ایم کے الٹرا: ’ذہن کو کنٹرول‘ کرنے کے لیے سی آئی اے کے خفیہ منصوبے کی لرزہ خیز کہانی

ویب ڈیسک

چالیس سال قبل امریکی سینٹرل انٹیلیجنس ایجنسی (سی آئی اے) پر ایسی دستاویزات منظر عام پر لانے کے لیے دباؤ ڈالا گیا، جن کے منظر عام پر آنے سے پتا چلا کہ انسانی ذہن کو کنٹرول کرنے کے تجربات کی مدد کی گئی، جس میں متاثرین کو بتائے بغیر الیکٹرک شاک، منشیات اور دیگر خوفناک طریقے استعمال کیے گئے

ظلم کی اس انتہا کے بارے میں متاثرین کو کئی دہائیوں بعد علم ہوا۔ ’ایم کے الٹرا‘ نامی اس ٹاپ سیکرٹ منصوبے کی ایک سیاہ تاریخ ہے

اسے 1950ع کی دہائی میں شروع کیا گیا جب سرد جنگ اپنے عروج پر تھی

کوریا جنگ سے نکلنے والے کچھ قیدیوں نے جب امریکہ میں کمیونسٹ مہم کے لیے شور ڈالا تو امریکی انٹیلیجنس کمیونٹی پریشان ہو گئی

انھیں ڈر تھا کہ چین اور سویت یونین نے ذہن کو کنٹرول کرنے کے طریقے ڈھونڈ نکالے ہیں اور ان کے ایجنٹ خفیہ معلومات دے سکتے ہیں۔ سی آئی اے نے انسانوں پر نفسیاتی تجربوں کے لیے ڈھائی کروڑ ڈالر مختص کیے تھے

نفسیات کے ماہر ہاروی ایم وینٹسین نے کتاب ’فادر، سن اینڈ دی سی آئی اے‘ لکھی ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’اس منصوبے کا مقصد یہ تھا کہ انسانوں کو کمزور کر کے ان کی تفتیش کیسے کی جائے۔ اس کا مقصد اپنے عملے کو ایسی تدابیر سے محفوظ کرنا بھی تھا‘

سی آئی اے نے جعلی کمپنیوں کی مدد سے امریکہ، برطانیہ اور کینیڈا میں 80 اداروں اور سائنسدانوں سے رابطے کیے۔ مورخ ٹام اونیل بتاتے ہیں کہ ’یہ امریکہ میں سی آئی اے کا سب سے خفیہ منصوبہ تھا‘

’نفسیاتی ہسپتالوں میں مریضوں، وفاقی جیلوں میں قیدیوں اور کچھ عام لوگوں کو منشیات دی گئی اور بلااجازت تجربے کیے گئے‘

تیزاب ٹیسٹ

ایم کے الٹرک کے ابتدائی پراجیکٹس میں ’آپریشن مڈنائٹ کلائمیکس‘ شامل تھا

انہوں نے ایسے مقامات قائم کیے، جنہیں ’سیف ہاؤس‘ یا محفوظ مقام کا درجہ دیا گیا۔ یہاں مرد بغیر کسی تنبیہ کے جسم فروش خواتین کو لاتے تھے اور انہیں ایل ایس ڈی دیتے تھے تاکہ سی آئی اے کے سائنسدان ان پر تحقیق کر سکیں۔ وہ آئینے کے پس پردہ انہیں دیکھتے تھے

لوگوں کو ایسی پارٹیوں میں مدعو کیا جاتا رہا، جہاں لائیو موسیقی کے ساتھ ایل ایس ڈی دی جاتی تھی

ان پارٹیوں کو ’ایسڈ ٹیسٹ‘ یا تیزاب ٹیسٹ کہتے تھے۔ ایسی دعوتوں نے کچھ سال بعد امریکہ میں ’ہپی کلچر‘ اور نفسیاتی تحریکوں کو بڑھاوا دینے میں اہم کردار ادا کیا

