کراچی: تاریخی عمارت ایمپریس مارکیٹ کا رنگ و روغن، کیا قانونی تقاضے پورے کیے گئے؟

ویب ڈیسک

ان دنوں کراچی میں واقع برطانوی راج کے دوران 1889 میں تعمیر کی گئی ایمپریس مارکیٹ کی تزئین کا کام جاری ہے

اس عمارت کا نام ملکہ وکٹوریہ کے نام پر رکھا گیا تھا۔ ایمپریس مارکیٹ جو کئی دہائیوں سے ناجائز تجاوزات کی زد میں تھی۔ مارچ 2019 میں عدالتی احکامات پر شہر کی قدیم ایمپریس مارکیٹ کے گرد 1500 سے زائد دکانوں کو مسمار کر کے عمارت کے پارک کو بحال کیا گیا تھا

اس لینڈ مارک عمارت کی 80 کھڑکیاں ہیں، چار آہنی دروازے ہیں اور اس عمارت کے ارد گرد لوہے کی سلاخیں لگی ہوئی تھیں۔ عمارت پر گھڑی بھی ہے

کراچی کی انتظامیہ نے تزئین کا آغاز کیا ہے۔ آگ بجھانے والے اسنورکل کو ایمپریس مارکیٹ میں آگ بجھانے کے لیے نہیں بلکہ اس کی صفائی کے لیے بلایا گیا۔ اسنورکل سے نکلے تیز پانی نے کئی دہائیوں سے اٹی ہوئی مٹی کو اس عالیشان عمارت سے اتارا تو اس کی اصل صورت دیکھنے کے لائق ہے۔ عمارت کے گھڑیال کو بھی درست کیا جا رہا ہے

کراچی کی انتظامیہ آج کل اس کا رنگ روغن کروا رہی ہے۔ انتظامیہ کا موقف ہے کہ ایمپریس مارکیٹ کی عمارت ایک محفوظ شدہ ثقافتی ورثہ ہے، جس پر رنگ و روغن کا کام کرتے ہوئے بہت احتیاط سے کام لیا گیا

گورنر سندھ کامران ٹیسوری کے مطابق ایمپریس مارکیٹ میں رنگ و روغن کاکام ساٹھ سال کے بعد ہورہا ہے جس سے اس کی شکل نکھر آئے گی

ایمپریس مارکیٹ کے دورے کے موقع پر انہوں نے کہا کہ تاریخی عمارتیں ہمارا قیمتی ورثہ ہیں، انہیں ہر حالت میں زبوں حالی سے بچائیں گے

ایڈمنسٹریٹر کراچی نے اس موقع پر کہا کہ ایمپریس مارکیٹ کے پارک میں مختلف اقسام کے سایہ دار درخت بھی لگائے جائیں گے

انتظامیہ کا موقف ہے کہ عمارت کے رنگ و روغن کا کام شروع کرنے کے ساتھ ساتھ ہم محکمہ ثقافت سندھ کے ہیریٹیج ونگ سے رابطے میں ہیں، اس لیے اس عمارت کا جو اصل رنگ تھا، وہی کیا گیا ہے۔ تاریخی عمارت پر صرف رنگ و روغن کرنے کے لیے کسی بھی اجازت نامے کی ضرورت نہیں ہوتی کیونکہ ہم نے عمارت کے بنیادی ڈھانچے کو نہیں چھیڑا ہے۔ صرف عمارت کی تزین و آرائش کرکے اس کو خوبصورت کیا جا رہا ہے

لیکن کسی بھی تاریخی ورثے کی حیثیت رکھنے والی عمارت پر جب کام شروع ہوتا ہے تو اس کو تنقید کا نشانہ ضرور بننا پڑتا ہے

ایمپریس مارکیٹ کے حوالے سے بھی اعتراضات اٹھائے جا رہے ہیں۔ کوئی فرد ہو یا سرکاری ادارہ، جو بھی کسی تاریخی ورثے والی عمارت پر کام شروع کرے گا تو ان پر لازم ہے کہ وہ محکمہ آثار قدیمہ سے اجازت لیں

