کیلاشیوں سے انٹرویو مذہبی رہنماؤں کی اجازت سے مشروط کیوں کیا گیا؟

ویب ڈیسک

خیبر پختونخوا کے شمالی ضلع چترال میں کوہ ہندوکش کے بلندو با لاپہاڑوں اور ہرے بھرے درختوں کے بیچ میں محصور کیلاش قبیلے نے کئی صدیوں سے اپنی منفرد ثقافت، زبان اور مذہب کو زندہ رکھا ہوا ہے۔ کیلاش دنیا کی قدیم ترین تہذیب ہے, جو بیک وقت ایک مذہب بھی ہے اور ثقافت بھی۔ اگرچہ دنیا نے بہت ترقی کرلی، دنیا میں بسنے والی اقوام نے اپنے رہن سہن کے طریقے بدلے، اپنی روایات میں جدید دور کے تقاضوں کے مطابق تبدیلیاں کیں لیکن اس تہذیب کو ماننے والوں نے نہ ثقافت کو مرنے دیا نہ اپنے طور طریقوں کو۔ یہ لوگ اپنی معاشرت اور رسم و رواج کے اعتبار سے نہایت قدیم تمدن کی یاد دلاتے ہیں اور اپنے انہی رسوم و رواج کی بدولت موجودہ زمانے میں منفرد حیثیت رکھتے ہیں

اسی کیلاش کی وادیوں بریر، رمبور اور بمبوریت میں 14 مئی سے شروع ہونے والا چلم جوشٹ یا چلم جوشی کا تہوار 16 مئی کو اختتام پذیر ہوا۔ اس موقع پر کیلاش قبیلے کے چیف قاضی شیرزادہ نے اپنے وڈیو پیغام میں سیاحوں کے لیے ہدایات جاری کیں

کیلاش قبیلے کے کُل 70 قاضی ہیں اور ان کے چیف قاضی شیر زادہ ہیں

اپنے وڈیو پیغام میں قاضی شیر زادہ کا کہنا تھا کہ کسی بھی سیاح کو کیلاش قبیلے کے افراد سے انٹرویو لینے کی اجازت نہیں ہے بلکہ انٹرویو کے لیے انہیں کیلاش قبیلے کے مذہبی رہنماؤں سے اجازت لینا ہوگی

قاضی شیر زادہ نے کہا ’سیاح آئیں، ہمارا کلچر دیکھیں لیکن بغیر اجازت تصاویر نہ لیں اور انٹرویو نہ کریں‘

ان ہدایات کے حوالے سے قاضی شیرزادہ سے جب استفسار کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ ’اکثر سیاح بغیر اجازت کے خواتین کی تصویریں کھینچتے ہیں، وڈیو بناتے ہیں، انٹرویو کرتے ہیں اور پھر انٹرنیٹ پر اپ لوڈ کرتے ہیں، جو ہمارے لیے ناقابل برداشت ہے‘

انہوں نے بتایا ’کچھ سیاح بچوں سے مذہبی سوالات کرتے ہیں، انہیں ہمارے عقائد اور ثقافت کے بارے میں معلوم نہیں۔ یہاں سے کچھ سال پہلے دو لڑکیوں کا انٹرویو کرکے انٹرنیٹ پر اپ لوڈ کیا گیا تھا، جس پر کیلاش قبیلے کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا، لہٰذا ہم لوگوں نے متفقہ طور پر یہ فیصلہ کیا ہے کہ اگر کسی کا انٹرویو لینا ہو تو پہلے اجازت لینی ہوگی‘

شیرزادہ کا کہنا تھا ’کچھ عناصر اس فیصلے کے خلاف بھی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہمارے نوجوان اپنی بات کرنا جانتے ہیں۔ زیادہ تر پڑھے لکھے ہیں۔ ان پر ایسی پابندی لگانا اور انہیں بات کرنے سے روکنا نا انصافی ہوگی، لیکن ہمارے خیال میں یہ لوگ ہماری ثقافت اور مذہب کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں‘

قاضی شیرزادہ کہتے ہیں ’ہمارا کیلاش طبقہ مختلف گروپوں میں بٹا ہوا ہے یا ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت ہمارے ساتھ کھیل کھیلا جا رہا ہے‘

قاضی شیرزادہ نے ایک اور مسئلے کی طرف بھی توجہ دلائی اور کہا کہ ان کے مذہب میں شراب کے استعمال کی اجازت ہے۔ ’ہم لوگ شراب بناتے ہیں اور خود استعمال کرتے ہیں، لیکن کچھ غیر کیلاشی اور اثر و رسوخ رکھنے والے افراد ہمارے علاقے میں آتے ہیں اور یہاں گھروں میں بیٹھ کر شراب نوشی کرتے ہیں۔ جب ہم انہیں منع کرتے ہیں تو ہمارے بچوں کے اوپر پرچہ کروا دیتے ہیں اور ان کا مستقبل داؤ پر لگ جاتا ہے‘

انہوں نے مزید بتایا ’ہمارے ہاں باہر سے آئے ہوئے مہمان کو خاندان والوں کے ساتھ بٹھا کر شراب نوشی کی اجازت نہیں ہے۔ ہم بھی انسان ہیں اور انسانوں کی بستی میں رہتے ہیں لیکن ان لوگوں سے ہمارے کلچر کو خطرہ ہے‘

دوسری جانب شاہی مسجد چترال کے خطیب مولانا خلیق الزمان کا بھی یہ کہنا ہے کہ کیلاشی بہت شریف لوگ ہیں، لہٰذا انہیں تنگ نہ کیا جائے۔ یہ لوگ خود بھی اس چیز کو پسند نہیں کرتے

بقول مولانا خلیق الزمان ’کسی کے خاندان کی خواتین کو تنگ کرنا، گھروں میں گھسنا شرعاً اور قانوناً جرم ہے اور شراب ان کے مذہب کے مطابق حلال ہے۔ یہ لوگ اسے اپنی حد تک استعمال کرتے ہیں، لہٰذا ان کو کسی بھی لحاظ سے بے جا تنگ نہ کیا جائے اور حکومت کو بھی چاہیے کہ ان کے مذہبی تہوار کو مذہبی ہی رہنے دیں‘

ان کا مزید کہنا تھا ’فیسٹیول کی تشہیر کرکے سیاحوں کو مدعو تو کرلیا جاتا ہے لیکن نہ وہاں قیام کا کوئی انتظام ہے نہ طعام کا۔ سیاح پہلی اور آخری بار چترال آتے ہیں اور پھر توبہ کر کے چلے جاتے ہیں۔ یہاں ایک چوزہ ڈیڑھ ہزار روپے میں فروخت ہوتا ہے اور ایک گھنٹے کا سفر پانچ گھنٹے میں طے ہوتا ہے‘

جبکہ سیاحت کے شعبے سے وابستہ سید حریر شاہ نے بھی اس بات کی تصدیق کی اور کہا: ’یہ بات ٹھیک ہے کہ کیلاش قبیلے کے افراد کو تنگ کیا جا رہا ہے۔ دوسری طرف ہم سیاحوں کو تو وادی میں بلاتے ہیں لیکن انتظام نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اسی طرح جب کسی تہوار میں سیاح آتے ہیں تو اس مقام کو کچرا کنڈی بنا کر چلے جاتے ہیں‘

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close