر صرافہ بازار ایسوسی ایشن کے رہنما جاوید میمن نے بتایا ”سونا مہنگا ہونے کی وجہ سے ان کا کاروبار متاثر ہوا ہے۔ اس کے علاوہ اب مارکیٹ میں زیادہ فینسی اور بنا بنایا کام آ گیا ہے، جسے گاہک زیادہ پسند کرتے ہیں“

ان کا مزید کہنا تھا کہ دکانوں میں بنوائی یا مرمت کا کام کم ہونے سے ویسٹیج کم ہو چکا ہے، جس کا اثر سونے کے ذرات جمع کرنے والے مزدوروں پر بھی پڑا ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close