پنچھی، ندیاں، پون۔۔۔ غلطی سے سرحد پار کرنے والا پاکستانی بچہ 7 ماہ سے بھارت میں قید

ویب ڈیسک

پاکستانی اور بھارتی حکام کی عدم دلچسپی کی وجہ سے گذشتہ سات ماہ سے مقبوضہ کشمیر میں نابالغ بچوں کی جیل میں قید چودہ سالہ پاکستانی بچے کو رہائی نہیں مل سکی، جو کبوتر پکڑنے کے دوران غلطی سے سرحد پار کر گیا تھا

تفصیلات کے مطابق آزاد کشمیر کا رہائشی چودہ سالہ عبدالصمد گزشتہ برس 28 نومبر کو غلطی سے لائن آف کنٹرول عبور کر گیا تھا، جس کے بعد سے اُس کا خاندان گزشتہ سات ماہ سے اس کی واپسی کی راہ دیکھ رہا ہے

ایک بھارتی رائٹس ایکٹیوسٹ راہول کپور نے عبدالصمد عرف اصمد علی کی رہائی کے حوالے سے آن لائن پٹیشن بھی دائر کر رکھی ہے، جس پر اب تک ہزاروں لوگ دستخط کر چکے ہیں

سماجی کارکن اور پاکستانی بچے کی رہائی کے لئے سرگرم راہول کپورکی کوششوں سے عبدالصمد کو قونصلر رسائی مل چکی ہے، جہاں 4 مارچ کو پاکستانی ہائی کمیشن کے ارکان نے عبد الصمد سے امرتسر کی سینٹرل جیل میں ملاقات کی تھی

صمد علی کو رنبیر سنگھ پورہ مقبوضہ جموں و کشمیر کے نابالغ قیدیوں کے مرکز سے امرتسر سنٹرل جیل لایا گیا تھا

راہول کپور کہتے ہیں کہ وہ انسانی ہمدری کے تحت پاکستانی بچے کی رہائی اور اسے واپس پاکستان بھیجنے کی مہم چلارہے ہیں۔ اس کے لئے انہوں نے آن لائن پٹیشن بھی دائر کی ہے، جس پر لوگوں کی ایک بڑی تعداد بہت تیزی سے دستخط کر رہی ہے

اس حوالے سے نئی دہلی میں پاکستانی ہائی کمیشن کے ذرائع نے بتایا کہ عبدالصمد سے ملاقات کے بعد جو تفصیلات حاصل ہوئی تھیں، وہ پاکستان بھیجی جا چکی ہیں تاکہ اس بچے کی شہریت کی تصدیق ہو سکے، تاہم وزارت داخلہ نے ابھی تک اس بچے کی شہریت کی تصدیق کے بارے اپنی رپورٹ نہیں بھیجی ہے

عبدالصمد کے ماموں ارباب علی، جو آزاد کشمیر کے علاقہ تیتری ٹوٹ کے رہائشی ہیں، لیکن ان دنوں اسلام آباد میں پرائیویٹ ٹیکسی چلاتے ہیں، نے بتایا کہ 18 نومبر کو عبدالصمد اپنے کبوتر پکڑنے کی کوشش میں لائن آف کنٹرول عبٹ کر گیا تھا۔

بچے کے ماموں ارباب علی بتاتے ہیں ”عبدالصمد نویں جماعت کا طالب علم ہے، جس کی والدہ بچپن مین ہی فوت ہوگئی تھیں، جبکہ والد دوسری شادی کر کے لاہور چلا گیا ہے“

انہوں نے بتایا ”بچے کی پرورش اس کی نانی اور نانا نے کی ، وہ دونوں گزشتہ سات ماہ سے صمد کی واپسی کی راہ دیکھ رہے ہیں، ان کی ابھی تک بچے سے ٹیلی فون پر بھی بات نہیں کروائی گئی ہے“

انہوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ مقامی پولیس نے بچے سے متعلق ان کے خاندان سے تفصیلی معلومات لیں تھیں، لیکن اس کے بعد انہیں کچھ نہیں بتایا اور نہ ہی دوبارہ کوئی رابطہ کیا