مگر بعض سب سے نقصان دہ تجربے مانٹریال کے ایلن میموریل انسٹیٹیوٹ میں کیے گئے۔ یہ کینیڈا کا ایک نفسیاتی علاج کا ہسپتال ہے۔ یہاں مریضوں کی ایک نامعلوم تعداد کے ذہنوں کو ایک طریقے سے تباہ کیا گیا

دی ایلن

اس ہسپتال کو ’دی ایلن‘ کے نام سے جانا جاتا تھا اور اسے اسکاٹش امریکی ڈونلڈ ایون کیمرون چلاتے تھے۔ انہیں دنیا کے صف اول کے نفسیات کے ڈاکٹروں میں شمار کیا جاتا تھا

کیمرون سنہ 1952 سے 1953 اور پھر 1963 میں امریکی سائیکٹرک ایسوسی ایشن (اے پی اے) کے صدر رہے۔ وہ سنہ 1958 سے 1959 میں کینیڈین سائیکٹرک ایسوسی ایشن، 1965 میں سوسائٹی آف بیالوجیکل سائیکٹری، اور سنہ 1961 سے 1966 کے دوران ورلڈ سائیکٹرک ایسوسی ایشن کے صدر رہے

اسی لیے لو، نفسیاتی ماہر ہاوی وینسٹین کے والد، چاہتے تھے کہ وہ ان کا علاج کریں جب انہیں اچانک پریشانی کے دورے پڑنے لگے۔ ’خوفناک چیزیں ہوئیں۔ پھر ایم کے الٹرا کی دستاویزات منظرِ عام پر آئیں۔ مجھے آج تک ان کے رویے میں تبدیلی کی وجوہات سمجھ نہیں آئیں‘

لو سماجی طور پر متحرک شخص تھے، جنہیں گانا پسند تھا۔ وہ اپنا کاروبار چلاتے تھے۔ جب وہ دی ایلن نامی اس ہسپتال سے نکلے تو ان کی زندگی اور خاندان تباہ ہو چکے تھے

وہ واحد شخص نہیں تھے… بلکہ وہاں سے نکلنے والے سینکڑوں افراد کے ساتھ ایسا ہوا۔ لانا پونٹنگ بتاتی ہیں کہ ’میرے والدین کو مجھ سے مسائل ہو رہے تھے۔ پھر انہوں نے مجھے دی ایلن میں ڈال دیا۔ انہیں بالکل نہیں پتا تھا کہ وہاں کیا ہو رہا ہے۔ میں صرف سولہ سال کی تھی۔ جب میرے والدین مجھے واپس لینے آئے تو میں کسی زومبی جیسی دکھائی دینے لگی۔ مجھے معلوم ہی نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں‘

نرس ایستھر شرائر کو اس وقت دی ایلن میں داخل کیا گیا، جب وہ حاملہ تھیں اور انہیں ڈر تھا کہ وہ اپنا بچہ کھو دیں گی۔ پہلے ان کے ایک بچے کی موت ہو چکی تھی۔ ان کا علاج اس وقت مکمل ہوا، جب ان کے بچے کی پیدائش میں ایک ماہ باقی تھا

کئی سال بعد انہوں نے بتایا کہ جب وہ باہر نکلیں تو ان کے کیا حالات تھے ’میرے بچے کی پیدائش ہوئی اور مجھے نہیں معلوم تھا کہ اس کے ساتھ کیا کرنا ہے۔ ایک بیبی سٹر (ملازم) میری مدد کر رہی تھی۔ مثلاً ایک دن انہوں نے جاتے ہوئے میرے لیے اپنی نوٹ بُک میں لکھا کہ ’آپ نے مجھے کہا جاؤ کمرے میں، بچہ اٹھاؤ… اور قدم بہ قدم بچے کو کھلانے کا طریقہ بتایا۔ یہ بہت خوفناک تھا‘

ڈاکٹر کیمرون

سی آئی اے نے ایم کے الٹرا کے آغاز کے تین سال بعد ڈاکٹر کیمرون سے سوسائٹی آف ہومن ایکالوجی ریسرچ کے ذریعے رابطہ کیا۔ یہ ان کی ایک جعلی تنظیم تھی، جس سے امداد کی جاتی تھی

