ٹوئٹر پر لاہور سے تعلق رکھنے والی مریم ایس خان نامی ایک خاتون نے گذشتہ دنوں ایک وارڈن کی تصویر پوسٹ کرتے ہوئے ان پر ہراساں کرنے کا الزام عائد کیا
مریم نے اپنی پوسٹ میں سٹی ٹریفک پولیس لاہور کے آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ کو بھی ٹیگ کیا ہے اور ٹویٹ میں شیئر کی گئی تصاویر میں ہیلمٹ پہنے موٹر سائیکل پر بیٹھے ایک ٹریفک وارڈن کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ مبینہ طور پر ان کی گاڑی میں جھانکتے ہوئے مسکرا رہے ہیں اور ہاتھ سے کچھ اشارہ کر رہے ہیں
مریم ایس خان نامی خاتون نے اپنے ٹویٹ میں لکھا ”یہ تصاویر ٹریفک پولیس آفیسر سمیع اللہ کی ہیں، جو دوپہر ساڑھے بارہ بجے مال روڈ پر مجھے اور میری بیٹی کو اس وقت ہراساں کر رہے تھے، جب ہم جی او آر ون کے سامنے ٹریفک لائٹ پر کھڑے تھے“
انہوں نے ٹویٹ میں محکمے سے سوال کیا ”کیا آپ اپنی صفوں سے اس گندگی کو صاف کرنے کے لیے تیار ہیں یا یہ آپ کی ترجیح نہیں؟“
مریم نامی خاتون کی اس ٹویٹ پر سی ٹی او لاہور منتظر مہدی نے فوری ایکشن لیتے ہوئے، اس ٹریفک وارڈن کو نہ صرف معطل کردیا بلکہ سٹی ٹریفک پولیس لاہور کے آفیشل ٹویٹر ہینڈل سے وارڈن کی معطلی کا پروانہ بھی ٹویٹ کر دیا
سی ٹی او لاہور کے ترجمان عارف رانا کا اس حوالے سے کہنا ہے ”یہ واقعہ مال روڈ پر پیش آیا تھا۔ خاتون نے سوشل میڈیا کے ذریعے اس واقعے کو رپورٹ کیا تھا اور ہم ایسے واقعات کی روک تھام میں کوئی کوتاہی نہیں چاہتے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم نے فوری اس وارڈن کو معطل کر دیا اور صرف یہی نہیں ہم نے اس واقعے کی انکوائری کا آغاز بھی کر دیا ہے۔ ہم تفتیش کے دوران متاثرہ خاتون کو بھی بلائیں گے اور اس وارڈن کو بھی۔ باقی سی سی ٹی وی کیمرے لگے ہیں، ان سے بھی فوٹیج حاصل کی جائے گی“
دوسری جانب میڈیا کی جانب سے خاتون مریم سے بھی رابطے کی کوشش کی گئی، لیکن ان کی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا
البتہ مریم ایس خان نے اپنے اسی ٹویٹ کے جواب میں سٹی ٹریفک پولیس لاہور کے اعلیٰ افسران کا وارڈن کو معطل کرنے پر شکریہ بھی ادا کیا، جس کے جواب میں لاہور ٹریفک پولیس کے آفیشل ٹوئٹر ہینڈل سے لکھا گیا ”اگر کسی کو ٹریفک پولیس اہلکار کے حوالے سے کوئی شکایت ہے تو وہ راستہ ایپ پر اپنی شکایت درج کراسکتا ہے۔ جو کہ مناسب پلیٹ فارم ہے“
خاتون کے ٹویٹ پر ٹوئٹر صارفین نے بھی ملے جلے ردعمل کا اظہار کیا ہے
ایک صارف عامر رضا نے لکھا ”پتہ نہیں کہ اسٹوری کیا ہے، لیکن میں اکثر چھوٹے بچوں کو گاڑی میں دیکھ کر سمائل دیتا ہوں لیکن اس ٹویٹ کے بعد ایسا نہیں کروں گا کہ گاڑی والے کہیں اسے ہراسانی نہ سمجھیں“
سطوت سلیم نامی ایک صارف نے لکھا ”اتنی پھرتیاں دکھانے سے پہلے انکوائری تو کرلینی تھی کہ وہ بچے کو دیکھ کر خوش ہو رہا تھا یا ان کی اماں کو غلط فہمی ہوگئی تھی؟ عجیب ٹرینڈ چل پڑا ہے کسی کی بھی تصویر ٹوئٹر پہ لگادو اور بدنام کردو۔ سیف سٹی کیمرے میں دیکھا کہ وہ عورت کو تنگ کر رہا تھا؟ لوگوں نے یہ نیا ہتھیار بنایا ہے ٹوئٹر کو“
کچھ صارفین نے اس بات پر اعتراض کیا کہ مریم نے صرف تصویر شیئر کی کوئی وڈیو نہیں، جو کہ مبینہ طور پر ہراساں کیے جانے کا ناکافی ثبوت ہے
ایک صارف احمد علی شاہ نے لکھا ”ہو سکتا ہے یہ آپ کی چھوٹی بیٹی کی مسکراہٹ کا ردعمل ہو۔ عموماً بچے جب والدین گاڑی چلاتے ہیں تو وہ اکثر بائیک سواروں کی طرف دیکھتے ہوئے مسکراتے ہیں۔ اس کا تجربہ ہزاروں بار ہو چکا ہے۔ یہ چھوٹی سی اور معصوم مسکراہٹ میرا دن بنا دیتی ہے۔ یہ ہمدردی کا اسٹنٹ ہے، اسے درگزر کریں“
اس ٹویٹ کے جواب میں مریم نے لکھا کہ ان کی بچی ڈرائیونگ سیٹ پر نہیں بیٹھی تھی
صارفین کے ان تبصروں کے بعد لاہور سٹی ٹریف پولیس کے آفیشل ہینڈل سے معاملے کو سنبھالنے کے لیے جواب دیتے ہوئے لکھا گیا کہ معطل ہونے والے وارڈن کے خلاف انکوئری کا آغاز کیا جائے گا.