ارباب علی کہتے ہیں ”افسوسناک بات یہ بھی ہے کہ نابالغ بچوں کے سینٹر کی انتظامیہ نے قونصلر رسائی ملنے کے باوجود ابھی تک بچے کی اس کے خاندان سے ٹیلی فون پر بھی بات نہیں کروائی ہے جوکہ قانون کی خلاف ورزی ہے، وہ خود کئی بار اس حوالے سے سینٹر انتظامیہ کو ای میل کرچکے ہیں“

واضح رہے کہ پاکستان اور بھارت کے سرحدی علاقوں میں کئی بار ایسے واقعات رونما ہو چکے ہیں، جہاں مویشی کھیتوں میں چرتے ہوئے سرحد عبور کر جاتے ہیں اور انہیں واپس لانے کے کوشش میں مقامی بچے، نوجوان بھی سرحد عبور کر جاتے ہیں

کئی بار ایسے نوجوان بھی پکڑے گئے، جو کسی اداکار سے ملنے بھارت جانا چاہتے تھے جبکہ بعض اوقات زیرولائن کا درست علم نہ ہونے کی وجہ سے بھی علاقے سے ناواقف لوگ سرحد عبور کر جاتے ہیں

پاکستان اور بھارت کے مابین اپریل 1974 میں ہونے والے ایک معاہدے کے تحت دونوں ملک اس بات کے پابند ہیں کہ وہ ایک دوسرے ملک کے قیدیوں کو، اگر انہوں نے کوئی جرم نہیں کیا، تو ان کی فوری رہائی یقینی بنائیں گے

پاکستان کے مشرقی بارڈر پر کئی بار ایسا ہوا ہے جب دونوں ملکوں کی سرحدی فورسز نے خیرسگالی کے طور پر غلطی سے سرحد عبور کرنے والے کسی نابالغ بچے یا ذہنی معذور شخص کو چند دنوں میں ہی واپس کردیا تھا تاہم اکثر اوقات غلطی سے سرحد عبور کرنے والوں کی واپسی میں کئی ماہ اور بعض اوقات کئی سال لگ جاتے ہیں

پاکستان اور بھارت سال میں دو بار جیلوں میں قید ایک ، دوسرے ملک کے شہریوں کی فہرستوں کا تبادلہ کرتے ہیں

یکم جنوری سن 2022ء میں جاری کی گئی تفصیلات کے مطابق پاکستان کی جیلوں میں 628 بھارتی شہری قید تھے، جن میں 577 ماہی گیر ہیں جبکہ بھارت کی جیلوں میں قید پاکستانیوں کی تعداد 282 ہے، جن میں 73 ماہی گیر ہیں

دونوں ملکوں نے سن 2008ع میں ایک دوسرے کے ساتھ قیدیوں کی تفصیلات کے تبادلے اور انہیں قونصلر رسائی دینے کا معاہدہ کیا تھا، جس پر عمل کیا جا رہا ہے

راہول کپور کہتے ہیں ”دونوں ملکوں کے مابین غلطی سے سرحد عبور کرنے والوں کی فوری رہائی کا بھی معاہدہ ہونا چاہیے، خاص طور پر بچوں اور ذہنی معذور افراد کی فوری رہائی ہونی چاہیے۔“

یہ بات مشاہدے میں آئی ہے کہ غلطی سے سرحد عبور کرنے والوں کی واپسی کی راہ میں کئی ایک رکاوٹیں ہیں۔ ان میں سب سے اہم دونوں ملکوں کے مابین تناؤ ہے، جس کی وجہ سے غیرقانونی طور پر بارڈر کراس کرنے والے کسی بھی شخص کو شک کی نظر سے دیکھا جاتا ہے، چاہے وہ کوئی ذہنی معذور یا بچہ ہی کیوں نہ ہو

دوسری بڑی وجہ یہ ہے کہ اکثر پکڑا جانے والا فرد ڈر کی وجہ سے اپنا نام اور پتہ غلط بتا دیتا ہے۔ اس وجہ سے اس کی شہریت کی تصدیق میں مشکل پیش آتی ہے، دونوں ملکوں میں شہریت کی تصدیق کا کام مقامی پولیس سے کروایا جاتا ہے ۔ بعض اوقات پولیس اہل کار سستی اور لاپرواہی کا مظاہرہ کرتے ہیں، جس کی وجہ سے شہریت کی تصدیق نہیں ہو پاتی ہے یا پھر اس عمل میں تاخیر ہو جاتی ہے

