حکومت نے جمعرات کی شب پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں ایک مرتبہ پھر 30 روپے فی لیٹر اضافہ کر دیا ہے جس کے بعد پیٹرول کی قیمت کم از کم 209 روپے 86 پیسے ہو گئی ہے جب کہ ڈیزل کی نئی قیمت 204 روپے 15 پیسے ہو گئی ہے
اس اضافے کے بعد نہ صرف عوام کا شدید ردعمل سامنے آیا ہے بلکہ اپوزیشن جماعت پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان نے اس کےخلاف احتجاج کی کال دی ہے جب کہ ان کے ترجمان فواد چوہدری نے وزرا، ججز اور اعلیٰ فوجی و سول افسران سے مطالبہ کیا ہے کہ عوام کے ساتھ یکجہتی کے لیے قیمتیں معمول پر آنے تک اپنے پیٹرول الاؤنسز معطل کر دیں
جمعرات کو رات گئے اپنی ایک ٹویٹ میں عمران خان نے لکھا کہ ’امپورٹڈ سرکار نے تیل کی قیمتوں میں فی لیٹر 40 فیصد یا 60 روپے کا اضافہ کردیا ہے. اس سےعوام پر 900 ارب کا اضافی بوجھ آئے گا اور بنیادی اشیاء کی قیمتیں بڑھیں گی۔ اس کے ساتھ بجلی کی قیمت میں آٹھ روپے کے اضافے سے پورے ملک کو دھچکا لگے گا. مہنگائی کی ممکنہ شرح 30 فیصد ہوگی جو 75 برس میں بلند ترین ہے۔‘
سابق وزیراعظم عمران خان نے اپنے دورِ حکومت کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ ’ہماری حکومت نے کورونا کی وبا کا دباؤ برداشت کیا اور 1200 ارب کا معاشی پیکج دیا۔ اپنے لوگوں کو بچانے کے لیے ہم نے رواں سال سیلز ٹیکس صفر کرتے ہوئے 466 ارب روپے توانائی پر سبسڈی کے لیے مہیا کیے۔‘
دوسری جانب تحریک انصاف کے رہنما فواد چوہدری نے ایک ٹویٹ میں لکھا کہ ’حکومت کے وزراء جج صاحبان، اعلیٰ فوجی اور سول افسران قوم سے یکجہتی دکھائیں اور اپنے پیٹرول الاؤنسز معطل کردیں۔‘
سابق وزیر اطلاعات نے مزید لکھا کہ ’جب تک قیمتیں واپس (پرانی سطح پر) نہیں آتیں اعلیٰ عہدوں پر براجمان لوگ عوام کی تکلیف میں حصہ دار بنیں‘
مختلف ٹویپس نے ’اب کاریں گھر کھڑی کرنے کا وقت ہو گیا ہے‘ اور ’ہور کوئی خدمت ساڈے لائق‘ کی صورت اپنے جذبات کا اظہار کیا
پیٹرول کے بعد بجلی مہنگی ہونے کے خدشوں کا اظہار کرنے والے صارفین نے دوسروں کا مشورہ دیا کہ اب سولر پر منتقل ہو جائیں
متعدد صارفین نے پی ٹی آئی اور موجودہ دور حکومت کا موازنہ کرتے ہوئے دونوں ادوار میں اضافے کی مقدار کو موضوع بنایا
ایسے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ وزرا اور سرکاری افسران کے پیٹرول کی مد میں کتنے اخراجات کیے جاتے ہیں اور کس اعلیٰ شخصیت کو ریاست کی طرف سے کتنا پیٹرول فراہم کیا جاتا ہے
سابق وفاقی سیکریٹری رؤف چوہدری کے مطابق وزیراعظم اور وزرا کے سفر کے لیے ان کو فراہم کیے جانے والے گاڑیوں کے ایندھن (پیٹرول اور ڈیزل) کی کوئی مقدار مختص نہیں ہے اور وہ لامحدود پیٹرول استعمال کر سکتے ہیں
اسی طرح اراکین اسمبلی کو سرکاری مصروفیات کے لیے آمد و رفت کے تمام اخراجات حکومت کی طرف سے فراہم کیے جاتے ہیں، جب کہ سول بیوروکریسی کے سینیئر افسران کو ایک مونیٹائزیشن پالیسی کے تحت گاڑی کے ماہانہ اخراجات اور ایندھن کی مد میں 65000 ہزار سے ایک لاکھ روپے تک ادائیگی کی جاتی ہے جو کہ ان کے عہدے کے لحاظ سے ہوتی ہے۔
