خیبر پختونخوا اسمبلی نے گزشتہ روز پنشن کےایک نئے نظام کو لانے کا قانون اسمبلی سے پاس کرایا ہے، جس کے تحت رواں سال جولائی کے بعد سرکاری بھرتی ہونے والے ملازمین کو موجودہ پنشن قوانین کے تحت پنشن نہیں دی جائے گی
یہ نیا نظام متعارف کرائے جانے کے بعد ایک عام تاثر یہ ہے کہ پینشن ختم کر دی گئی ہے، کیا واقعی ایسا ہی ہے یا پھر معاملہ کچھ اور ہے
اس حوالے سے خیبر پختونخوا کے وزیر صحت و خزانہ تیمور سلیم جھگڑا کا کہنا ہے ”صوبے سے پنشن کو ختم نہیں کیا بلکہ عالمی معیار کا نظام لا رہے ہیں“
تیمور سلیم جھگڑا سے جب پوچھا گیا کہ پنشن کیوں ختم کی گئی ہے، اس کے جواب میں انہوں نے کہا ”پنشن کو ختم نہیں کیا ہے لیکن پوری دنیا میں زیادہ تر ممالک میں پنشن کا جو نظام ہے، اسی کو ہم خیبر پختونخوا میں لا رہے ہیں“
اس نئے نظام کو ’کنٹری بیوٹری فنڈ‘ کہا جائے گا جس میں ملازم کی جانب سے ایک حکومتی فنڈ میں تنخواہ سے کچھ پیسے دیے جائیں گے
صوبائی وزیر نے اس نئے نظام کے بارے میں بتایا ”اگر ایک ملازم کی پچاس ہزار تنخواہ ہے، تو اس فنڈ میں پانچ ہزار ملازم اور سات ہزار تک حکومت جمع کرے گی اور حکومت اس فنڈ کو سرمایہ کاری میں لگائے گی، جس سے بعد میں ملازمین کو پنشن دی جائے گی“
نئے نظام کے بارے میں جھگڑا کا مزید کہنا تھا کہ اس میں یہ بھی نہیں ہوگا کہ ملازم پچیس سال تک پنشن کے لیے انتظار کرے گا بلکہ وہ ملازمت کے کسی بھی دورانیے میں حکومت سے اپنا پنشن فنڈ واپس لے سکے گا
یاد رہے کہ رواں ڈال کے آغاز میں خیبر پختونخوا میں حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے سرکاری ملازمین کے لیے روایتی پینشن کا طریقہ کار ختم کرنے اور ایک نیا پینشن نظام لانے کے لیے ’خیبر پختونخوا سول سرونٹ ایکٹ‘ کی شق 19 میں ترمیم کا فیصلہ کیا تھا
اس ترميم کے مطابق کسی بھی ملازم کی بیوہ، غیر شادی شدہ بیٹی یا بیٹے (اگر ان کی عمر 21 سال سے کم ہو)، معذور بیٹے (عمر بھر کے لیے)، بیوہ بیٹی یا کوئی لے پالک بچہ اور پینشنر کے والدین پینشن لینے کے اہل ہوں گے
اسی ترمیم کے بعد پینشرز کی وفات کے بعد ان کی بیوہ، والدین یا کسی بھی زیر کفالت فرد کی پینشن 75 سے بڑھا کر 100 فیصد کی گئی ہے
اس سے پہلے صوبائی کابینہ نے پینشن رولز میں کچھ ترامیم کی منظوری گذشتہ سال بھی دی تھی، جس میں ریٹائرڈ ملازمین کی وفات کے بعد ان کے خاندان کے کچھ افراد کو پینشن دی جاتی تھی
بعض حلقوں کی جانب سے پینشن ایکٹ میں ترمیم کو تنقید کا نشانہ بھی بنایا جا رہا ہے جبکہ سرکاری ملازمین بھی نئے نظام کے بارے میں تفصیلی معلومات نہ ہونے کی وجہ سے پریشان ہیں
پینشن کا موجود نظام کیسا ہے؟
ترامیم کے متعلق جاننے سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ دہائیوں سے چلا آنے والا سرکاری ملازمین کا پینشن نظام کیسا ہے اور حکومت اب اس میں کیا تبدیلی لا رہی ہے؟
سرکاری ملازمین کو ریٹائرمنٹ پر حکومت کی جانب سے یک مشت رقم دی جاتی ہے اور اس کے بعد ماہانہ ریٹائرڈ ملازمین کو بھی پینشن کی مد میں رقم دی جاتی ہے۔ اس پینشن کو ’ ڈیفانڈ بینیفٹ پینشن‘ کہا جاتا ہے
یہ پینشن ریٹائرڈ ملازمین کو ان کی بنیادی تنخواہ کے تقریباً برابر ہر ماہ دی جاتی ہے۔ پینشن کی یہ رقم ہر سال بجٹ میں مختص کی جاتی ہے یعنی ملازمین کو پینشن حکومتی خزانے سے ادا کی جاتی ہے
