تمباکو کی صنعت صحت کے ساتھ ماحول کو کیسے تباہ کر رہی ہے؟

ویب ڈیسک

عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کا کہنا ہے کہ کرہّ ارض پر سب سے زیادہ گندگی تمباکو مصنوعات سے پھیلتی ہے اور ان میں ہزاروں زہریلے کیمیکلز ہوتے ہیں، جو ماحول کو بہت زیادہ نقصان پہنچاتے ہیں

عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے ‘ورلڈ نو ٹوبیکو ڈے’ کی مناسبت سے منگل کے روز اپنی تازہ ترین رپورٹ جاری کی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ تمباکو نوشی سے پیدا ہونے والی طبی پیچیدگیوں کی وجہ سے ہر سال اَسی لاکھ افراد کی موت ہو جاتی ہے

”تمباکو: ہماری دنیا کے لیے زہر“ کے عنوان سے جاری کردہ رپورٹ میں تمباکو کی کاشت سے لے کر اس سے بننے والی مصنوعات کی تیاری پودوں کی نشوونما سے لے کر تمباکو کی مصنوعات کی تیاری، اس کے استعمال اور باقیات کے اثرات کا احاطہ کیا گیا ہے

عالمی ادارہ صحت کے ڈائریکٹر ریوڈیگر کریچ کا کہنا ہے کہ تمباکو کی صنعت دنیا میں سب سے زیادہ آلودگی پھیلاتی ہے اور اس کے نتائج بھی کافی تباہ کُن ہیں

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ تمباکو کی صنعت ہر سال ساٹھ کروڑ درختوں کے نقصان کی ذمہ دار ہے ، اس کے علاوہ اس کی کاشت دنیا کی دو لاکھ ہیکٹر زرخیز زمین اور بائیس ارب ٹن پانی استعمال کرتی ہے

تمباکو کے استعمال یا پیداوار کے نتیجے میں عالمی سطح پر سبز مکانی گیس یا گرین ہاؤس گیسوں میں کافی اضافہ ہوتا ہے۔ تمباکو کے پودوں اور اس سے وابستہ تمباکو کی صنعت سے تقریباً آٹھ کروڑ چالیس لاکھ ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ بھی خارج ہو کر فضا شامل ہو جاتی ہے

رپورٹ میں متنبہ کرتے ہوئے کہا گیا ہے، ”ہر سال کمرشل ایئر لائن انڈسٹری سے جتنی کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس پیدا ہوتی ہے، اس کے پانچویں حصے کے برابر کاربن تمباکو صنعت کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔ اس میں تمباکو کی پیداوار، پروسیسنگ اور ٹرانسپورٹ شامل ہے، جو گلوبل وارمنگ میں اضافے کا باعث ہے۔‘‘

ریوڈیگر کریچ کا کہنا ہے کہ تمباکو سے بننے والی مصنوعات ہمارے کرہ ارض پر سب سے زیادہ کچرا پیدا کرتی ہیں۔ اس کچرے میں سات ہزار سے زیادہ زہریلے کیمیائی مادے ہوتے ہیں، جو ضائع ہونے پر ہمارے ماحول کو جونک کی طرح نقصان پہنچاتے ہیں

ڈبلیو ایچ او کے ہیلتھ پروموشن کے ڈائریکٹر روڈیجر کریچ کا کہنا تھا کہ ہر سال ہمارے سمندروں، دریاؤں، ندیوں، فٹ پاتھوں اور ساحلوں پر پینتالیس کھرب سگریٹ کی باقیات آتی ہیں، جن میں نان بائیو ڈی گریڈیبل مائیکرو پلاسٹک ہوتے ہیں. سادہ الفاظ میں ان میں سے ہر سگریٹ کا ٹوٹا ایک سو لیٹر پانی آلودہ کر سکتا ہے

