شہباز شریف اور حمزہ شہباز کے خلاف منی لانڈرنگ کیس کے اہم کردار ”مقصود چپڑاسی“ کون تھے؟

ویب ڈیسک

ملکی میڈیا پر جہاں ٹی وی اینکر اور رکنِ قومی اسمبلی عامر لیاقت حسین کی موت کی خبر دی گئی، وہیں پاکستان کے وزیرِ اعظم میاں شہباز شریف اور وزیرِ اعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز کے خلاف منی لانڈرنگ کے مقدمے میں اہم ترین کردار قرار دیے جانے والے ملک مقصود عرف مقصود چپڑاسی کی دبئی میں موت کی خبر بھی گردش کرتی رہی

اطلاعات کے مطابق متحدہ عرب امارات کی وزارت صحت کی جانب سے 7 جون کو جاری کردہ ڈیتھ سرٹیفکیٹ میں موت کی کسی وجہ کا ذکر نہیں کیا گیا لیکن میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ ان کی موت حرکت قلب بند ہونے کی وجہ سے ہوئی

تاہم برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ شریف خاندان کے ملازم اور منی لانڈرنگ کیس کے اہم کردار ملک مقصود کی دبئی میں موت کی خبر سے متعلق ان کے اہل خانہ نے تاحال تصدیق نہیں کی اور نہ ہی ان کے ڈیتھ سرٹیفکیٹ کی آزادانہ ذرائع سے تصدیق کر ہو سکی ہے

گذشتہ روز پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین اور سابق وزیر اعظم عمران خان نے ملک مقصود کی موت کی تحقیقات کا مطالبہ بھی کیا ہے

ملک مقصود، جنہیں ’مقصود چپڑاسی‘ کے نام سے بھی جانا جاتا تھا، شریف خاندان کی رمضان شوگر مل کے ماڈل ٹاؤن میں واقع صدر دفتر میں بطور خاکروب کام کرتے تھے

ایف آئی اے کے ایک اہلکار کے مطابق ملک مقصود گذشتہ پندرہ سال سے رمضان شوگر ملز کے صدر دفتر میں تعینات تھے۔ اس صدر دفتر کی نگرانی وزیر اعظم شہباز شریف کے بیٹے سلمان شہباز کرتے تھے

سنہ 2020ع میں وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے کی جانب سے وزیر اعظم شہباز شریف اور ان کے بیٹے وزیر اعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز شریف کے خلاف منی لانڈرنگ کے مقدمے میں کی گئی تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ ان کے ملازم ملک مقصود کے نام پر مختلف بینکوں میں سات اکاؤنٹ تھے، جن میں تین ارب 70 کروڑ روپے سامنے آئے تھے

ایف آئی اے کے چالان میں کہا گیا تھا کہ تحقیقاتی ٹیم نے 28 بے نامی بینک اکاؤنٹس کا سراغ لگایا جو 2008 سے 2018 تک شہباز شریف فیملی کے چپراسیوں، کلرکوں کے ناموں پر لاہور اور چنیوٹ کے مختلف بینکوں میں بنائے گئے

ملک مقصود کے نام سے بنے ایک بینک اکاؤنٹ میں جنوری سنہ 2017ع سے فروری سنہ 2018ع کے دوران تین کروڑ روپے جبکہ اس عرصے کے دوران دوسرے اکاونٹ میں سات کروڑ اکتالیس لاکھ روپے کی بھاری ٹرانزیکشن ہوئی تھی، جبکہ ملک مقصود کی ماہانہ تنخواہ صرف پچیس ہزار روپے مقرر تھی

ایف آئی اے کی تحقیقات کے مطابق اس مقدمے میں میاں شہباز شریف اور حمزہ شہباز کے خلاف مقدمے میں مبینہ طور پر پچیس ارب روپے کی منی لانڈرنگ ہوئی، جس میں ان دونوں ملزمان کے علاوہ سلمان شہباز بھی اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے رہے ہیں

ایف آئی اے نے مقدمے میں شہباز شریف اور ان کے بیٹوں حمزہ شہباز اور سلیمان شہباز کو مرکزی ملزم نامزد کیا ہے

یاد رہے کہ ایف آئی اے کی جانب سے منی لانڈرنگ کے اس مقدمے میں مجموعی طور پر سولہ ملزمان نامزد کیے گئے تھے۔ اس مقدمے میں اہم کردار قرار دیے جانے والے ملک مقصود کی موت سے قبل مقدمے کے ایک اور ملزم شبر پانچ ماہ پہلے ہی وفات پا چکے ہیں، اس طرح اب اس مقدمے میں ملزمان کی تعداد چودہ رہ گئی ہے

