”جب آرمی چیف کی فون کال پر لانگ مارچ روک دیا گیا“ علی احمد کرد ججز بحالی کے تیرہ سال مکمل ہونے پر کیا کہتے ہیں؟

نیوز ڈیسک

اسلام آباد – پاکستان میں وکلا کی تاریخی ’عدلیہ بحالی تحریک‘ کے نتیجے میں چیف جسٹس افتخار محمود چوہدری سمیت دیگر ججز کی بحالی کو تیرہ سال مکمل ہو گئے ہیں

16 مارچ 2009ع کی رات کو اس وقت کے وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے ٹی وی پر قوم سے خطاب میں معزول کیے گئے ججز کو بحال کرنے کا اعلان کیا تھا

یہ اعلان انہوں نے اس وقت کیا، جب نواز شریف اور اعتزاز احسن کی قیادت میں لانگ مارچ گوجرانوالہ پہنچ کر رکا ہوا تھا

اس لانگ مارچ کے حوالے سے اپنی یاداشتیں تازہ کرتے ہوئے اس وقت کی وکلا تحریک کے سرخیل اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر علی احمد کرد کا کہنا ہے ”جب یہ محسوس کر لیا گیا کہ پیپلز پارٹی کی حکومت ججز کو بحال نہیں کرنا چاہتی یا کم از کم چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو بحال نہیں کرنا چاہتی تو ہم نے راولپنڈی میں وکلا کا اجلاس منعقد کیا۔ جس میں یہ مشورہ دیا گیا کہ لاہور سے لانگ مارچ شروع کیا جائے کیونکہ یہاں عوامی طاقت زیادہ ہے۔ لیکن میں نے اس کی مخالفت کی اور کہا کہ لانگ مارچ کا آغاز کراچی اور کوئٹہ سے بیک وقت ہوگا اور لاہور پہنچ کر سب ایک ساتھ نکلیں گے“

علی کرد نے بتایا ”کراچی میں جب منیر اے ملک اور دیگر کی قیادت میں جلوس نکلا تو پولیس نے ان کو اتنا زیادہ مارا کہ وہ آگے بڑھ ہی نہ سکا۔ دوسری طرف جب ہم کوئٹہ سے نکل کر سندھ کی جانب جا رہے تھے تو ہمیں معلوم ہوا کہ سندھ پولیس کی بھاری نفری ہماری منتظر ہے۔ ہم نے وہاں فیصلہ کیا کہ ہم بذریعہ جہاز لاہور پہنچیں گے لیکن دو دن کی کوشش کے باوجود ہمیں جہاز میں سوار نہیں ہونے دیا گیا۔ اس دوران میڈیا نے ہمیں کوئٹہ اور کراچی میں اتنی کوریج دی کہ لانگ مارچ کا ماحول گرم ہو چکا تھا اور ہر کوئی اس کے اپنے شہر پہنچنے کا منتظر تھا کہ وہ اس میں شامل ہو سکے“

لاہور سے لانگ مارچ کے حوالے سے علی احمد کرد کا کہنا ہے ”طے تھا کہ 16 مارچ کو لاہور سے لانگ مارچ روانہ ہوگا لیکن وکلا قیادت کو روپوش ہونا پڑا جبکہ نواز شریف کو ماڈل ٹاؤن میں نظربند کر دیا گیا تھا۔ اس وجہ سے لانگ مارچ کی روانگی ناممکن لگ رہی تھی۔ لیکن اسلامی جمیعت طلبا کے نوجوانوں نے جی پی او کے سامنے ریلی نکالی۔ پولیس نے ان کو تشدد کا نشانہ بنانے کی کوشش کی تو انہوں نے پولیس کو بہت حد تک پیچھے دھکیل دیا۔ اس سے شہر میں لانگ مارچ کا شور برپا ہو گیا۔ نواز شریف نے بھی نکلنے کا فیصلہ کیا اور وہ ساڑھے بارہ بجے نکلے، ان کے ساتھ عوام کو دیکھ کر پولیس پسپا ہوئی تو اعتزاز احسن بھی وکلا کو لے کر نکل پڑے“

