ماہرین کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں آبی پرندوں کی آبادی میں کمی ہو رہی ہے۔ کیپ ویرڈی کے سال نامی جزیرے پر محققین سرخ چونچ والے ٹروپیکل پرندے کی نسل کو سیاحت کے بڑھتے خطرات سے تحفظ فراہم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں
واضح رہے کہ سرخ چونچ والے شاندار ٹروپیکل پرندوں کو مہاجر پرندے بھی کہا جاتا ہے۔ یہ اپنا زیادہ تر وقت سمندر پر گزارتے ہیں۔ یہ پرندے بحیرہ اوقیانوس کے اوپر ہزاروں کلومیٹر پرواز کرتے ہیں اور زمین پر صرف بریڈنگ یا افزائشِ نسل کے لیے اترتے ہیں اور اونچی چٹانوں میں اپنے گھونسلے بناتے ہیں۔ لیکن ان کی عادات کے بارے میں زیادہ معلومات عام نہیں
کیپ ویرڈی کے محققین نے حال ہی میں یہاں جزیرہ ء سال پر اِن پرندوں کی دنیا میں سب سے بڑی کالونیوں میں سے ایک کا پتہ لگایا ہے
آرٹر لوپیس پراجیکٹ "بائیو ڈائیورسٹی” میں بطور فیلڈ ٹیکنیشن کام کر رہے ہیں۔ یہ مقامی تنظیم سیاحت کے بڑھتے رجحان سے منسلک خطرات سے اِن پرندوں کی حفاظت کر رہی ہے۔ آرٹر لوپیس کہتے ہیں ”یہ پرندے بہت خوبصورت ہیں۔ ان کی لمبی دم ہوتی ہے“
آرٹر اپنی ٹیم کے ساتھ پرندوں کی ٹیگنگ کرتے ہیں اور اس دوران خون کے نمونے کے ذریعے پرندے کی جنس کا تعین بھی کیا جاتا ہے
لیکن مشکل یہ ہے کہ ان پرندوں کے لیے یہ سب لوگ، ایک بن بلائے مہمان کی طرح ہیں۔ بقول آرٹر لوپیس: ”ہم ان کے پیروں سے سیمپل لیتے ہیں۔ ان کے پیروں سے جانے والی رگ کی پہلے صفائی کی جاتی ہے اور پھر نمونہ لیا جاتا ہے“
جمع کردہ نمونوں کے ذریعے اِن پرندوں کی عادتوں، خوراک، اور نقل مکانی کو سمجھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے کیا کھایا اور اس جزیرے کا ماحول کس طرح تبدیل ہو رہا ہے۔ پروں سے بھی کافی معلومات ملتی ہے
آرٹر لوپیس بتاتے ہیں ”ان نمونوں کے ذریعے یہ معلوم کیا جاتا ہے کہ یہ پرندے سال کے کون سے دنوں میں پر تبدیل کرتے ہیں۔ اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ اِن کی خوراک ٹھیک ہے‘‘
تحقیق کے اس عمل کے دوران ان پرندوں کے پروں میں کئی زہریلے جراثیم پائے گئے ہیں، جو اس بات کا ثبوت ہیں کہ یہ پرندے کتنی آلودہ چیزیں ہضم کر رہے ہیں اور اس سے ہمارے سمندروں اور آبی حیات کی صحت کی بھی نشاندہی ہوتی ہے۔ ان پرندوں کے سیمپلز لینے کے بعد ان کو گھونسلوں میں واپس بھیج دیا جاتا ہے اور پھر دیگر گھونسلوں کا معائنہ کیا جاتا ہے
بدقسمتی سے سرخ چونچ والے ٹروپیکل پرندوں کی افزائش بھی خطرات کی زد میں ہے۔ ان کے گھونسلوں کے قریب سیاح، دھوپ میں لیٹ کر جسم تاپتے ہیں، جبکہ ساحل سمندر پر تعمیرات کی وجہ سے پرندوں کی قدرتی رہائش گاہیں بھی ختم ہو رہی ہیں۔ رات میں پرندوں کو سمندر پر روشنی کی آلودگی پریشان کرتی ہے۔ اس کے علاوہ آوارہ کتے بھی پرندوں کا شکار کرتے ہیں اور پلاسٹک کی آلودگی الگ سے ایک انتہائی سنگین مسئلے کی شکل اختیار کر چکی ہے
پراجیکٹ بائیو ڈائیورسٹی کے شریک ڈائریکٹر، ایلبرٹ ٹیکسونیرا کا کہنا ہے”انسانی سرگرمیاں آبی پرندوں کو اپنی بریڈنگ کی جگہ سے مزید دور دھکیل رہی ہے“
ایلبرٹ ٹیکسونیرا نے کہا ”آبی پرندوں کے ساتھ آج کل سب سے بڑا مسئلہ ان کی افزائش میں کمی کا ہے۔ سیاح ہر جگہ جانا چاہتے ہیں۔ پرندوں کی کالونیوں جیسے حفاظتی مقامات پر تعمیرات کی منصوبہ بندی کی جاری ہے۔ لہٰذا مسئلہ یہ ہے کہ انسانوں کو پرندوں کی کالونی کے قریب لانے کا مطلب، یہاں فوڈ ویسٹ پہنچانا ہے، اور اس کا مطلب ہے کہ آوارہ کتے اور چوہے وغیرہ بھی یہاں پہنچ جائیں گے‘‘
لیکن اس سب کے باوجود محققین مایوس نہیں ہیں. آرٹر اپنے دفتر میں نمونے تیار کر تے ہیں تاکہ انہیں پراسیسنگ کے لیے یونیورسٹی آف بارسلونا روانہ کیا جائے۔ محققین وہاں ان پرندوں کے جمع کردہ ڈیٹا کی مدد سے مزید انکشافات کرتے ہیں
اس ٹیم کو امید ہے کہ ان کی تحقیق، سرخ چونچ والے ٹروپیکل پرندوں کی حفاظت کے لیے ایک سنگ میل ثابت ہو گی۔ اور اِن پرندوں کے نازک ایکوسسٹم کو سمجھنے کے ساتھ ہم اپنی دنیا کی صحت کو بھی سمجھنے کے قابل ہو جائیں گے.