افسر بابوؤں کے لیے نئے قانون کا شکنجہ تیار

بیوروکریسی کے کرپٹ بابوؤں کے کے لیے سول سرونٹ رولز دوھزار بیس آ گیا۔ اب ہر افسر کی ملازمت کے بیس سال مکمل ہونے پر اس کی کارکردگی کی لازمی جانچ پڑتال کی جائے گی. بیس سالہ ملازمت کے بعد افسران کی ریٹائرمنٹ کے قواعد بھی وضع کیے گئے ہیں.

اس قانون کے مطابق افسران کو ریٹائر کرنے سے قبل شوکاز نوٹس کے ذریعے وضاحت کا موقع بھی فراہم کیا جائے گا۔ مجاز اتھارٹی کو مطمئن نہ کر سکنے کی صورت میں متعلقہ افسر کو پنشن اور دیگر مراعات کے ساتھ ملازمت سے جبری ریٹائر کر دیا جائے گا.

وزیرِ اعظم کے معاون خصوصی برائے اسٹیبلشمنٹ شہزاد ارباب نے مذکورہ قانون کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ اس مہینے بیس سال ملازمت پوری کرنے والے 565 کے قریب بیورو کریٹس کی کارکردگی کو جانچا جائے گا. مطلوبہ معیار پر پورا نہ اترنے والوں کو ان کی ملازمت سے ریٹائر کر دیا جائے گا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اس قانون کا مقصد صرف ریٹائر کرنا نہیں ہوگا ، بلکہ اس کا اصل مقصد قابل افسران کی ملازمت میں موجودگی کو یقینی بنا کر ان کی حوصلہ افزائی کرنا ہے.

قانون کے طریقہ کار کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ اس ضمن میں چیئرمین پبلک سروس کمیشن کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی گئی گئی ہے، جو افسران کی کارکردگی کو جانچنے کا کام کرے گی. نااہلی سامنے آنے یا کرپشن میں ملوث پائے جانے پر یہ کمیٹی بیوروکریٹس کو ریٹائر کرنے کی مجاز ہوگی۔

شہزاد ارباب کے مطابق گریڈ بیس سے اوپر کے افسران کے لیے چیئرمین پبلک سروس کمیشن کی سربراہی میں قائم کمیٹی میں سیکریٹری اسٹیبلشمنٹ، سیکریٹری لا اور سیکریٹری فنانس بھی شامل ہونگے۔ جب کہ گریڈ 20 سے نیچے کے افسران کی کارکردگی کیلئے بھی متعلقہ محکمے کے سیکرٹری کی سربراہی میں کمیٹی قائم کی جائے گی.

انہوں نے واضح کیا کہ کارکردگی کو پرکھنے کے اس عمل میں کسی بھی قسم کا سیاسی دباؤ قبول نہیں کیا جائے گا۔

شہزاد ارباب نے کہا کہ مجھے اپنی چھتیس سالہ سروس میں کبھی اس بات کا تجربہ نہیں ہوا کہ کسی افسر کو اس کی نا اہلی کی وجہ سے نوکری سے نکالا گیا ہو۔ بلکہ ہر حال میں افسران کا 60 سال تک نوکری پوری کرنا ایک روایت بن گئی ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close