انہوں نے بتایا کہ ”ہم لوگ ٹی وی پر ساری صورتحال دیکھ رہے تھے کہ لانگ مارچ گوجرانوالہ پہنچ گیا ہے۔ یہاں پر لانگ مارچ کو روک دیا گیا تو معلوم ہوا کہ نواز شریف اور اعتزاز احسن دونوں کو آرمی چیف جنرل کیانی نے کال کر کے کہا تھا کہ آپ کے مطالبات پورے ہو رہے ہیں اس لیے تھوڑا انتظار کر لیں“

علی احمد کرد کا کہنا تھا ”جب ججز بحال ہو گئے تو لانگ مارچ ملتوی کر دیا گیا لیکن میں آج بتا رہا ہوں کہ لانگ مارچ کا فیصلہ ہمارا تھا۔ صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی حیثیت سے میں اس لانگ مارچ کا محرک تھا لیکن اعتزاز احسن اور نواز شریف نے مجھے فون کرکے اعتماد میں نہیں لیا تھا۔ اخلاقی طور پر انہیں مجھے فون کرکے جنرل کیانی کے فون اور لانگ مارچ ختم کرنے کے فیصلے سے متعلق آگاہ ضرور کرنا چاہیے تھا۔ مجھے تو گورنر سندھ عشرت العباد نے فون کرکے مبارک باد دی کہ آپ کے مطالبے پر ججز بحال کر دیے گئے ہیں“

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا ”یہ بات سچ ہے کہ جنرل کیانی نے ججز بحالی میں کردار ادا کیا تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وکلا تحریک کا دوسرا مرحلہ اس سطح پر پہنچ چکا تھا کہ کروڑوں لوگ براہ راست اس میں شامل تھے۔ جب لانگ مارچ لاہور سے گوجرانوالہ پہنچا تو معاملات حکومت کے ہاتھ سے نکل چکے تھے۔ اس لیے جنرل کیانی کو کردار ادا کرنا پڑا اور حکومت معزول ججز کو بحال کرنے پر مجبور ہوئی“

علی احمد کرد نے کہا کہ ”اگر وکلا تحریک نہ ہوتی تو لانگ مارچ نہ ہوتا اور لانگ مارچ نہ ہوتا تو ججز بحال نہ ہوتے“

تاہم سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی، جنہوں نے ٹی وی پر قوم سے خطاب میں ججز بحالی کا اعلان کیا تھا، ان کا موقف مختلف ہے. وہ کہتے ہیں ”عدلیہ کسی لانگ مارچ سے بحال نہیں ہوئی بلکہ میں نے خود اپنے ایگزیکٹو آرڈر سے عدلیہ بحال کی تھی۔ پارلیمنٹ نے ایگزیکٹو آرڈر سے بحال ہونے والے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری اور دیگر ججوں کی بحالی کی توثیق نہیں کی تھی“

انھوں نے کہا ”یہ کہنا کہ ‘لانگ مارچ اسلام آباد آ جاتا تو حکومت ٹوٹ جانی تھی اس وجہ سے ججز کو بحال کیا گیا’ درست نہیں ہے۔ ججوں کی بحالی کا اعلان میں نے کسی سے مشاورت کے بغیر کیا تھا۔ لانگ مارچ سے حکومتیں نہیں جاتیں۔ لانگ مارچ پہلے بھی ہوتے رہے ہیں۔ شہید بےنظیر بھٹو بھی لانگ مارچ کرتی رہی ہیں اور موجودہ اپوزیشن بھی لانگ مارچ کرتی رہی“