کریچ کا کہنا تھا کہ اس کرہ ّ ارض پر سب سے زیادہ گندگی تمباکو مصنوعات سے پھیلتی ہے۔ ان میں سات ہزار سے زائد زہریلے کیمیکلز ہوتے ہیں، جو ہمارے ماحولیات کو تباہ کرنے کا باعث بنتے ہیں

انہوں نے کہا کہ پھینک دیے جانے والے تمباکو مصنوعات کی صفائی کا خرچ ٹیکس دہندگان کی جیب پر پڑتا ہے۔ جرمنی میں تمباکو کے کچرے کو صاف کرنے کے لیے ہر سال تقریباً 200 ملین ڈالر خرچ کرنا پڑتے ہیں۔

رپورٹ میں پالیسی سازوں سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ سگریٹ فلٹروں کے ماحولیات پر پڑنے والے نقصان دہ اثرات کے مدنظر اس پر پابندی عائد کرنے پر غور کریں

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ تمباکو کی پروسیسنگ اور اس کی نقل و حرکت سے مضر صحت گیسوں کے اخراج میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ سگریٹ، دھوئیں کے بغیر تمباکو اور ای-سگریٹ جیسی مصنوعات بھی عالمی سطح پر پلاسٹک کی آلودگی کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں

سگریٹ کے فلٹرز میں پلاسٹک کے انتہائی چھوٹے ذرات ہوتے ہیں، یہ چھوٹے چھوٹے ٹکڑے ہمارے سمندروں یہاں تک کہ دنیا کی سب سے گہری کھائیوں کے نچلے حصے میں بھی پائے جاتے ہیں

عالمی ادارہ صحت نے کہا کہ تمباکو کی صنعت کی مارکیٹنگ کے باوجود اس بات کا کوئی ثبوت نہیں کہ فلٹر والے سگریٹ بغیر فلٹر سگریٹ کے مقابلے میں تمباکو نوش کے لئے نسبتاً کم نقصان دہ ہوتے ہیں.

ڈبلیو ایچ او نے تمباکو کاشت کرنے والے کسانوں کے استحصال کی جانب بھی توجہ دینے کی اپیل کی ہے۔ عالمی ادارے کا کہنا ہے کہ تمباکو اگانے والے کسانوں کو نقصان دہ گیسوں کے اخراج کے سبب صحت اور دیگر کئی طرح کے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کریچ نے کہا کہ بعض کسانوں میں جلد کے ذریعے زہریلا مادہ نیکوٹین ان کے جسم میں پہنچ گیا

ریوڈیگر کریچ کے مطابق تمباکو کے کاشتکار اس فصل کی نگہداشت کے دوران ہر روز اوسطاً پچاس سگریٹ کے برابر نکوٹین جذب کرتے ہیں۔ جو کہ کھیتوں میں کام کرنے والے بچوں کے لیے انتہائی تشویشناک ہے

کریچ کا کہنا ہے کہ یہ ایسا ہی ہے، جیسے ایک بارہ سالہ بچہ ایک دن میں پچاس سگریٹ پیتا ہو

عالمی ادارہ صحت کی رپورٹ کے مطابق تمباکو کی کاشت زیادہ تر غریب ممالک میں ہوتی ہے، ان ممالک میں پانی اور کھیتی باڑی کے جدید آلات کی کمی ہوتی ہے، جس زرعی زمین پر تمباکو کاشت کیا جاتا ہے وہاں دیگر اہم غذائی اجناس پیدا کی جا سکتی ہیں

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ زیادہ تر تمباکو غریب ممالک میں اگایا جاتا ہے، جہاں پانی اور کھیتی باڑی کی اکثر فراہمی کم ہوتی ہے، اور جہاں ایسی فصلیں اکثر اہم غذائی پیداوار کی قیمت پر اگائی جاتی ہیں

کریچ نے کہا ”یہ صنعت جو گندگی پھیلا رہی ہے اس کے مدنظر لازم ہے کہ وہ اس نقصان کا ازالہ کرے“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close