انسانی حقوق کے رہنما اور انصار برنی ٹرسٹ کے سربراہ انصاربرنی کا کہنا ہے ”پاکستان اور بھارت کے بارڈر پر اکثر مقامات پر تو باڑ لگی ہے تاہم کشمیر سمیت چند جگہیں ایسی بھی ہیں جہاں خاردار تار نہیں ہے۔ وہاں سے بعض اوقات مویشی ادھر، ادھر ہو جاتے ہیں اور انہیں واپس لانے کے لیے بچے اور نوجوان بھی سرحد کراس کر جاتے ہیں۔“

بدقسمتی سے دونوں ملکوں میں دشمنی اتنی شدید ہے کہ بارڈر کراسنگ میں پکڑے جانے والے فرد پر سب سے پہلے جاسوس ہونے کا لیبل لگا دیا جاتا ہے، یہ نمبر گیم ہوتی ہے کہ کس ملک نے دوسرے ملک کے کتنے جاسوس پکڑے ہیں۔جبکہ پکڑے جانے والے بعض بچوں اور نوجوانوں کو تویہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ جاسوس کہتے کسے ہیں

انصاربرنی نے بتایا ان کا ادارہ اب تک دونوں ملکوں کی جیلوں سے درجنوں افراد کو رہائی دلوانے کے بعد واپس بھیج چکا ہے

انہوں نے کہا کہ دہشت گرد ہیں، یا حقیقی طور پر جاسوس ہیں تو ایسے لوگوں سے ہمیں کوئی ہمدردی نہیں ہے۔ ان کو سزا ملنی چاہیے لیکن قانون کے تقاضے پورے ہونے چاہیں۔ ایسے لوگوں کی ساری زندگی سزائے موت کی بند کوٹھری میں گزر جاتی ہے

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ دونوں ملکوں کی سیاست اپنی جگہ لیکن انسانیت کا جذبہ ختم نہیں ہونا چاہیے۔ اب بھی دونوں ملکوں کی جیلوں میں ناجانے کتنے ایسے قیدی ہیں، جن کا کوئی ریکارڈ نہیں ہے۔ ناجانے ان کے خاندانوں پر کیا گزرتی ہوگی۔کسی کی ماں، کسی کی بہن اپنے پیاروں کی واپسی کی راہ دیکھتی ہوں گے

انصار برنی نے کہا غلطی سے سرحد عبور کرنے والوں میں سب سے زیادہ ماہی گیر ہوتے ہیں۔ پانی کا بہاؤ تیز ہوتا ہے تو بھارتی ماہی گیر ہماری طرف آجاتے ہیں، بہاؤ کم ہوتا ہے تو ہمارے لوگ ادھر چلے جاتے ہیں۔۔ ان کی کشتیاں ضبط کی جاتی ہیں۔ اکثرلوگوں کی کشیاں کرائے پر لی گئی ہوتی ہیں یا وہ قرض لے کر کشتی خریدتے ہیں ۔پکڑے جانے کے بعد ان کی ساری زندگی برباد ہوجاتی ہے

انہوں نے کہا کہ ایک بار انہوں نے پاکستان اور بھارت دونوں ملکوں کو حکام کو ہنستے ہوئے تجویز دی تھی کہ سمندر میں دیوار کھڑی کر دیں یا باڑ لگا دیں تاکہ ماہی گیروں کو کھلے سمندر میں معلوم ہوسکے کہ وہ کس ملک میں ہیں۔۔

انہوں نے کہا کہ دونوں طرف ماہی گیروں کے ساتھ مذاق کیا جاتا ہے، ان پر جاسوسی کا الزام لگا کر جیلوں میں پھینک دیتے ہیں

انصار برنی تجویز دی کہ دونوں ملک ریٹائرڈ ججوں اور انسانی حقوق کے نمائندوں پر مشتمل ایک خود مختار کمیشن تشکیل دیں جو غلطی سے بارڈر کراسنگ کرنے والوں سمیت ایسے قیدی، جن کی سزائیں مکمل ہو چکی ہیں، ان کی رہائی اور اس کی ملک واپسی کو یقینی بناسکے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close