تاہم یہ پالیسی پولیس اور فوج کے افسران پر لاگو نہیں ہوتی اور نہ ہی حکومت کے ماتحت آزاد اداروں پر جو اپنے افسران اور سربراہان کو اپنے بجٹ کے لحاظ سے ایندھن کے اخراجات مہیا کرتے ہیں
رؤف چوہدری نے بتایا ’چونکہ پولیس اور فوجی افسران کے ایندھن کے اخراجات ان کی فیلڈ سے متعلقہ نقل و حرکت پر مشتمل ہوتے ہیں، اس لیے یہ مختلف سکیورٹی اور آپریشنل ڈیوٹیوں کی مد میں پورے کیے جاتے ہیں‘
معیشت پر تحقیق اور سفارشات مرتب کرنے والے حکومت پاکستان کے ادارے پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈیویلپمنٹ اکنامکس (پائیڈ) جس نے سرکاری افسران کے مشاہرے اور مراعات پر ایک مفصل رپورٹ بھی جاری کی ہے۔ اس کے سینیئر تجزیہ کار ڈاکٹر ادریس خواجہ کے مطابق سول بیوروکریسی کے افسران کو 20 گریڈ سے 65 ہزار روپے تک ایندھن اور گاڑی کی مرمت کے اخراجات کی مد ادا کیے جاتے ہیں
ڈاکٹر ادریس خواجہ نے کہا کہ حکومت وزرا اور دیگر اعلیٰ عہدیداران کے ایندھن کے خرچ پر نظرثانی کر کے ایک مناسب مقدار میں بچت کر سکتی ہے
اگر مفت میں فراہم کیے جانے والے ایندھن کو صرف حکومتی عہدیداروں کے گھر سے دفتر تک آنے تک محدود کر دیا جائے اور ان کے دوسرے غیرضروری دوروں جیسے کہ سیمینارز میں شرکت، تقریب میں مہمان خصوصی بننے کے لیے جانا، یونیورسٹی کانووکیشن وغیرہ میں شرکت کو بند کر دیا جائے تو اس سے بھی کافی بچت ہو جائے گی
وہ کہتے ہیں ’وزیراعظم اور وزرا کے ساتھ جانے والے بڑے بڑے کاروان بھی محدود کیے جا سکتے ہیں، وہ درجنوں گاڑیوں کی جگہ ایک یا دو گاڑیاں بھی اپنے قافلے میں رکھ سکتے ہیں۔ اسی طرح سکیورٹی کے لیے تین چار الگ گاڑیوں کی جگہ ایک گاڑی سے کام چلایا جا سکتا ہے اور سکیورٹی اہلکاروں کو وزیر کی گاڑی میں سفر کرنا چاہیے کیونکہ ان کا بنیادی مقصد ان کے قریب رہ کر حفاظت کرنا ہوتا ہے۔‘
ڈاکٹر ادریس خواجہ کا کہنا تھا کہ سرکاری اداروں اور وزارتوں میں زیادہ ایندھن استعمال ہونے کی بڑی وجہ ان کے زیراستعمال گاڑیوں کی نوعیت بھی ہے۔
’یہ لوگ 2600 سی سی والی پراڈو اور ویگو گاڑیاں استعمال کرتے ہیں جو بہت زیادہ ایندھن لیتی ہیں، اس کی جگہ وہ چھوٹی کاریں جیسے کہ کرولا وغیرہ بھی استعمال کر سکتے ہیں۔‘
انہوں نے کہا ’اگر سکیورٹی اور پروٹوکول کے قافلے ہی کم کر دیے جائیں تو پیٹرول کے سرکاری خرچ کا ایک بڑا حصہ بچ جائے گا‘
پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کی جانب سے جاری کیے گیے اعداد و شمار کے مطابق سابق وزیراعظم نواز شریف کی سکیورٹی پر چار ارب 31 کروڑ سے زائد، آصف زرداری کی سکیورٹی پر 316 کروڑ 41 لاکھ 18 ہزار روپے سے زائد، شہباز شریف پر 872 کروڑ 79 لاکھ 59 ہزار روپے جب کہ یوسف رضا گیلانی کے لیے 24 کروڑ سے زائد خرچ کیے گئے
شاہد خاقان عباسی نے اپنے دور حکومت میں 35 کروڑ، راجہ پرویز اشرف نے بطور وزیراعظم 32 کروڑ اور سابق صدر ممنون حسین نے 30 کروڑ روپے سرکاری خزانے سے سکیورٹی اور پروٹوکول پر خرچ کیے۔