رفتگان ملیر: شاعرِ ملیر ملا داد رحمٰن

مشتاق رسول

مادر ملیر صرف اپنی سرسبزی و شادابی کے حوالے سے ہی جانی پہنچانی نہیں جاتی، بلکہ ملیر نے ایسے ذی فہم و ذی شعور بیٹوں کو بھی پیدا کیا ہے، جنہوں نے نہ صرف اپنی اقدار اور تہذیب و تمدن کو عزیز رکھتے ہوئے زندگی کی گوناگوں ضرورتوں کو احسن طریقے سے پورا کیا ہے، بلکہ مختلف شعبہ ہائے حیات میں اپنے کارناموں سے اپنی دھرتی کی پہچان بھی بنے ہیں۔ ملیر کی ایسے قداور شخصیات ہی ملیر کی زینت ہیں۔

ملیر کے متعد بزرگوں کو شاعر کی حیثت سے بھی شہرت ملی ہے۔
ملیر کے کئی ایسے شعراء ہیں، جن کی شاعری کتابی صورت میں تو موجود نہیں ہے مگر آج بھی لوگ ان کے نام سن کر انہیں بحیثیت شاعر یاد کرکے ان کی شاعری کو زبانی دہرا کر انہیں داد دیتے ہیں۔ ان شعراء میں ملا داد رحمٰن ولد ملا حسن بھی شامل ہیں۔

ملا داد رحمٰن نے اپنے والد ملا حسن کی صحبت میں رہ کر شاعری کی دنیا میں قدم رکھا۔ ملا داد رحمٰن کے والد ملا حسن کے بارے میں کہتے ہیں کہ آپ فارسی زبان کے بہت بڑے شاعر تھے۔ آپ کی شاعری زمانہ ماضی میں ریڈیو پاکستان سے گویوں کی آواز میں نشر ہوئی۔ ان کا ایسا ہی ایک شعر ہے:

”بیا بلبل سخن چینم،

داریں دنیاءَ چہ مے بینم،

نگوش ملا من گویم،

ترارا طلب جویم،

یک روز من گردشے رفتم

گلستانءَ گلے دیدم“

ملا داد رحمٰن اپنے والد صاحب کے صحبت کے اثرات لیئے بچپن میں ہی شعر و شاعری کی طرف مائل ہوئے۔ ملا داد رحٰمن نے گزرتے وقت کے حالات و افکار اپنے آپ پر بیتے لمحات اور معاشرتی گرد و پیش کی عکاسی کے لیے شاعری کو ہی اپنے اظہار کا ذریعہ بنایا۔

ملا داد رحمٰن اپنی غربت و تنگدستی سے پریشاں نہیں رہے، وہ اللہ سے پُر امید تھے کہ ہر مشکل کو آسان کرنے والا اللہ ہی ہے۔ اس حوالے سے ان کے ایک شاعری کے کچھ مصرعے ان کی پرخلوص زندگی اور اللہ سے قربت اور وابستگی کی ترجمانی کرتے ہیں۔

”دادو غریبی شان کنت

عرض گَوں وتی رحمان کنت

وت مشکلاں آسان کنت

شاہیں خداءَ فرمان کنت

دلبر مسرور سامان کنت

ترا دائم وتی مہمان کنت

ترجمہ:
دادو (داد رحمٰن) اپنی غریبی پہ نازاں ہے،
اپنے اللہ سے ہی مخاطب ہے،
کہ وہی مشکلیں آسان کرنے والا ہے،
باد شاہ خدا سے ھم کلام ہے،
اللہ ہی خوشی کا سامان کرتا ہے،
ہر وقت تمہیں مہمان بناتا ہے“

ملا کی شاعری میں لہجے کی نرمی و سادگی تشبیہ اور مثالوں کی نازکی، قدرتی نظاروں کی منظر کشی کے حوالے سے ہرچایک شعر اپنی جداگانہ نزاکت سے پڑھنے اور سننے والے پر ایک گہرا اثر چھوڑ جاتا ہے۔

ملا ایک شعر میں محبوب کی خوبصورتی، مسکراہٹ، دوست کی دوری اور قریب ہونے کو جنت کی خوشنمائی اور دوزخ کی گراں ساعت کو مثال و تشبیہ اور رنگ ریزی کو ایک خوبصورت انداز میں بیان کرتا ہے۔

”دوری تئی او دل رُبا چہ دوزخءَ کمتر نہ انت،

بے تو منی یک ساعتے چہ قیامتءَ کمتر نہ انت

بیا تو شپانی ماہ تاب تہاریں بے تئیگا جہاں،

لیلٰی رخءِ رژن تئی چہ ماہءِ چاردہیءَ کمتر نہ انت۔

تیرے ہجر کی ساعتیں عذاب دوزخ سے کم نہیں،
تہمارے بنا میرا اک پل قیامت سے کم نہیں۔

آجا اے میری راتوں کے مہتاب کہ ترے بغیر میرے جہاں میں اندھیرا ہے،
اے ماہ پیکر تمہارے چہرے کی روشنی چودھویں کے چاند سے کم نہیں۔

ملا نے زندگی کے ہر پہلو پر شاعری کی ہے۔ ثقافتی پہلو کی رنگوں کو اپنی شاعری میں سموتے ہوئے وہ شادی بیاہ کے موقع پر رسم و رواجوں کو برقرار رکھنے کی عکاسی اپنی شاعری میں اس طرح کرتے ہیں:

