پیٹرولیم قیمتوں میں پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا اضافہ: کیا حالات مزید برے ہونے والے ہیں؟

ویب ڈیسک

اپریل میں اقتدار میں آنے کے بعد موجودہ اتحادی حکومت کی جانب سے کئی روز تک اہم سیاسی و انتظامی فیصلے سامنے نہیں آئے. ایک ایک منٹ کو قیمتی قرار دے کر جہاز میں دوران سفر بھی میٹنگ کرنے کی تصاویر جاری کرنے والے وزیر اعظم شہباز شریف ایک ہفتہ بڑے بھائی کے بلاوے پر لندن یاترا پر گئے، شنید ہے کہ وہاں بھی "کیا کیا جائے” کا سوال ہی زیر بحث رہا لیکن حکومت کوئی فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں دکھائی نہیں دی

مگر اب پیٹرولیم منصوعات کی قیمت میں بڑے اضافے کا سخت فیصلہ سامنے آیا ہے جس کا عندیہ وزیر خزانہ کئی ہفتوں سے دے بھی رہے تھے، یہ پاکستان کی تاریخ میں اب تک کا سب سے بڑا یکمشت اضافہ ہے، جس سے عوام کے دانتوں تک کو پسینہ آ گیا ہے

یہ فیصلہ ایسی سیاسی جماعت کی زیر قیادت چلنے والی حکومت نے کیا ہے، جس نے سابقہ حکومت کے خلاف مہنگائی مُکاؤ مارچ میں کوئی تین مہینے پہلے کہا تھا کہ ہم پیٹرول کی قیمت میں ایک روپے کا اضافہ بھی نہیں ہونے دیں گے

مسلم لیگ ن ہو یا پیپلز پارٹی، جمعیت علمائے اسلام ہو یا آزاد اراکین یا حکومت میں شامل دیگر جماعتیں، ماضی میں یہ سب تحریک انصاف کی معاشی پالیسیوں پر کڑی تنقید، اور احتجاجی جلسے اور عوامی مارچ کرتی رہی ہیں

یہی وجہ ہے کہ ماضی میں تحریک انصاف کی حکومت پر ڈالر اور پیٹرول کی قیمتوں میں اضافے سمیت معاشی پالیسیوں پر تنقید کرنے والی جماعتیں اقتدار سنبھالنے کے بعد اب خود شدید تنقید کی زد میں ہیں

لیکن موجودہ حکومت میں مہنگائی سابقہ تمام ریکارڈز کو توڑنے کا تہیہ کیے ہوئے دکھائی دیتی ہے، ڈالر روپے کے مقابلے میں ریکارڈ سطح پر اور پیٹرول 30 روپے زیادہ مہنگا۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا حکومت میں شامل اتحادی جماعتیں اب مطمئن ہیں؟ کیا ان کا اعتماد اب بھی حکومت پر برقرار ہے؟

اس وقت اتحادی جماعتیں کشمکش میں مبتلا نظر آتی ہیں کہ ماضی میں جن فیصلوں پر وہ تنقید کر رہی تھیں، اب ان کا اب دفاع آخر کیسے کیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض اتحادی جماعتیں حکومت پر مکمل اعتماد کا اظہار کر رہی ہیں تو کچھ جماعتیں ہچکچاہٹ اور حکومت کے بعض فیصلوں پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے نظر آتی ہیں. لیکن ان تحفظات کے بین السطور بھی مہنگائی کی جسٹیفکیشن ہی نظر آتی ہے

وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کہتے ہیں ’معاملہ صرف یہاں تک نہیں رکے گا، بلکہ اگلے بجٹ کے حوالے سے بھی آئی ایم ایف نے سخت شرائط رکھی ہیں۔ ان کا مطالبہ ہے کہ پرائمری خسارے کو پرائمری سرپلس میں تبدیل کیا جائے۔ حکومت کو اخراجات قرضوں کی بجائے آمدن سے پورے کرنا ہوں گے‘

انہوں نے کہا: ’نئے ٹیکس لگانے ہوں گے اور مزید قرض لینے پر پابندی بھی لگ سکتی ہے۔ بجٹ میں کئی شعبوں پر سیلز ٹیکس اور اِنکم ٹیکس لگنے کے امکانات ہیں۔ ٹیکس ریٹس بڑھائے جا سکتے ہیں۔ ٹیکس چھوٹ بھی ختم کی جائے گی‘

