تازہ اعداد و شمار کے مطابق بھارت کی جانب سے روس سے خام تیل کی درآمد میں بڑا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے
اگرچہ رواں سال فروری میں روس کے یوکرین پر حملے کے بعد سے بھارت پر دباؤ ہے کہ وہ اپنے آپ کو معاشی طور پر روس سے دور کرے، لیکن اس کے باوجود بھارت روس سے خام تیل خریدنے سے دستبردار نہیں ہوا
واضح رہے کہ امریکا اور چین کے بعد بھارت تیل کا دنیا کا تیسرا بڑا صارف ہے جو اپنی ضرورت کا 80 فیصد درآمد کرتا ہے
اشیا کی خرید و فروخت سے متعلق ریسرچ کرنے والے ادارے کپلر کے مطابق ”سنہ 2021ع میں بھارت نے اپنی کُل درآمدات کا صرف دو فیصد تیل روس سے خریدا، جس کی مقدار ایک کروڑ بیس لاکھ بیرل بنتی تھی“
بھارت نے اپنی ضرورت کا زیادہ تر تیل مشرقِ وسطیٰ کے ممالک سے درآمد کیا۔ اس کے علاوہ امریکا اور نائجیریا سے بھی بڑی مقدار میں تیل خریدا گیا
جنوری اور فروری میں بھارت کے لیے روس سے تیل درآمد کی مقدار صفر تھی، لیکن اب تیل لے جانے والے ٹینکرز کے اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ اس میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے
کپلر کے مطابق ”اس سال مارچ، اپریل، مئی اور جون میں اب تک بھارت تقریباً پانچ کروڑ بیس لاکھ بیرل خام تیل روس سے درآمد کر چکا ہے۔ یہ مقدار پورے سنہ 2021ع کی درآمد سے زیادہ ہے“
بھارت کے سرکاری اعداد وشمار کے مطابق بھارت جون میں روس سے خام تیل کی درآمد مزید بڑھا کر اس کی مقدار 28 ملین بیرل کرنے جا رہا ہے
ایک ایسے وقت میں جب دنیا بھر میں ایندھن کی قیمتوں میں اضافہ ہوا، بھارت نے کم قیمت پر روسی تیل کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی تیل کی درآمدات کو مستحکم کیا ہے
اس ضمن میں اہم بات یہ ہے کہ یوکرین پر فروری میں روس کے حملے کے بعد امریکا نے یورپی ملکوں اور بھارت سے کہا تھا کہ وہ روس کے تیل کا بائیکاٹ کریں۔ بھارت پر کئی طرف سے دباؤ پڑ رہا تھا کہ وہ روسی تیل نہ خریدے لیکن بھارت نے امریکا اور یورپی ملکوں کی اپیل یہ کہہ کر مستر کر دی کہ یورپی ممالک روس سے کہیں زیادہ تیل خریدتے ہیں اور یہ کہ بھارت تو صرف اپنی ضرورت کا دو فیصد تیل روس سے خرید رہا ہے
امریکا کی ناراضی کے باوجود روس سے تیل خریدنے میں بھارت کو کوئی دشواری پیش نہیں آئی ہے۔ روسی تیل کی خریداری کے لیے دونوں ملکوں نے پیسے کی ادائیگی کے لیے ایک باہمی طریقہ کار وضع کیا ہے جس کے تحت کچھ ادائیگی روبل کے ذریعے، کچھ قزاقستان جیسے سبسیڈیئری ملکوں کے توسط سے اور کچھ انڈین اشیا کی برآمدات کے ذریعے کی جاتی ہے
علاوہ ازیں برطانیہ کی وزیرِ خارجہ لِز ٹروس نے مارچ میں دلی کے دورے کے دوران بھارت پر زور دیا کہ وہ روس پر اپنا انحصار کم کرے۔ ان کا یہ دورہ ایک ایسے وقت میں ہوا جب روسی وزیرِ خارجہ سرگئی لاوروف بھی دلی میں موجود تھے
اس موقع پر روسی وزیرِ خارجہ نے اپنے بھارتی ہم منصب سے کہا تھا کہ روس ان تمام اشیا سے متعلق بات کرنے کے لیے تیار ہے، جن کی بھارت کو ضرورت ہے۔ انہوں نے بھارت پر زور دیا کہ وہ روس سے درآمد کی جانے والی اشیا کی قیمت روسی کرنسی روبل میں ادا کرے
روس کی جانب سے یوکرین پر حملے کے بعد سے روسی خام تیل کے خریدار ممالک کی تعداد کم ہو گئی ہے۔ جبکہ کچھ ممالک اور کمپنیوں نے روس کی ایندھن کی برآمدات کو محدود کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اِسی وجہ سے روسی تیل کی قیمت میں کمی آئی ہے
اگرچہ یہ واضح نہیں کہ روس بھارت کو کس قیمت پر تیل فروخت کر رہا ہے، لیکن کپلر کے ایک تجزیہ کار میٹ اسمتھ کا کہنا ہے ”یورلز اور برینٹ خام تیلوں میں 30 ڈالر فی بیرل کا فرق ہے یعنی روسی خام تیل تیس ڈالر فی بیرل تک سستا ہو سکتا ہے۔ یعنی بھارت کو تیل پر فی بیرل 30 ڈالر کے قریب رعایتی ریٹ مل رہا ہے“
