تاریخ کے ارتقاء میں جب معاشرہ سیاسی، سماجی اور معاشی طور پر بدلتا ہے تو اس کے ساتھ ہی لوگوں کی نفسیات بھی بدل جاتی ہے۔ ہجوم کی سیاست بھی اسی طرح سے حالات کے تحت بدلتی رہی ہے۔ "Gustave Le Bon” نے اپنی کتاب "Psychology of Crowd” میں ہجوم کی نفسیات کا جائزہ لیا ہے
یہ ضروری نہیں کہ ہجوم کسی منصوبے کے تحت جمع ہو، بلکہ یہ اچانک جمع ہو جاتا ہے اور مجمع کی شکل اختیار کر لیتا ہے اور اس میں موجود ہر شخص اپنی انفرادیت کھو کر مجمع کا حصہ بن جاتا ہے۔ چاہے وہ امیر ہو یا غریب، سب یکساں ہو جاتے ہیں اور اسی عمل سے ہجوم کی طاقت بنتی ہے۔ ہجوم کا اپنا کوئی پروگرام یا منصوبہ نہیں ہوتا ہے۔ ان کی طاقت کا انحصار ان کے جذبات اور احساسات پر ہوتا ہے
مجمع میں ہی سے جب کوئی ایک شخص راہنما کے فرائض سرانجام دیتا ہے تو وہ جوش و خروش پیدا کرنے کے لیے نعروں اور الفاظ کا سہارا لیتا ہے، لہٰذا ہجوم تقلید کرتا ہے اور اس کی جانب سے کوئی تبدیلی کا پروگرام نہیں ہوتا۔ جب ہجوم منتشر ہوتا ہے تو فرد دوبارہ سے اپنی روز مرہ کی زندگی اختیار کر لیتا ہے اور قانون کا پابند ہو جاتا ہے
ہنگامے کے وقت ہجوم کے احساسات ختم ہو جاتے ہیں۔ مثلاً جب 14 جولائی 1789ء کو پیرس میں بستی Bestille کے قلعے پر لوگوں نے حملہ کیا تو ہجوم کی جانب سے مطالبہ ہونے لگا کہ قلعے کے گورنر کا سر کاٹا جائے، کیونکہ کوئی ایسا اسلحہ نہیں تھا اس لیے قلعے کے باورچی نے چھری نکال کر اس کے سر کو کاٹا۔ جب اس کا سر کاٹا جارہا تھا تو ہجوم خوشی سے نعرے لگا رہا تھا اور باورچی کو ہیرو بنا دیا تھا
اس کی دوسری مثال پیرس ہی میں 1572ء میں St. Barthelomew’s Day Massacre ہے جب کیتھولک مسیحیوں کی طرف سے اقلیتی پروٹسٹنٹ مسیحیوں کا قتل عام کیا گیا۔ مؤرخین کے بیان کے مطابق لاشیں بکھری پڑی تھی اور کیتھولک ہجوم ان کے درمیان رقص میں مصروف تھا
اسی طرح سے فرانسیسی انقلاب کے دوران جب کہ گلوٹن سے لوگوں کی گردنیں کٹ رہی تھیں، ہجوم کو اس کی پرواہ نہ تھی کہ کسی مجرم کو قتل کیا جا رہا ہے یا کسی معصوم کو، لہٰذا خونریزی، قتل و غارت گری ہجوم کی نفسیات بن جاتی ہے۔ یہی وہ جذبات ہوتے ہیں جب ہجوم لوٹ مار کرتا ہے، تباہی اور بربادی پھیلاتا ہے اور اسے اس وقت اپنے عمل پر کوئی شرمندگی نہیں ہوتی
برصغیر کی تقسیم کے وقت دونوں جانب سے ہجوم نے اپنے مخالفین کو قتل کیا، لیکن وقت گزرنے کے بعد جب حالات پرامن ہوئے تو اس وقت انہیں یہ احساس ہوا کہ انہوں نے اپنے ہمسایوں اور دوستوں کے ساتھ کیا کیا تھا۔ "Gustave Le Bon” کے مطابق کیونکہ ہجوم کی کوئی فکر نہیں ہوتی ہے اور کوئی ضابطہ نہیں ہوتا ہے، اس لیے وہ اس قابل نہیں ہوتا کہ سوسائٹی کو بدل سکے۔ وہ وقتی انتشار پیدا کرتا ہے اور پھر بکھر جاتا ہے
ہجوم کی ایک کمزوری یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ بدلتے ہوئے حالات کے تحت اپنی رائے بھی بدلتا رہتا ہے۔ اس کی مثال ہم فرانسیسی انقلاب میں دیکھتے ہیں کہ ہجوم کس طرح اپنی رائے کو بار بار بدلتا رہتا ہے، چونکہ ہجوم کی نفسیات اس کے جذبات پر منحصر ہوئی ہے۔ اسی لیے یہ سیاسی شعور اور سیاسی مسائل کی گہرائی سے ناواقف ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سیاسی اور مذہبی جماعتیں ہجوم کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کرتی ہیں