رواں سال کی ابتدا میں اس صورت حال کی وضاحت کرتے ہوئےتیمور جھگڑا نے کہا تھا ’پینشن کی رقم صوبے کے بجٹ کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔ یہ مختص بجٹ 2005 میں تقریباً ایک ارب روپے سے بڑھ کر اب 83 ارب تک پہنچ گیا ہے، جو تقریباً نو ہزار 500 فیصد اضافہ ہے۔‘
ان کا کہنا تھا ’ابھی بجٹ کا تقریباً 15 فیصد ہے اور ہم نے جو اندازہ لگایا ہے، 2030 تک پینشن کی مد میں بجٹ کا 50 فیصد حصہ مختص کرنا پڑے گا، جو ٹیکس دینے والے شہریوں پر بوجھ ہوگا کیونکہ وہ بغیر کسی وجہ کے پینشن کی مد میں جانے والی رقم میں ادائیگی کریں گے‘
تیمور جھگڑا کے مطابق، موجودہ حکومت نے محسوس کیا کہ موجودہ پینشن نظام میں ملازمین کو دی جانے والی پینشن کو خطرہ ہے اور اگر کوئی بھی حکومت یا شخص کہتا ہے کہ چالیس سال بعد انہیں موجودہ پینشن نظام میں اسی طرح پینشن دی جائے گی، تو وہ جھوٹ بول رہا ہوگا کیونکہ ایسا ممکن نہیں ہے
نئے نظام میں پینشن ملنے کے بارے میں تیمور سلیم جھگڑا کا کہنا تھا کہ خیبر پختونخوا پہلا صوبہ ہے، جہاں پر پینشن اصلاحات کی جا رہی ہیں اور یہ تمام اصلاحات ملازمین کے بہتر مفاد میں کی جا رہی ہیں، تاکہ ان کی پینشن مستقبل میں محفوظ ہو سکے
جھگڑا نے بتایا کہ نیا پینشن نظام ’کنٹری بیوٹر پینشن نظام‘ ہے، یعنی اس نظام میں اگر ایک روپیہ حکومت پینشن فنڈ میں جمع کرے گی تو اسی طرح ملازمین سے بھی پینشن کی مد میں تنخواہ سے کٹوتی کی جائے گی۔ اس فنڈ کے لیے ایک الگ اکاؤنٹ قائم کیا جائے گا اور اس فنڈ کو مختلف جگہوں پر انویسٹ کیا جائے گا اور اس سے منافع حکومت کو ملے گا، جس سے پینشن کی رقم ادا کی جائے گی‘
اس کا ایک فائدہ جھگڑا کے مطابق یہ ہوگا کہ ملازمین کی پینشن رسک پر نہیں ہوگی کیونکہ جتنی بھی رقم اس اکاؤنٹ میں ہوگی، اس کا بوجھ حکومتی خزانے پر نہیں ہوگا بلکہ اس پر سرمایہ کاری ہوگی اور جتنی یہ زیادہ ہوگی، اتنا ہی پینشن نظام مستقل ہوگا
انہوں نے مزید بتایا کہ اس نئے نظام کا دوسرا فائدہ یہ ہوگا کہ پرانے نظام میں بنیادی تنخواہ پر پینشن دی جاتی ہے، لیکن نئے نظام میں مجموعی تنخواہ پر پینشن دی جا سکے گی
تیمور جھگڑا کے مطابق ’شارٹ ٹرم میں یہ حکومت پر بوجھ ضرور ہوگا کہ وہ بنیادی تنخواہ جو کم ہوتی ہے، کے بجائے مجموعی تنخواہ پر پینشن فنڈ میں رقم جمع کرے گی لیکن لانگ ٹرم میں اس کا فائدہ حکومت کو ضرور ہے اور یہ پینشن کی رقم حکومتی خزانے پر بوجھ نہیں بنےگی‘
ان کا کہنا تھا کہ ایسا بھی ممکن ہے کہ نئے نظام میں موجودہ پینشن نظام کے مقابلے میں ملازمین کو پینشن زیادہ مل سکے کیونکہ سرمایہ کاری جتنی زیادہ ہوگی، اس کے فوائد بھی ملازمین کو ملیں گے
ساتھ ہی انہوں نے بتایا کہ نئے نظام میں یہ بھی ہوگا کہ کوئی بھی ملازم کسی بھی وقت اپنی پینشن یک مشت یا ماہانہ بنیادوں پر کسی بھی وقت واپس لے سکتا ہے جبکہ موجودہ نظام میں ارلی ایج ریٹائرمنٹ (جو پچیس سال ملازمت ہے) تک آپ پینشن نہیں لے سکتے
