ہم میں سے اکثر نے زندگی میں کسی نہ کسی مقام پر یہ ضرور سوچا ہوگا کہ کاش فلاں شعبے یا کیریئر کا انتخاب کرلیا ہوتا تو بہتر رہتا یا بہت سے طلبہ یونیورسٹی میں داخلے کے بعد بھی اپنے منتخب کردہ شعبے کے حوالے سے کشمکش کا شکار رہتے ہیں
زمانۂ طالب علمی سے عملی زندگی کی طرف قدم رکھنے کے درمیان آخری مرحلہ یونیورسٹی کا دور ہوتا ہے، جب ہم کوئی شعبہ منتخب کرتے ہیں اور پھر اسی کی بنیاد پر ہمارے کیریئر یا یوں کہہ لیں کہ باقی زندگی کا دارومدار ہوتا ہے
اسی لیے سیانے کہتے ہیں کہ انٹرمیڈیٹ یا اے لیول کے بعد گریجویشن اور پھر ماسٹرز کے لیے آپ جس ادارے کا انتخاب کریں، وہ ٹھوک بجا کر کریں کیونکہ گیا وقت پھر ہاتھ نہیں آتا
اس ضمن میں سب سے پہلے آپ کو اپنا رجحان (Aptitude) دیکھنا ہوگا اور یہ رجحان اگر آپ کا ذاتی ہو تو سونے پر سہاگہ، ورنہ ہمارے یہاں زیادہ تر طلبہ والدین کے کہنے پر کسی شعبے کا ادارے کا انتخاب کرلیتے ہیں یا پھر یہ سوچ کر کہ چونکہ ہمارے دوست بھی اسی ادارے یا شعبے میں داخلہ لے رہے ہیں تو ہمیں بھی یہی کرنا چاہیے
یہ سراسر غلط ہے۔ اس حوالے سے کیریئر کاؤنسلر اظہر عابدی کہتے ہیں ”اگر والدین یا آپ کے دوست احباب منطقی (لاجیکل) بات کر رہے ہوں کہ فلاں یونیورسٹی معیار پر پورا اترتی ہے تو پھر ان کی بات ضرور سنیں لیکن اگر وہ لاجیکل بات نہیں کر رہے، جیسے کہ یہ یونیورسٹی گھر سے قریب ہے یا اس یونیورسٹی میں ہمارے ماموں پڑھاتے ہیں یا اس یونیورسٹی کی عمارت ہمیں پسند ہے تو ان چیزوں کو خاطر میں نہیں لانا چاہیے“
رجحان جاننے کے بعد دیگر اہم پہلوؤں میں اپنے مالی وسائل اور یونیورسٹی کی مارکیٹ ویلیو جاننا ہے
بقول اظہر عابدی ”بعض یونیورسٹیاں بعض شعبوں میں بہت اچھی ہیں، لیکن کسی اور شعبے میں اس یونیورسٹی کی وہ ویلیو نہیں ہوگی۔ ہمارے ملک کی بہت سی معروف یونیورسٹیاں ہیں، جو اپنے مخصوص شعبوں کی وجہ سے جانی جاتی ہیں، مثلاً بعض یونیورسٹیوں کا کمپیوٹر سائنسز، آرٹیفیشل انٹیلیجنس، میگاٹرونکس، سائبر سکیورٹی میں بہت نام ہے، لیکن سول، الیکٹریکل یا میکینکل انجینیئرنگ میں ان کا نام نہیں ہے۔ اسی طرح بعض یونیورسٹیوں کا انجینیئرنگ میں نام ہے لیکن کمپیوٹر سائنسز میں ان کا نام نہیں ہے“
انہوں نے مزید بتایا کہ جس شعبے میں آپ جانا چاہیں اس کی پروفیشنل آرگنائزیشن سے رہنمائی لی جاسکتی ہے جبکہ دیگر پہلو، جنہیں مدنظر رکھنا ضروری ہے، ان میں یونیورسٹی کی فیکلٹی، یونیورسٹی سے فارغ التحصیل طلبہ کی ملازمتوں کی شرح یا انٹرپرینور شپ میں کامیابی کی شرح سے اس شعبے کے بارے میں اندازہ لگایا جاسکتا ہے
اگر تو آپ ایک ذہین اور پڑھاکو قسم کے طالب علم ہیں اور انٹر میڈیٹ یا اے لیول میں آپ کے گریڈز بہترین ہیں، تو پھر تو کوئی مسئلہ ہی نہیں، کسی بھی ٹاپ کی یونیورسٹی میں میرٹ پر آپ کو داخلہ مل جائے گا، لیکن بہت سی یونیورسٹیوں میں داخلہ ٹیسٹ بھی لیے جاتے ہیں
پاکستان میں فی الوقت تین قسم کے داخلہ ٹیسٹس رائج ہیں:
اول، یونیورسٹیوں کے اپنے انٹری ٹیسٹ
بہت سی یونیورسٹیاں بعض شعبوں میں انٹرمیڈیٹ یا اے لیولز کے گریڈز کی بنیاد پر میرٹ کو مدنظر رکھ کر داخلے دیتی ہیں، تاہم کچھ شعبہ جات میں داخلے کے لیے طلبہ کو انٹری ٹیسٹ پاس کرنا ہوتا ہے، جس کی معلومات مطلوبہ شعبہ جات سے لی جاسکتی ہیں
دوئم، ایس اے ٹی (SAT)
ایس اے ٹی یا سکالیسٹک اپٹیٹیوڈ ٹیسٹ (Scholastic Aptitude Test) ایک ایسا امتحان ہے، جسے کسی طالب علم کی خواندگی، معلومات اور تحریری مہارت کی صلاحیتیں جانچنے کا پیمانہ کہا جاتا ہے
ایس اے ٹی کا اسکور دو سال کے لیے قابل عمل ہوتا ہے۔
سوئم، این ٹی ایس (NTS) ٹیسٹ
این ٹی ایس یا نیشنل ٹیسٹنگ سروس (National Testing Service) پاکستان میں ایک ادارہ ہے، جو تعلیمی کارکردگی کی جانچ پڑتال کے لیے ادارے سے منسلک یونیورسٹیوں کے لیے این اے ٹی یا نیشنل اپٹیٹیوڈ ٹیسٹ (National Aptitude Test) کا انتظام کرتا ہے
یہ ٹیسٹ دینے والے امیدوار صرف ایک ہی امتحان میں حاضر ہوتے ہیں اور تمام یونیورسٹیوں میں متعلقہ شعبے میں داخلے کے اہل ہوتے ہیں
این اے ٹی ٹیسٹ کا اسکور ایک سال کے لیے قابل عمل ہوتا ہے
اظہر عابدی طلبہ کو مشورہ دیتے ہیں کہ انہیں اپنی مطلوبہ یونیورسٹیوں کی فہرست بنا کر ان کی ویب سائٹس پر جاکر ان کے انٹری ٹیسٹ کے لیے خود کو رجسٹر کروانا چاہیے
انٹری ٹیسٹ کی تیاری کروانے کے لیے کچھ ادارے بھی ہیں لیکن گھر میں ویب سائٹس یا وڈیوز کی مدد سے بھی ان ٹیسٹس کی تیاری کی جاسکتی ہے۔
بشکریہ: انڈیپینڈنٹ اردو