انہوں نے ڈاکٹر کیمرون کی جنوری 1957ع سے ستمبر 1960ع تک گرانٹ حاصل کرنے میں حوصلہ افزائی کی۔ سی آئی اے نے ڈاکٹر کیمرون کو ساٹھ ہزار ڈالر دیے، جو آج چھ لاکھ ڈالر بنتے ہیں

کیمرون ایک نئی سائنسی حکمت عملی بنا رہے تھے، جس کے تحت ذہن کسی کمپیوٹر کی طرح ہوتا ہے اور اسے یادداشت مٹا کر نئے سرے سے پروگرام کیا جا سکتا ہے۔ اس طرح از سر نو ذہن سازی ممکن ہو سکتی تھی۔ اس کے لیے مریضوں کو بچوں جیسی نفسیاتی حالت میں لانا ہوتا تھا جس میں ڈاکٹر کسی شخص کی ذہنی کمزوری کا فائدہ اٹھا سکیں

ذہن سازی کے ایسے آغاز میں انسانوں کی یادداشت کے اندر نئے خیالات ڈالے جا سکتے تھے اور کسی کو یہ احساس نہ ہوتا کہ یہ خیال ان کے اپنے نہیں ہیں

نفسیاتی تجربوں کا طریقہ

چھوٹی موٹی بیماریوں جیسے پوسٹ پارٹم ڈپریشن یا پریشانی کی حالت کے علاج کے لیے ہسپتال آنے والے مریضوں کو یہاں داخل کر لیا جاتا، جہاں انہیں کئی دنوں یا مہینوں تک کیمیائی کوما میں رکھا جاتا

کیمرون کی تھیوری کے مطابق زیادہ پاور اور فریکوینسی والے الیکٹراک شاک دے کر ان کے ذہن کو ’ختم‘ کر دیا جاتا، جس سے وہ ایسی حالت میں آ جاتے، جس سے وہ بہتر ذہنی صلاحیت حاصل کر سکیں

لانا شوچک کے والد اس وقت صحتمند شخص تھے، جب وہ دمے کے علاج کے لیے دی ایلن گئے۔ انہوں نے بتایا ’میرے والد کو 54 ہائی وولٹیج الیکٹرک شاک دیے گئے، جس کے بعد انھیں 54 بار گرینڈ مال سیژر ہوا (ایسی حالت میں آپ ہوش کھو بیٹھیں اور پٹھوں میں کھچاؤ پیدا ہو)‘

جولی ٹینی، جن کے والد کو ایسے ہی ایک پروگرام میں رکھا گیا، کا کہنا ہے کہ ’الیکٹرک شاک کے ستائیس روز بعد انہوں نے کہا کہ ان کی حوصلہ شکنی ہوئی ہے کیونکہ وہ اب بھی اپنی پرانی زندگی کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ وہ اپنی اہلیہ کو بار بار بلا رہے تھے‘

’انہوں نے انہیں مزید الیکٹرک شاک دینے کا فیصلہ کیا اور مزید تیس دنوں کے لیے سُلا دیا‘

مریضوں کو بلا اجازت زبردستی نفسیاتی اثرات والی منشیات جیسے ایل ایس ڈی اور پی سی پی دیے گئے

کیمرون کے ’ری پروگرامنگ‘ تجربے کے تحت مریضوں کو ہیڈفونز یا اسپیکرز کے ذریعے مخصوص پیغام دن میں بیس گھنٹوں تک سنائے جاتے۔ یہ اسپیکر مریضوں کے تکیے میں رکھے گئے تھے۔ وہ نیند میں ہوں یا جاگے ہوئے، ان پیغامات کی آواز ان کے کانوں میں جاتی رہتی

