عاجزی و برابری کا قانون ناروے والوں کے لیے دردِ سر کیسے؟

عفت حسن رضوی

تصور کریں کہ یونیورسٹی کی ایک کلاس ہے، پروفیسر نے نہایت ہی مشکل سوال کر ڈالا اور آپ جواب جانتے ہوئے بھی نہیں بولتے۔ کیوں نہیں بولتے؟

اس لیے کیونکہ یہ کشمکش آپ کے گلے میں پھنسی ہوئی ہے کہ اگر جواب دے دیا تو کلاس کے دوسرے طلبہ اور پروفیسر یہ سمجھیں گے کہ میں خود کو کچھ سمجھتا/سمجھتی ہوں، میں اس گھمنڈ کا شکار ہوں کہ مجھے سب معلوم ہے۔ مجھے جواب دینے میں کوئی شرم نہیں لیکن میں چپ رہوں گا/گی تاکہ میں یہ ثابت کر سکوں کہ میں اس کلاس کے ساتھ ہوں، ان کے برابر ہوں اور مجھ میں کوئی سرخاب کے پر نہیں لگے ہوئے!

ناروے کے لوگ گذشتہ نو دہائیوں سے ایسی ہی مشکل کا شکار ہیں اور مشکل بھی ایسی عجیب مشکل، کہ بتائے نہ بنے۔۔

1933ع میں آکسال ساندے موس نامی ادیب نے ’ایک مہاجر کا سفر‘ کے نام سے ایک ناول لکھا۔ یہ ایک ایسے تارکِ وطن کی کہانی تھی، جو ینتا نامی بستی میں آکر آباد ہوتا ہے، جہاں اسے کئی طرح کے معاشرتی دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے

کہانی کے اختتام پر اس بستی میں ایک قانون بنایا جاتا ہے، جس کا اطلاق معاشرے کے چھوٹے بڑے ہر شخص پر ہوتا ہے۔ کہانی میں موجود کمزور افراد کے لیے یہ قانون کسی نعمت سے کم نہیں ہوتا۔ اسے ’ینتالوون‘ یعنی ’ینتا کا قانون‘ کہا جاتا ہے

ینتالوون قانون کے دس نکات ہیں، جن کا لبِ لباب یہ ہے:
یہ مت سجھو کہ تم کوئی شے ہو یا دوسروں سے بہتر ہو یا دوسروں سے زیادہ جانتے ہو۔
یہ مت سمجھو کہ تم دوسروں پر بھاری ہو۔
یہ بھی مت سمجھو کہ تم دوسروں کا مذاق اڑا سکتے ہو۔
تمہیں یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ تم اتنا کچھ جانتے ہو کہ تم دوسروں کو کچھ سکھا سکتے ہو
یا پھر یہ بھی مت سمجھو کہ دوسرے تمہیں کچھ خاص سمجھ کر تمہاری پروا کرتے ہیں۔

افسانوی ینتالوون آج بھی نارویجن معاشرے کا سب سے اہم نان آفیشل قانون ہے۔ نارویجن بچے بچے کو علم ہے کہ اسے ینتالوون پر عمل کرنا ہے۔ ینتالوون کے احکامات بچوں کی کتابوں، بڑوں کی کہانیوں اور نارویجن ادب میں گہرا اثر رکھتے ہیں۔ یوں سمجھ لیں کہ ینتالوون کے دس نکات نارویجن معاشرے کے لیے ٹین کمانڈمنٹ کی حیثیت رکھتے ہیں

ینتالوون کا عملی مظاہرہ ناروے کی زندگی میں روزانہ مل جاتا ہے۔ ٹرین میں داخل ہونے کی بات ہو تو پہلے آپ، پہلے آپ کی نوبت نہیں آتی کیونکہ نارویجن دوسرے کو آگے نکلتا دیکھ کر رستہ چھوڑ دیتے ہیں۔ اسی طرح ٹرین یا بس کی سیٹ ہو تو پہلے دوسرے کا منہ دیکھتے ہیں کہ کہیں دوسرے کو نہ بیٹھنا ہو

سڑک پر ٹریفک کو بھی اسی گو ناگوں کی کیفیت کا سامنا رہتا ہے۔ آپ نے زیبرا کراسنگ پر ابھی قدم نہیں رکھا اور ہو سکتا ہے سڑک پار کرنے کا ارادہ بھی نہ ہو لیکن ینتالوون قانون کا مارا بیچارہ ڈرائیور آپ کو دیکھ کر اپنی گاڑی روک دے گا اور اس وقت تک نہیں چلائے گا جب تک آپ سڑک پار نہیں کر لیتے، کیونکہ یہ بات اس کی گُھٹی میں پڑی ہے کہ گاڑی میں بیٹھے طاقتور سے سڑک پر پیدل چلنے والا کمزور ہوتا ہے اور کمزور کے سامنے اپنی طاقت ظاہر نہیں کرتے