تیمور جھگڑا کا کہنا تھا: ’ہم نے پرانے نظام کو مدنظر رکھتے ہوئے ارلی ایج ریٹائرمںٹ کی عمر کی حد بھی بڑھائی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک ملازم پر حکومت 25 سال پیسہ لگاتی ہے اور جب وہ میچور ایج تک پہنچ جاتا ہے، تو وہ ریٹائرمنٹ لے کر کسی نجی ادارے میں ملازمت اختیار کرتا ہے۔ وہ حکومت سے پینشن کی رقم بھی لیتا ہے اور نجی ادارے سے تنخواہ بھی لیتا ہے۔ارلی ایج ریٹائرمنٹ ریفارمز کی وجہ سے حکومت کو 12 ارب روپے تک کا فائدہ ہوگا۔‘
کیا عوام بھی اس فنڈ میں سرمایہ کاری کرسکیں گے؟
اس سوال کے جواب میں جھگڑا کا کہنا تھا کہ ہم اس حوالے سے بھی سوچ رہے ہیں کہ اسے عوام کے لیے بھی اوپن کریں کہ وہ بھی اس فنڈ میں حصہ لیں اور منافعے سے آنے والی رقم سے انہیں فائدہ ہوسکے
تیمور جھگڑا سے جب پوچھا گیا کہ دیگر ممالک میں، جہاں یہ نظام رائج ہے، وہاں تنخواہیں بھی اسی حساب سے زیادہ دی جاتی ہیں، تو اس کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ’مستقبل میں ہم سرکاری اداروں میں ملازمتیں ضرورت کی بنیاد پر کریں گے تو ظاہری سی بات ہے کہ تنخواہوں میں اضافہ بھی کیا جائے گا۔‘
نیا پینشن نظام جولائی 2021کے بعد بھرتی ہونے والے ملازمین پر لاگو ہوگا تاہم جھگڑا کے مطابق اس سے پہلے بھرتی ہونے والے ملازمین کو بھی ہم انتخاب کی سہولت دیں گے کہ وہ اگر اس نئے پینشن نظام کا حصہ بننا چاہتے ہیں تو وہ بن سکتے ہیں
کیا یہ سرمایہ کاری اسلامی شریعت کے مطابق ہوگی؟
پاکستان میں رہتے ہوئے کسی بھی جگہ پر سرمایہ کاری سے پہلے لوگوں کی جانب سے یہ پوچھا جاتا ہے کہ کیا یہ سرمایہ کاری بلا سود ہوگی؟ یہی سوال جب تیمور جھگڑا سے پوچھا گیا تو انہوں نے بتایا کہ ’نئے پینشن نظام میں پہلے تو ہم کوشش کریں گے کہ تمام تر سرمایہ کاری شریعت اصولوں کے مطابق ہوگی اور ایسا بھی کر سکتے ہیں کہ ملازمین کو انتخاب کی سہولت دیں گے کہ وہ شریعت کے اصولوں کے مطابق کاروبار میں سرمایہ کاری کریں یا مارک اپ میں، یہ ملازمین کی مرضی ہوگی۔‘
ماہرین کی رائے کیا ہے؟
ڈاکٹر ناصر اقبال پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈولپمنٹ اکنامکس کے پروفیسر اور پاکستان میں بجٹ منیجمنٹ کے حوالے سے مختلف تحقیقی مقالے بھی لکھ چکے ہیں
ان کا کہنا ہے ’خیبر پختونخوا جس پینشن ماڈل پر جا رہا ہے، پوری دنیا اب اسی ماڈل کو اختیار کرنے کا سوچ رہی ہے‘
ڈاکٹر ناصر کے مطابق: ’حکومت پر سب سے بڑا بوجھ تنخواہوں کا نہیں بلکہ پینشن کا ہے اور حکومت کو اس مد میں ریفامرز کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ پینشن بھی موجود رہے اور حکومتی خزانے پر بوجھ بھی نہ پڑے اور یہ نیا پینشن ماڈل سب سے بہترین ماڈل ہے‘
انہوں نے بتایا کہ اس کا زیادہ فائدہ ملازمین کو بھی ہوگا اور وہ یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں سرکاری ملازمتیں پینشن ہی کے لیے کی جاتی ہیں اور ملازمیں سوچتے ہیں کہ ریٹائرمنٹ لے کر ان کو کچھ نہ کچھ رقم مل جائے گی
تو اب اس نئے نظام میں ڈاکٹر ناصر کے مطابق ’ملازمین کو انتخاب کی سہولت ہوگی کہ وہ کسی بھی وقت اپنی پینشن نکال کر کسی دوسری ملازمت میں جاسکیں گے اور اپنی پینشن وہاں منتقل کرسکیں گے‘
ڈاکٹر ناصر نے بتایا کہ اس ماڈل پر ہمارے ادارے نے کام بھی کیا ہے اور حکومت پاکستان بھی اسی ماڈل کو اختیار کرنے کا سوچ رہی ہے تاکہ لوگوں کی پینشن مستقبل میں محفوظ ہو سکے اور حکومتی خزانے پر بوجھ بھی نہ ہو۔