ہجوم کو دو طرح سے استعمال کیا جاتا ہے۔ قدامت پرست جماعتیں ہجوم کی طاقت کو استعمال کرتے ہوئے ریاست سے مراعات تسلیم کراتی ہیں۔ ہجوم کو وہ ریاست کے لیے ایک خطرہ بنا کر اسے خوفزدہ رکھتی ہیں۔ دوسری جانب انقلابی تحریکیں ہوتی ہیں جو ہجوم کی راہنمائی کرتے ہوئے ان میں تبدیلی کے احساس کو پیدا کرتی ہیں۔ ایک ایسی تبدیلی جو ان کی بنیادی ضرورتوں کو پورا کرے
1922ء میں جب غیر منقسم بھارت کے موجودہ صوبہ اتر پردیش کے علاقے چاؤری چاؤرا میں پولیس اور ہجوم کے درمیان تصادم ہوا تو ہجوم نے غصے میں آکر تھانے اور سپاہیوں کو زندہ جلا دیا۔ اس پر گاندھی جی نے "Non Cooperation” کی تحریک کو ختم کر دیا، کیونکہ وہ نہیں چاہتے تھے کہ ہجوم دہشت گردی کو استعمال کرے
ہجوم کی طاقت کو اسی وقت استعمال کیا جا سکتا ہے جب اس کے راہنما یہ یقین دلائیں کہ تبدیلی ان کی زندگی میں خوشی اور مسرت کو پیدا کرے گی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہجوم طاقتور تو ہے مگر اپنی طاقت کو استعمال کرنا نہیں جانتا ہے۔ یہ سیاسی اور مذہبی طاقتیں ہیں جو اس کی طاقت کو استعمال کرتی ہیں
جبکہ Elias Canniti نے اپنی کتاب "Crowd & Power” میں، جس پر اس نے 20 سال تک تحقیق کی تھی، ہجوم کی نفسیات اور اثرات کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لیتے ہوئے اس بات کی جانب اشارہ کیا ہے کہ ہجوم ایک جانب تو قائم شدہ روایات، عقائد اور رسم و رواج کو مستحکم کرتا ہے، جیسے مذہبی اجتماعات اور تہواروں میں مجمع با ادب اور خاموش ہوتا ہے، لیکن جب اچانک یہ اعلان ہوتا ہے کہ تبرکات تقسیم ہونے والے ہیں تو اس اعلان کے ساتھ ہی مجمع کا ڈسپلن اور ادب و آداب ختم ہو جاتے ہیں اور تبرکات لینے کے لیے مجمع میں بھگدڑ مچ جاتی ہے، اور کئی مرتبہ ہجوم ایک دوسرے کو کچلتا ہوا تبرکات کے لیے دوڑتا ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہجوم کے اندر کوئی نظم و ضبط نہیں ہوتا ہے اور خونریزی بھی ان ک احساسات کو بیدار نہیں کر پاتی ہے
دوسری جانب Canniti کا یہ بھی کہنا ہے کہ جب ہجوم کو باصلاحیت راہنما مل جاتے ہیں تو وہ ان کی تقاریر اور ان کے دلائل سے متاثر ہو کر معاشرے میں قدامت پسندی اور فرسودہ روایات کا خاتمہ کرتے ہیں ورنہ یہ روایات اس قدر مضبوط ہوتی ہیں کہ انہیں اصلاحات کے ذریعے تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ ہجوم انقلاب کے ذریعے پرانے نظام کو توڑ کر نئے نظام کی بنیاد ڈالتا ہے۔ اس کی مثال 1917ء کا روسی انقلاب ہے۔ لہٰذا ہجوم کے منفی اور مثبت دونوں اثرات ہوتے ہیں۔ اگر اسے انتہا پسند قوتیں استعمال کریں تو معاشرہ تنگ نظری کی طرف چلا جاتا ہے اور اگر روشن خیال قوتیں اس کے ذریعے نئے خیالات و افکار پیدا کریں تو معاشرے کو ترقی کے راستے مل جاتے ہیں۔
بشکریہ: ڈی ڈبلیو اردو