ایران آوارگی (قسط 6)

گل حسن کلمتی

گزشتہ قسط میں میں نے لاشار کی وجہِ تسمیہ کے حوالے سے دو روایات کا تذکرہ کیا تھا، اس بارے میں (فیسبک پر) ایک کمینٹ میں امین ہوتی نے یہ لکھا کہ ”یہ لاش آور (لاشیں بہا کر لانے والی نہیں) بلکہ ”لاش+وار“ ہے، جس کے معنیٰ ہیں: لاش کھانے والی ندی“ کیونکہ اس ندی میں جو ڈوب جاتا تھا، اس کی لاش بھی نہیں ملتی تھی، اس لیے اس ندی کو لاشار وار کہا گیا، جو بعد میں بگڑ کر لاشار بن گیا“

لاشار کے نام کے بارے میں ’میدان یا اوپر اٹھی ہوئی زمین‘ والی بات زیادہ درست لگتی یے

لاشار میں کچہری میں لاشار کے سات ریاستوں کو ذکر ہوا تھا۔ امین ہوتی نے ایک اور ریاست کے بارے میں تبصرے میں لکھا ہے کہ:
8_ریاست مسکوتان : هوت قبیلہ، هوت هیدربگ
بلوچستان پر رضا شاہ پہلوی کے حملے کے بعد سردار حیدر بیگ هوت نے ہتھیار ڈالنے سے انکار کر دیا، جبکہ شیرانی، مبارکی اور میر لاشاری رضا شاہ کے استقبال کے لیے گئے اور اپنی حکومت برقرار رکھی۔
کئی بار شیرانی اور میر لاشاری نے رضا شاہ کی فوجوں کی مدد سے ماسکوتان پر حملہ کیا اور ہر بار انہیں چند دنوں کی تعیناتی کے بعد علاقے سے نکال دیا گیا“

لاشار سیستان بلوچستان اوستان( صوبہ) کے کاؤنٹی/ڈویژن نیکشہر کا بخش(ضلع) ہے۔ لاشار ضلع کا ھیڈ کوارٹر اسپکہ Espakeh ہے، جو پہاڑوں میں گھرا خوبصورت علاقہ ہے

باغی داد شاہ کی کہانی

داد شاہ لاشار کے نیلگ علاقے کے ایک گاؤں میں 1919ع کو ایک کسان کے گھر پیدا ہوئے۔ چالیس کی دہائی میں انہوں نے ایرانی بادشاہت کے خلاف بغاوت کی، جس کو سردار معیم خان لاشاری کی سپورٹ حاصل تھی۔ اس وقت یہاں سے شوریٰ کا میمبر سردار علی خان نقدی تھا، جو پنوچ کا سردار تھا اور ان کا مخالف تھا۔ اس بغاوت میں سردار مھیم خان اور سردار علی خان نقدی کی آپس کی چپقلش کا بڑا حصہ تھا۔
داد شاہ کئی سالوں تک ایرانی حکومت کے خلاف برسر پیکار رہا۔
اس وقت کچھ امریکن انجینئرز اس علاقے میں کام کر رہے تھی، ان میں سے ایک انجینئر کرول کی بیوی یا منگیتر جو امریکن جریدے کی صحافی تھی، لاشار کے پہاڑوں میں ان سے ملنی آئی۔ داد شاہ نے اس ٹیم پر حملہ کیا، دو امریکن انجینئر سمیت کچھ ایرانی مارے گئے۔داد شاہ پہاڑوں کی جانب چلا گیا۔ اس عورت کو وہ اپنے ساتھ لے جا رہے تھے لیکن وہ پہاڑوں میں چل نہیں سکی تو داد شاھ نے اپنے ایک ساتھی کو اسے سڑک پر چھوڑ کر آنے کہا۔ راستے میں اس شخص کی نیت خراب ہوئی، اس نے عورت سے زبردستی کرنے کی کوشش کی تو وہ چلائی۔ داد شاہ کا ساتھی ڈر گیا کہ اگر یہ شور داد شاھ نے سن لیا یا اس عورت نے داد شاہ سے شکایت کی تو وہ مارا جائے گا۔ اس ڈر سے اس نے عورت کو قتل کر دیا اور داد شاہ کو یہ جھوٹی خبر دی کہ عورت نے اس کی رائفل چھیننے کی کوشش کی اس لیے اس نے اسے قتل کر دیا

 

ایک خیال یہ بھی پیش کیا جاتا ہے کہ کرول کی بیوی/منگیتر اکیلی بھوک اور پیاس سے مرگئی، جو سچ نہیں ہے