وزیر خزانہ کے بقول: ’تنخواہ دار طبقے پر اِنکم ٹیکس دوگنا کرنے کی تجویز ہے۔ صنعتوں کو ملنے والی سبسڈی بھی ختم کرنے پر بات ہو رہی ہے۔ یعنی کہ اگلا بجٹ کسی بھی طرح عوام دوست ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ مہنگائی مزید بڑھے گی۔ عوام کی قوت خرید کم ہو گی۔ آٹا، دالیں، گھی جیسی بنیادی اشیا عوامی پہنچ سے دور ہو جائیں گی، بے روزگاری میں اضافہ ہو سکتا ہے، جو تشویش ناک ہے‘

ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن کے جنرل سیکریٹری ظفر پراچہ نے اس حوالے سے بتایا: ’آئی ایم ایف پروگرام جہاں بھی شروع ہوتا ہے وہاں عوام کے لیے مشکلات پیدا ہو جاتی ہیں۔ ان کی شرائط سخت ہوتی ہیں کیونکہ ترقی پذیر ممالک کے حکمران کرپشن روکنے اور اپنی عیاشیوں پر سمجھوتا کرنے کو تیار نہیں ہوتے۔ مشیروں کے نام پر 25 لاکھ روپے ماہانہ تک کے ملازم بھرتی کر رکھے ہیں، جن کی بظاہر کوئی ضرورت نہیں ہوتی۔‘

انہوں نے بتایا: ’دو لاکھ سرکاری تنخواہ والے ملازم کو ایک کروڑ روپے کی گاڑی اور ہزار لیٹر پیٹرول غریب عوام کے ٹیکس سے دیا جاتا ہے۔ ان خرچوں کو کم کر کے بھی آئی ایم ایف کے ریوینیو اہداف حاصل کیے جا سکتے ہیں، لیکن حکمران عوام پر بوجھ ڈالنے کو ہی آسان حل سمجھتے ہیں۔ یہ بوجھ آئی ایم ایف نے نہیں ڈالا بلکہ ہمارے حکمرانوں نے مسلط کیا ہے

سابق وزیر خزانہ حفیظ پاشا کہتے ہیں ’ابھی تو شروعات ہے، حکومت نہ صرف مکمل سبسڈی ختم کرے گی بلکہ پیٹرولیم مصنوعات پر مزید ٹیکس بھی لگائے گی۔ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں 300 روپے تک بھی پہنچ سکتی ہیں۔‘

انہوں نے بتایا ’نئے بجٹ کی شرائط بھی عوامی مشکلات بڑھائیں گی۔ نقصان میں چلنے والے سرکاری اداروں کی نجکاری بھی زیر غور ہے لیکن ایسا نہ ہو تو اچھا ہے۔ کراچی الیکٹرک کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ یہ منصوبہ بظاہر ناکام دکھائی دیا‘

حفیظ پاشا کا کہنا تھا: ’پیٹرولیم مصنوعات اور بجلی کی قیمتیں بنیادی مطالبات ہیں۔ اگر ان پر من و عن عمل ہو جاتا ہے تو قرض مل جائے گا۔ لیکن یہ جولائی 2022 سے پہلے ملتا دکھائی نہیں دے رہا۔‘

موجودہ حالات کے پیش نظر یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ آنے والے دن پاکستان کے لیے زیادہ اچھی خبریں لاتے دکھائی نہیں دے رہے۔ پاکستان کی معاشی مشکلات میں اضافہ ہونے کے امکانات زیادہ ہیں۔ ملک شاید دیوالیہ ہونے سے بچ جائے لیکن عوام کے دیوالیہ ہونے کے امکانات بڑھ سکتے ہیں۔

پریشانی کا معاملہ یہ بھی ہے کہ معاشی مسائل کا مستقل حل دکھائی نہیں دے رہا۔ آئی ایم ایف کے ایک ارب ڈالر ملنے کے بعد سعودی عرب، چین، عالمی بینک، ایشین ڈویلپمنٹ بینک تقریباً 10 ارب ڈالر قرض دے سکتے ہیں جس سے بمشکل پانچ ماہ گزر سکیں گے۔

اس کے بعد کیا ہو گا؟ کیا پاکستان دوبارہ آج کی پوزیشن پر کھڑا ہو گا اور حکومت ملک کے دیوالیہ ہونے کی خبر سنا رہی ہوگی؟

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close