کچھ پیغام منفی تھے، جیسے ’میری والدہ مجھ سے نفرت کرتی ہیں‘ بعض میں ہدایات دی جاتیں کہ ’آپ کو اچھا سلوک کرنا ہوگا‘ دستاویزات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ پیغام ہر سیشن میں پانچ لاکھ بار تک بھی سُنائے گئے

نفسیاتی ڈاکٹر ہاروی وینسٹین کے مطابق کیمرون کی تحقیق میں حواس سے اس قدر محروم رکھا جاتا کہ کسی کو بھی حقیقت سے دور لے جایا جا سکتا تھا

وہ کہتے ہیں ’میرے والد کو ایک ایسے سیل میں رکھا گیا، جہاں ان کے ہاتھ باندھے ہوئے تھے۔ وہ اندھیرے میں کچھ بھی محسوس نہیں کر سکتے تھے۔ وہ کچھ بھی دیکھ نہیں سکتے تھے۔ مسلسل شور میں کچھ بھی سن نہیں سکتے تھے‘

’انہیں بنیادی طور پر معمول کے حواس سے محروم کر دیا گیا۔‘ لو وینسٹین کو اس حالت میں دو ماہ تک رکھا گیا

بچوں کی حالت

ہاروی بارہ سال کے تھے، جب لو کو پہلی بار دی ایلن داخل کروایا گیا۔ سنہ 1961ع میں وہ نوجوان تھے، جب خاندان نے اخراجات پورے کرنے کے لیے گھر بیچ دیا۔ اس افسوس ناک وقت کے دوران بھی خاندان کو ڈاکٹروں کے مشوروں پر یقین تھا

لیکن وہ لڑکا، جو بعد میں خود نفسیاتی ڈاکٹر بنا، اسے اپنے والد سے محروم ہونا پڑا

’یہ قابل آدمی مردہ انسان جیسی حالت میں جا چکا تھا۔ وہ آرگینک برین سنڈروم سے متاثر ہوئے۔ وہ صوفے پر لیٹے رہتے اور کچھ بھی کرنے کے قابل نہیں رہے۔ ان کی شخصیت کو مکمل تباہ کر دیا گیا۔ کبھی کبھار انہیں یہ معلوم نہیں ہوتا تھا کہ وہ کہاں ہیں۔‘

دوسرے مریضوں میں سے کچھ کی یادداشت ختم ہو گئی اور انہیں اپنے خاندان کے افراد بھول گئے یا مستقبل بھولنے کی بیماری ہو گئی

کئی مریض جب اپنے گھروں کو لوٹے تو ان کے ذہن کسی بچے جیسے تھے۔ انہیں بیت الخلا جانے کی تربیت بھی دوبارہ دینا پڑی۔ اس علاج کے طریقوں اور مقاصد کے بارے میں خاندانوں کو گمراہ کیا گیا اور انہیں باقی کی زندگی اس سے متاثر ہونا پڑا

پروگرام کا خاتمہ اور خاندانوں کا غصہ

ایم کے الٹرا منصوبے کو بظاہر 1964ع میں روک دیا گیا، لیکن اسے حقیقتاً 1973ع تک نہیں ختم کیا گیا تھا۔ ایسے شواہد ملے ہیں کہ اس کی سرگرمیوں کی نشانیاں مٹائی گئیں

ٹام اونیل کہتے ہیں ’صحافی جان مارکس نے 1979ع میں اپنی کتاب ’دی سی آئی اے اینڈ مائینڈ کنٹرول‘ میں اس حوالے سے بتایا ہے‘

جب ہاروی نے اس کتاب کا ریویو پڑھا تو انہیں اطمینان ہوا۔ انہیں معلوم ہوا کہ جو ان کے والد کے ساتھ ہوا، اس کی کوئی وضاحت ہے۔ مگر یہ سکون پھر غصے میں تبدیل ہو گیا

’مجھے اس ڈاکٹر پر غصہ تھا، جس نے دی ایلن میں یہ سب کیا۔ مجھے سی آئی اے پر غصہ تھا جنہوں نے لوگوں پر بلا اجازت تجربہ کیے۔ یہ شدید غم کا احساس تھا۔ خاص کر 1946ع میں نیورمبرگ قوانین کے بعد‘