بہرحال جب یہ خبر حکومت کو ملی، انہوں نے اس صحافی عورت کی لاش کو امریکہ روانہ کیاش اس واقعے پر پوری دنیا کے صحافیوں نے ایران کے شہنشاہ کے خلاف احتجاج کیا۔ ایرانی حکومت نے داد شاہ کا گھیراؤ تنگ کر دیا تھا لیکن حکومت کو ناکامی سامنا کرنا پڑا۔ ایرانی حکومت نے سردار مھیم خان سمیت بہت سے معززین کو گرفتار کر لیا ،یہ شرط رکھی کہ ”جب تک داد شاہ سرینڈر نہیں کرتا یہ لوگ جیل میں رہیں گے“

سردار مھیم خان نے حکومت کو پیغام بھیجا کہ ”مجھے آزاد کرو، میں داد شاہ سے مذاکرات کرنا چاہتا ہوں۔“

طویل کوششوں کے بات داد شاہ، سردار مھیم خان سے مذاکرات کے لیے تیار ہوئے، یہ طے ہوا کہ دونوں طرف سے چھ چھ لوگ مذاکرات میں شریک ہونگے۔ سردار مھیم خان سمیت پانچ لاشاری قبیلے کے معززین اور ایک ایرانی فوجی افسر مذاکرات میں شریک ہوئے۔ داد شاہ کے ساتھ اس کے بھائی محمد شاہ لاشاری اور اس کے چار ساتھی شریک ہوئے۔
اوگینگ کے پہاڑی سلسلے کے ایک جگہ یہ مذاکرات شروع ہوئے۔

مذاکرات میں اس وقت تلخی پیدا ہوئی، جب داد شاہ نے ایرانی فوجی افسر کو اپنے ساتھ لے جانے کی بات کی اور کہاکہ جب تک پاکستان میں گرفتار اس کے بھائی احمد شاہ کو آزاد نہیں کیا جاتا اس وقت یہ افسر اس کی تحویل میں رہے گا

یاد رہے کہ اس بغاوت کے نتیجے میں داد شاھ کا بھائی احمد شاہ اپنی فیملی کے ساتھ پناہ لینے پاکستان آ رہا تھا کہ اسے بارڈر پر گرفتار کر کے کراچی میں قید کردیا گیا تھا۔ جمع خان بلوچ نے پاکستان سے اس کی رہائی کے لیے تحریک بھی چلائی تھی۔

مذاکرات کی ناکامی کے بعد داد شاہ ایرانی فوجی افسر کو اپنے ساتھ لے کر روانہ ہوئے، تو سردار مھیم خان نے انہیں روکنے کی کوشش کی۔ داد شاہ نہیں رکے تو سردار مھیم خان نے پیچھے سے گولی چلائی، جو داد شاہ کے بازو میں لگی۔ داد شاہ کے بھائی نے جب سردار مھیم خان کو نشانے پر رکھا تو داد شاھ نے منع کیا اور مڑ کر سردار کو کہا ”آپ نے بلوچی روایت کی پاسداری نہیں کی، مجھے پیٹھ پیچھے گولی ماری ہے، میں نے میرے ساتھیوں نے جوابی فائر اس لیے نہیں کیا کہ آپ کے مجھ پر بہت سے احسانات ہیں، جس کی وجہ یہ گولی آپ کو معاف ہے، اب مقابلہ ہوگا”

دونوں طرف سے فائرنگ کا سلسلہ شروع ہوا، ایرانی افسر کے سوا داد شاہ اور سردار مھیم خان سمیت گیارہ لوگ آپس کے اس مقابلے میں مارے گئے

یہ واقعہ 14 اپریل 1957 پیش آیا

اس طرح باغی داد شاہ کی کہانی لاشار پنوچ ریاست کے پہاڑ اوگینگ میں اپنے انجام کو پہنچی۔ دنیا بھر کے اخبارات نے اس کی کوریج کی۔ اس پر ایران میں ایک فلم "داد شاہ” بھی بنی۔ شاہ کے دور میں اس پر پابندی لگا دی گئی ، اسلامی انقلاب کے بعد کچھ حصے کاٹ کر اس کو ریلیز ہونے کی اجازت دی گئی۔

لاشار ضلع کے ھیڈ کوارٹر اسپکہ کے ساتھ پیپ کا علاقہ اور قصبہ ہے۔ پیپ کے اوگینگ کے پہاڑوں کے ساتھ اوگینگ کا علاقہ ہے۔ یہ وہ علاقہ ہے، جس کی ایک پہاڑی تلار/تلنب (غار نما) جگہ پر سردار مھیم خان لاشاری اور ایران کی حکومت کے باغی دادشاہ لاشاری مذاکرات کے دوران تلخ کلامی کے بعد مارے گئے تھے۔

 


Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close