عام طور پر خام تیل کی یہ دونوں اقسام ایک جیسی قیمت پر ملتی ہیں
میٹ سمتھ کا کہنا ہے ”معمول کے دنوں میں روسی تیل اور دیگر منڈیوں کے تیل کی قیمت برابر ہوتی ہے۔ بھارت یقینی طور پر روسی تیل اچھی رعایت پر حاصل کر رہا ہے“
کار میٹ اسمتھ کے مطابق ”مارچ کے دوران یورلز کی قیمت مسلسل گرتی رہی اور اب ان دونوں کی قیمتوں میں ریکارڈ فرق ہے۔ اس کے بعد سے قیمت کا فرق جاری ہے“
وہ کہتے ہیں ”امکان ہے کہ بھارت روسی خام تیل کی کچھ مقدار خاصی کم قیمت پر خرید رہا ہے“
اگرچہ تیل کی یہ قیمت کافی پُرکشش ہے لیکن بھارت میں ریفائنریز کو روسی تیل خریدنے کے لیے رقوم حاصل کرنے میں مشکل پیش آ رہی ہے، کیونکہ روسی بینکوں پر پابندیاں عائد کر دی گئی ہیں
یہ وہ مسئلہ ہے جس کا درآمدات اور برآمدات دونوں کو سامنا ہے
بھارت اس سلسلے میں کئی آپشنز پر غور کر رہا ہے، جن میں سے ایک ادائیگیوں کا ایسا نظام ہے جو مقامی کرنسیوں پر مشتمل ہو۔ اس نظام کے تحت بھارتی برآمد کنندہ کو ڈالر یا یورو کے بجائے روبل میں ادائیگی کی جائے
امریکا اس سلسلے میں پہلے ہی اپنے تحفظات کا اظہار کر چکا ہے کہ اس طرح روبل مضبوط ہوگا اور ڈالر کی بنیاد پر چلنے والے مالی نظام کو نقصان پہنچے گا
کیا پاکستان ایسا کر سکتا ہے؟
وزارت توانائی کے ترجمان زکریا علی شاہ روس سے تیل کی درآمد کے منصوبے کو قابل عمل قرار دیتے ہیں۔ ان کے مطابق وزارت توانائی سمیت ہر حکومتی شعبے کا یہی مقصد ہوتا ہے کہ وہ ملک و قوم کے مفاد میں کام کرے
انھوں نے کہا کہ روس سے تیل کی درآمد کا آپشن بھی دیکھا جا رہا ہے اور نئی حکومت کو بھی اس سلسلے میں بریف کیا گیا ہے
روس کے خام تیل کو پاکستان درآمد کر کے کیا اسے پاکستانی ریفائنریوں میں مصنوعات تیار کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس کے جواب میں تیل کے شعبے کے ماہر اور پاکستان ریفائنری کے چیف ایگزیکٹیو زاہد میر کہتے ہیں ”روسی خام تیل کو مقامی ریفائنریوں میں کام میں لایا جا سکتا ہے۔ روس میں دو قسم کا خام تیل پیدا ہوتا ہے جن میں ایک سوکول (Sokol) اور دوسرا یورل (Ural) کہلاتا ہے۔ دونوں قسم کے تیل استعمال ہو سکتے ہیں اور ان سے تیل کی مصنوعات تیار ہو سکتی ہیں تاہم ان کے مطابق سوکول زیادہ بہتر ہے جس سے کم فرنس آئل پیدا ہوتا ہے“
زاہد میر نے کہا ”ریفائنریوں میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ جس طرح دوسرے ممالک کے خام تیل کو پراسس کر رہی ہیں اسی طرح روسی خام تیل کو بھی استعمال میں لا سکتی ہیں“
پاکستان میں نئی حکومت نے تیل کی قیمتوں میں ملکی تاریخ کا سب سے بڑا اضافہ کیا ہے، جبکہ مزید اضافے کا عندیہ بھی دیا ہے۔ پی ٹی آئی کی سابقہ حکومت کا دعویٰ ہے کہ روس سے سستا تیل حاصل کرنے سے مقامی صارفین کو فائدہ ہوتا
سابق وزیر اعظم عمران خان کے 28 فروری 2022 کے اعلان کے مطابق پٹرول و ڈیزل کی قیمتوں کو نئے مالی سال کے بجٹ تک منجمد کر دیا گیا تھا اور عالمی مارکیٹ میں بڑھتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے آنے والے فرق کو حکومت نے اپنے خزانے سے دینے کا اعلان کیا تھا
نئی حکومت نے آغاز میں تو اس سبسڈی کو برقرار رکھا تھا لیکن پھر آئی ایم ایف کے دباؤ میں مئی میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا گیا
اگرچہ وزارت توانائی کے ترجمان زکریا علی شاہ روس سے تیل کی درآمد کے منصوبے کو قابل عمل قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ روس سے تیل کی درآمد کا آپشن بھی دیکھا جا رہا ہے اور نئی حکومت کو بھی اس سلسلے میں بریف کیا گیا ہے، لیکن موجودہ وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل اس حوالے سے ”امریکی پابندیاں لگنے کے ڈر“ کا برملا اظہار کر چکے ہیں۔