کیمرون ان نفسیاتی ماہرین میں سے تھے، جنہیں نازی فوجیوں کے مقدموں کے دوران ان کی جانچ کے لیے بلایا گیا تھا۔ یہ پہلا موقع تھا کہ انسانوں پر تجربے کے اخلاقی قوانین دیے گئے

ان مقدموں میں نازی ڈاکٹروں کو بغیر اجازت مریضوں پر تجربے کرنے کے الزام میں سزائیں سنائی گئی تھیں

اس کا انجام اچھا نہیں ہوا

اونیل بتاتے ہیں کہ ان تفصیلات کے منظر عام پر آنے کے بعد 1970ع کے وسط میں امریکی کانگریس میں سماعتیں ہوئیں اور سی آئی اے نے بالآخر تسلیم کیا کہ یہ منصوبہ اپنا وجود رکھتا تھا، جو کہ شاید اچھی بات نہیں تھی

تاہم وہ بتاتے ہیں ’سی آئی اے کو معلوم تھا کہ وہ ایسے تجربے کر کے اخلاقی اور لیگل قوانین توڑ رہے ہیں۔

پاپ کلچر میں کچھ دلچسپی کے علاوہ اکثر متاثرین نے خاموشی سے ان حالات کا مقابلہ کیا اور یہ اپنا صدمہ لے کر آخری سانسیں لیں

دستاویزات کے منظر عام پر آنے کے بعد ہاروی کی طرح دیگر متاثرین اور ان کے خاندانوں نے بھی اپنے حالات کا ذکر کیا۔ انہوں نے اس کہانی کو بیان کرنے کی کوشش کی ہے کہ آخر ہوا کیا تھا

لنڈا میکڈونلڈ کو چھبیس سال کی عمر میں ڈپریشن کے علاج کے لیے ہسپتال داخل کیا گیا۔ وہ بتاتی ہیں کہ ’میرا تعارف ڈاکٹر کیمرون سے کرایا گیا اور مجھے اب وہ بالکل بھی یاد نہیں‘

’مجھ میں شیزوفرینیا کی تشخیص ہوئی۔ مجھے اس بارے میں بجس سال بعد اپنی فائل پڑھنے پر پتا چلا۔ انہوں نے مجھے الیکٹرک شاک اور ایل ایس ڈی کی بھاری مقدار دی۔ اس حوالے سے میری یادداشت بالکل ختم ہو چکی ہے۔ دی ایلن یا اس سے پہلے کی زندگی کے بارے میں سب کچھ بھول گیا ہے‘

کچھ متاثرین سے اب تک معافی نہیں مانگی گئی اور نہ ہی انہوں نے مالی معاوضے کے لیے ان اداروں کے خلاف مقدمے کیے ہیں، جنہیں وہ ذمہ دار سمجھتے ہیں

شوچک کا کہنا ہے ’سب اس میں ملوث تھے۔ انییں معلوم تھا کہ وہ کیا کر رہے ہیں۔ وہ ایسا فوجی اور سیاسی وجوہات کی بنا پر کر رہے تھے‘

پونٹنگ کا کہنا ہے ’جو میرے ساتھ سولہ سال کی عمر میں ہوا، اس کی وجہ سے میں اب بھی ادویات لے رہی ہوں‘

’میں چاہتی ہوں کہ سب کو معلوم ہو کہ اس خوفناک ہسپتال میں میرے ساتھ کیا ہو رہا تھا‘

تاریخ دانوں اور متاثرین نے اپنی کہانیاں لوگوں کے سامنے رکھی ہیں، مگر اب بھی ان تجربوں کے بڑے پیمانے پر اثرات کے بارے میں لاعلمی پائی جاتی ہے

اس منصوبے کی حساسیت کے تناظر میں ایسا لگتا ہے کہ آنے والے برسوں میں دنیا اس بارے میں مزید معلوم کر کے سی آئی اے کے مکروہ چہرے سے واقف ہو سکے گی.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close