ناروے کا ٹیکس قانون بھی ینتالوون کے بنیادی فلسفے سے متاثر لگتا ہے، جہاں مالدار کو ٹیکس لگا لگا کر نچوڑ لیتے ہیں اور کم آمدنی والے نارویجنز کو ٹیکس کی چھوٹ اور سوشل ویلفیئر کی سہولیات ملتی ہیں

کچھ ایسا ہی عمومی رویہ گھروں اور علاقوں کی بناوٹ میں بھی نظر آتا ہے، جہاں امیروں کے بنگلے کوٹھیاں اور متوسط آمدنی والے کا گھر کم و بیش ایک سی سہولیات رکھتے ہیں

ینتالوون نے نارویجن بلکہ سکینڈنیوین ممالک کے افراد کی نفسیات پر گہرا اثر ڈالا ہے۔ بڑی بین الاقوامی کمپنی کے نارویجن ڈائریکٹر سے بھی ملیں گے تو وہ بمشکل آپ کو بتا سکے گا کہ وہ کتنا اہم انسان ہے

کلاس روم میں نارویجن اکیڈمیا بالخصوص پروفیسرز کا رویہ ایسا ہے جیسے وہ آپ سے کسی معاملے پر بات چیت کر رہے ہیں اور ایک عجیب شعوری کوشش سے یہ ثابت کرتے ہیں کہ وہ بھی کلاس میں اپنے طلبہ سے بہت کچھ سیکھتے ہیں

ناروے کے شمال میں ایک چھوٹے قصبے سے تعلق رکھنے والی میری نارویجن دوست کہتی ہے کہ اس کے والد نے اسے یہ کہہ کر اوسلو بھیجا کہ بیٹا ہمیشہ اپنے گروہ میں رہنا، اپنے جیسے لوگوں کو کبھی چیلنج نہ کرنا، کیونکہ تم جو ہو وہ تمھارے ارد گرد موجود لوگوں کی وجہ سے ہو، اس لیے ہمیشہ ان کا ساتھ دینا، چاہے اس کے لیے تمھیں سیڑھی کا ایک قدم نیچے اترنا پڑے

بعض معاشرتی تجزیہ نگاروں کا ماننا ہے کہ ہمدردی، برابری اور معاشرتی مساوات کے قانون ینتالوون نے اگرچہ اخلاقی طور پر نارویجن افراد کو بہت منکسرالمزاج بنا دیا ہے، تاہم اس کا سائیڈ افیکٹ یہ ہوا کہ نارویجن نوجوانوں میں صحت مند مقابلے کا رجحان ختم ہو کر رہ گیا۔ ناروے کے نوجوانوں میں انٹرپرینورشپ یا اپنا کاروبار، اپنی کمپنی یا نئے آئیڈیاز پر کام کرنے کی دلچسپی نہایت کم ہے

اگرچہ ناروے کی نئی نسل اب بھی لاشعوری طور پر ینتالوون پر کسی مذہب کی طرح عمل کرتی ہے، کچھ ایسی آوازیں اٹھنا شروع ہو گئی ہیں جو نوجوانوں کو ترغیب دیتی ہیں کہ اب ناروے کے لیے ینتالوون سے آزادی حاصل کرنے اور دنیا کو یہ بتانے کہ اس کے پاس فخر کرنے کے لیے کیا کچھ ہے، کا وقت آ گیا ہے

دنیا کے ممالک میں عوام کی خوشحالی کا انڈیکس ہو یا قانون کی بالادستی کا، امیر ممالک کی فہرست بنے یا پھر پرامن ممالک کی ریٹنگ ہو، ناروے ہمیشہ ٹاپ تھری میں ہوتا ہے۔ بعض نوجوان نارویجن مصنفین کا شکوہ ہے کہ ینتالوون کو نارویجن معاشرے نے اس وقت اپنایا جب ناروے کے کھیتوں میں صرف آلو اگتے تھے اور نارویجن سالمن کا شکار کرتے تھے

1970 میں ناروے کے شمال میں ملنے والے تیل کے ذخائر نے اسے اچانک امیر ممالک کی صف میں لاکھڑا کر دیا، مگر نارویجن ینتالوون کو سینے سے لگائے خود کو عاجز ثابت کرنے میں ہی لگے رہے

حضرت انسان کسی حال میں نہ مکمل ہو سکتا ہے نہ مطمئن۔ ہم اپنے پاکستانی معاشرے کی کھینچا تانی کو روتے ہیں، جہاں کمزور کی کوئی جگہ نہیں، اسی لیے ہم ایک اعلیٰ اخلاق والے معاشرے کے خواب بنتے ہیں، یہاں معاملہ الٹ ہے، نارویجن اپنی انکساری کے ہاتھوں پریشان ہیں۔

بشکریہ: انڈپینڈنٹ اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close