خیال رہے کہ فروری 2008 میں پاکستان میں ہونے والے انتخابات کے نتیجے میں پاکستان پیپلز پارٹی کو وفاق میں اکثریت ملی تو اس وقت ملک میں ایمرجنسی نافذ تھی۔ پرویز مشرف نے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری سمیت تمام معزول ججز کو گھروں میں نظر بند کر رکھا تھا۔
پیپلز پارٹی نے یوسف رضا گیلانی کو وزیراعظم نامزد کیا تو انہوں نے حلف لینے سے قبل ہی معزول ججز کی نظربندی ختم کرنے کا حکم دے دیا، تاہم ججز کو بحال نہیں کیا. انتظامیہ نے فوری طور پر ججز کی نظر بندی ختم کر دی

ججز بحالی کی وکلاء تحریک میں وسیع عوامی شمولیت کے پیش نظر پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان بھی اس تحریک کا حصہ بنے. بعد ازاں ماحول گرم دیکھ کر نواز شریف بھی لانگ مارچ میں شامل ہو گئے

یوسف رضا گیلانی کہتے ہیں کہ ’جب میں نے ججوں کی حراست ختم کرنے کا فیصلہ کیا تھا تو اس وقت میں نے نہ تو پارلیمنٹ کو، نہ اپنی پارٹی کو، نہ اپوزیشن کو، نہ اتحادیوں کو، حتیٰ کہ اپنی پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کو بھی اعتماد میں نہیں لیا تھا۔ میں نے حلف اٹھانے سے ایک روز قبل ججوں کی رہائی کا حکم دیا اور ان کی تنخواہوں کا مسئلہ بھی حل کیا۔ اس سے اگلے روز مجھے پرویز مشرف سے حلف لینا تھا اس وقت کچھ بھی ہو سکتا تھا۔ مشرف کے پاس اس وقت 58 ٹوبی کے اختیارات بھی تھے۔ وہ اسمبلیاں توڑ سکتا تھا اور اس وقت تک انتقال اقتدار بھی نہیں ہوا تھا، لیکن میں نے اس پر رسک لیا‘

ان کے بقول ’میں نے ججوں کی اسیری ختم کرنے سے پہلے صدر زرداری سے کہہ دیا تھا کہ اپنے لیے دوسرے وزیراعظم کا بندوبست کر لیں کیوں کہ ہو سکتا ہے کہ میں کوئی چھکا لگا دوں۔‘

پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کے درمیان 9 مارچ 2008 بھوربن میں اعلان مری ہوا، جس کے تحت دونوں جماعتیں وفاق اور پنجاب میں شراکت اقتدار اور ایک ماہ میں معزول ججز کی بحالی پر متفق ہوئیں۔
اعلان مری پر عمل کرتے ہوئے ججز بحال نہ کیے گئے تو ملک میں ایک بار پھر وکلا تحریک کا آغاز ہو گیا۔ وکلا نے ملک گیر احتجاجی مظاہرے شروع کر دیے۔ اس دوران مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے درمیان ججز بحالی کے حوالے سے مذاکرات ہوتے رہے اور فیصلہ کن دور 5 اور 6 اگست 2008 کو زرداری ہاؤس اور پنجاب ہاؤس میں ہوا۔ جس کے بعد 7 اگست 2008 کو نواز شریف اور آصف زرداری نے مشترکہ پریس کانفرنس میں پہلے صدر مشرف کا مواخذہ اور بعد ازاں ججز بحالی کا اعلان کیا۔
مواخذے کی تیاری دیکھ کر 18 اگست 2008 کو پرویز مشرف مستعفی ہو گئے۔
اس کے بعد بھی پیپلز پارٹی حکومت ججز بحالی کے معاملے پر لیت و لعل سے کام لیتی رہی تو مسلم لیگ ن نے مخلوط حکومت سے راہیں جدا کرتے ہوئے اپوزیشن بینچوں پر بیٹھنے کا فیصلہ کیا

مارچ 2009 میں وکلا تحریک عروج پر پہنچی اور وکلا نے ایک بار پھر لانگ مارچ کا فیصلہ کیا۔ یہ وہ وقت تھا جب پنجاب میں گورنر راج بھی نافذ تھا۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے نواز شریف سمیت اہم سیاسی رہنماؤں کو نظر بند کر دیا تھا.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close