یہاں یہ امر بھی قابلِ ذکر ہے کہ منی لانڈرنگ کے مقدمے میں لاہور کے اسپیشل جج سینٹرل نے 4 جون کو ہونے والی سماعت کے دوران جن چار افراد کے ناقابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے تھے، ان میں سلمان شہباز کے علاوہ ملک مقصود بھی شامل تھے

واضح رہے کہ نیب اور ایف آئی اے کی جانب سے شہباز شریف اور حمزہ شہباز کے خلاف منی لانڈرنگ کیس کی تحقیقات کے دوران ملک مقصود کے دبئی چلے جانے کی خبریں بھی مقامی میڈیا پر آئی تھی

منی لانڈرنگ کے مقدمے کی عدالتی سماعت کی کوریج کرنے والے لاہور کے صحافی ارشد علی کا کہنا ہے کہ قومی احتساب بیورو نے سنہ 2018ع میں جب اس مقدمے کی تحقیقات کی تھیں تو اس وقت ملک مقصود اس مقدمے میں شامل تفتیش نہیں ہوئے تھے

انہوں نے بتایا ’ملک مقصود اس عرصے کے دوران ہی دبئی چلے گئے تھے، جس کے بعد نیب کی عدالت نے انہیں اس مقدمے میں اشتہاری قرار دیا تھا‘

صحافی ارشد علی کے مطابق ’ملک مقصود اس کے بعد کبھی بھی پاکستان واپس نہیں آئے جبکہ ان کے بھائی اور دیگر رشتہ دار لاہور میں ہی موجود ہیں‘

ارشد علی کا کہنا تھا کہ دبئی میں ملک مقصود کی موت کی اطلاعات ملنے کے بعد مقامی میڈیا کے افراد ملک مقصود کے بھائی کی رہائش گاہ پر پہنچے تاہم وہ گھر پر نہیں تھے تاہم اہلِ محلہ کا کہنا تھا ملک مقصود کے دیگر بھائی اور رشتہ دار لاہور کی ایک نجی ہاؤسنگ سوسائٹی میں منتقل ہو گئے ہیں

ارشد علی کے بقول ’اہلِ محلہ کا کہنا تھا کہ وہ ان کے گھر بھی گئے ہیں، جہاں پر انہوں نے ملک مقصود کی موت پر تعزیت کی۔‘

پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین اور سابق وزیرِ اعظم عمران خان پریس کانفرنسوں اور جلسوں کے دوران منی لانڈرنگ کے مقدمے ملک مقصود کا نام لے کر وزیر اعظم شہباز شریف پر تنقید کرتے رہے ہیں

عمران خان کا کہنا ہے کہ میاں شہباز شریف کو اس وقت ملک کا وزیراعظم بنایا گیا، جب انہیں منی لانڈرنگ کے مقدمے میں عدالت کی طرف سے چند روز بعد سزا دی جانی تھی

واضح رہے کہ عمران خان اس سے قبل ایف آئی اے لاہور زون کے ڈائریکٹر ڈاکٹر رضوان کی موت کی تحقیقات کا مطالبہ بھی کر چکے ہیں

ایف آئی اے لاہور زون کے ڈائریکٹر سینتالیس سالہ ڈاکٹر رضوان گزشتہ ماہ ”دل کا دورہ پڑنے سے“ انتقال کر گئے تھے۔ وہ مسلم لیگ (ن) کی زیر قیادت مخلوط حکومت کے قیام سے عین قبل طویل رخصت پر چلے گئے تھے اور بعد میں اس مقدمے میں ملزم وزیراعظم شہباز شریف نے اپنے خلاف تحقیقات کرنے والے ڈاکٹر رضوان کا تبادلہ کر دیا تھا

ڈاکٹر رضوان کی اچانک موت کے بعد سے سابق وزیر اعظم عمران خان سپریم کورٹ سے اس معاملے کی تحققیات کا مطالبہ کرتے رہے اور وہ موجودہ وزیراعظم پر الزام لگاتے رہے کہ ان کی طرف سے دباؤ کی وجہ سے ڈاکٹر رضوان کی موت ہوئی

یاد رہے کہ شہباز شریف نے وزیر اعظم بننے کے فوری بعد منی لانڈرنگ کے مقدمے سمیت موجودہ حکومت میں شامل شخصیات کے خلاف مقدمات کی تفتیش کرنے والے اہم افسران کے تحت تبادلے کرنا شروع کر دیے جس کے بعد تفتیش پر اثر انداز ہونے سے متعلق سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس لیا تھا اور عدالت نے ان مقدمات سے منسلک تفتیشی افسران کی تقرری و تبادلے سے روک دیا تھا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close