جناں شما مچ بئیت طرز ءِ جلوسی

کنے ادا رسمءِ بلوچی

بےبندیت دجلہءِ شاریں عروسی

بنادت گلءَ کنجءِ خاموشی

بیا ات خادمیں خدمت گذاراں

بمین ات عمبریں بُو عطاراں

بہ سینگار ات گلءَ گل زاراں

گوں عروسی زینتءُ نقش نگاراں

مروچی دل منی شادءُ قراریں

ترجمہ:
آو سکھیو، ٹولی بنا لو، اک ساتھ چلتے ہیں،
چلو کہ رسمِ بلوچی ادا کریں،
سجالو ریشمی مایوں شادی کی،
بٹھائیں خاموش دلہن کو کونے میں،
آو سکھیو، دلہن کی خدمت کریں،
عنبر و عطر کی خوشبو سمیٹیں،
سجالیں گل”دلہن“ کو پھولوں کی طرح،
خوبصورت نقش کے عروسی لباس میں،
آج دل میرا خوشی سے مچل رہا ہے۔

یہ بات بھی غور طلب ہے کہ حسن و عشق حسن و جمالیات، محبوب کی نیم باز آنکھیں، گھنی زلفیں، محبوب کی مسکراہٹ۔لب شکر و شیریں شاعری اور ادب کی زینت ہیں۔ ملا داد رحمٰن نے اپنی شاعری میں شاعری کے لوازمات اور ادبی تقاضوں کاخاص خیال رکھا ہے۔ ملا ایک غزل میں محبوب کی بکھری زلفوں، نیم باز آنکھوں اور محبوب کے نازک ہاتھوں کا ذکر یوں کرتا ہے:

زلفاں مہ شنگین ظالم دنیا تہار بیت،

ظالم مکن چو سینگار دل مۓ بیقرار بیت۔۔

چم تئی خماراں آسکی ابد چو تیزیں خنجرءَ،

چارے تو یک نگاۓ ہر کَس شکار بیت۔۔

نازرکیں دستاں دلبر دئے تو منا گلاسے،

تئی عشقءِ شرابءَ نوشی دادو خمار بیت

ترجمہ:
اپنی زلفیں نہ یوں بکھیرو کہ دنیا اندھیرے میں ڈوب جاتی ہے،
ظالم یوں نہ سجاؤ خود کو، کہ میرا دل بے قرار ہو جاتا ہے۔۔

یہ تمہاری نیم باز نشیلی آنکھیں مثلِ خنجر،
اس تیغِ نظر سے جو دیکھتے ہو تو اک دنیا کو بسمل کر دیتے ہو۔۔

اپنے نازک ہاتھوں سے مجھے مجھے اک پیمانہ پلا دو،
کہ تمہارے عشق کی مئے دادو کو مدہوش کر دیتی ہے۔

پُر آشوب شاعر میر گل خان نصیر ملا داد رحمٰن کی شاعری کا ذکر اپنی کتاب بلوچی عشقیہ شاعری صفحہ نمبر 74 اور 75 میں اس طرح کرتے ہیں: ”ملا داد رحمٰن ملیری کو اپنی محبوبہ سے گلہ ہے کہ اسے غم کیوں دیئے ہیں.. کہتا ہے:

دلبر تئی بازیں غماں،

کاینت چو ماری لڑاں

گیش انت زہیر دم پہ دمان

برتش منی امن ءُ امان

نالاں چو بلبلءَ نیم شپاں

دلبر تمہارے فراق کے کتنے غم ہیں،
جو اژدہے کے مانند مجھ سے لپٹتے ہیں۔۔
اک اک پل میں تمہاری بیشمار یادیں ہیں،
جو میرے دل کا سکون
لوٹ لیتی ہیں۔۔
مثلِ نالہِ بلبلِ نیم شب تمہیں پکارتا ہوں۔۔

ملا داد رحمٰن اپنی ایک دوسری نظم میں اپنے محبوب کو منانے کے لیے خوشامد کی زبان اختیار کرتا ہے اور بڑی خوبصورتی سے اپنی محبوبہ کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہوئے کہتا ہے:

جانی منی جان و جگر!
باغانی وش بوئیں ثمر
لیلا نیادیں لب شکر
اچ من مبے تو بے خبر۔۔

ترجمہ:
اے میری جان سے پیارے میرے محبوب!
اے باغ کے حسیں اور معطر پھولوں کے حاصل!
تمہارے لبوں کے بول شکر سے بھی میٹھے ہیں،
خدارا، کبھی کسی پل مجھ سے بے خبر نہ ہونا۔۔

بلند پایہ شاعر میر گل خان نصیر کے حوالے سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ ملا داد رحمٰن کی شاعری کے مجموعے قلمی نسخے کی صورت میں موجود تھے، جن میں سے ایک مجموعہ 1977ع میں آنے والے سیلاب کی نذر ہوا اور دوسرا دست برد ہوگیا

بہرحال الفاظ کی قدر و قیمت سے بے بہرہ اس مادہ پرست معاشرے میں صرف ملا داد رحمٰن ہی نہیں ، انگنت تخلیق کار ایسے ہیں، جو اشاعت کے حقدار تو ضرور تھے لیکن ان کا فن اس کا محتاج ہرگز نہ تھا، یہی وجہ ہے کہ وہ آج بھی قدردانوں کے دلوں پر اپنے الفاظ کی صورت میں نقش ہیں

ملا داد رحمٰن 22 جون 1993ع رحلت فرما گئے مگر ملا کی شاعری آج بھی ملیر کی فضاؤں میں گونج کر کہہ رہی ہے؛ اے لوگو ڈھونڈ لو وہ رفتگان ملیر، جو آپ کی ناقدری کی انتہاؤں میں سپردِ خاک ہوئے۔۔۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close