جبکہ مذکورہ معاملے میں یہ دعویٰ بھی کیا جا رہا ہے کہ ایمپریس مارکیٹ پر رنگ کرنے سے پہلے کسی بھی قسم کی کوئی اجازت نہیں لی گئی

محکمہ آثار قدیمہ میں ایک ایڈوائزری کمیٹی موجود ہے۔ اس ایڈوائزری کمیٹی میں سات سے آٹھ ماہرین تعمیرات ہیں

جب بھی کوئی فرد یا ادارہ کسی بھی تاریخی ورثہ قرار دی جانے والی عمارت پر کسی بھی قسم کا تعمیراتی کام کروانے سے پہلے درخواست دیتا ہے تو یہ ایڈوائزری بورڈ پورا جائزہ لینے کے بعد فیصلہ دیتا ہے

کراچی کی انتظامیہ کی جانب سے یہ اچھا قدم ہے، جو چاہے دیر ہی میں لیا گیا لیکن لے لیا گیا۔ لیکن کراچی میں بے شمار تاریخی عمارتیں موجود ہیں، جو چونے کے پیلے پتھر سے بنی ہوئی ہیں۔ یہ عمارتیں مغل، گوتھک، وینیشین اور وکٹورین طرز تعمیر کی جھلک دکھاتی ہیں

یہی وہ عمارتیں ہیں، جو کراچی کے عہد رفتہ کی تاریخی شان کا مظہر ہیں۔ ان میں سے کئی عمارتوں میں نجی دفاتر کھلے ہوئے ہیں تو کئی کو کمرشل مارکیٹ بنا دیا گیا ہے۔ ان عمارتوں کی شان و شوکت مدھم پڑ چکی ہے اور ان کی اصلی حالت تبدیل ہو چکی ہے

ان عمارتوں کے مالکان ان کو بیچنے میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں کیونکہ اب ان عمارتوں (یا یہ کہا جائے کہ پلاٹوں) کی قیمتیں بہت زیادہ بڑھ چکی ہیں اور دوسری جانب لینڈ مافیا نے ایسی تاریخی عمارتوں پر نظریں لگا رکھی ہیں تاکہ وہ عمارتیں گرا کر جدید عمارتیں اور پلازے بنا کر پیسے بنا سکیں

اس کے علاوہ بہت سی عمارتیں ایسی ہیں، جن کو سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی نے غیر محفوظ قرار دے کر خریداروں کے لیے راستہ ہموار کر دیا ہے

ماہرین کا موقف یہ ہے کہ تاریخی عمارتوں کو خطرناک قرار دے دینا اصل میں ان عمارتوں کو گرائے جانے کے راہ سے رکاوٹیں ہٹانا ہے۔ جیسے کہ کراچی میں موجود کلکتہ بلڈنگ کا کیس ہے، جس کا ایک حصہ خستہ حالت کے باعث گر گیا۔ ہیریٹیج فاؤنڈیشن کی جانب سے ساری فیزیبلٹی رپورٹ تیار کی گئی اور اس عمارت کی بحالی کے لیے فنڈنگ بھی حاصل کر لی۔ لیکن ہیریٹیج فاؤنڈیشن کو اس عمارت کے اندر بھی داخل نہیں ہونے دیا گیا

کراچی میں اس وقت 1640 تاریخی عمارتیں ایسی ہیں جن کا شمار پروٹیکٹڈ ہیریٹیج عمارتوں میں ہوتا ہے

لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ تاریخی عمارتوں کو فوری طور پر تباہی سے بچایا جائے اور ان کا تحفظ اور بحالی کے لیے اقدامات کیے جائیں تاکہ ان عمارتوں کو بچایا جا سکے

محکمہ آثار قدیمہ کے لیے یہ کام اتنا آسان نہیں جتنا کہہ دینا ہے کیونکہ ان تاریخی عمارتوں میں سے زیادہ تر نجی ملکیت ہیں اور محکمہ کئی بار ان کو متنبہ کر چکا ہے کہ ان تاریخی عمارتوں کے اگلے حصے کو اصل حالت ہی میں رکھا جائے اور ان کا تحفظ کیا جائے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close