برائلر مرغی کی کہانی، جسے پچاس سال میں چار سو فیصد بڑا کیا گیا!

رونالڈ اویلا-کلاڈیو

شروع شروع میں مقصد ایک ایسی مرغی بنانا تھا جس میں ران اور چھاتی موٹی تازی ہو، گوشت کی کئی تہیں ہوں اور یوں کم سے کم قیمت میں پورا خاندان سیر ہو کر کھانا کھا سکے

سنہ 1946ع میں دوسری عالمی جنگ کے اختتام پر، امریکی حکومت نے ایک کمپنی کے ساتھ مل کر ایک ایسا مقابلہ کروایا جس نے مرغبانی یا پولٹری کی عالمی صنعت کو ہمیشہ کے لیے بدل دیا

’چکن آف ٹومارو‘ (کل کی مرغی) کے عنوان سے ہونے والے اس مقابلے نے امریکہ بھر کے کسانوں اور جانوروں کی افزائش کرنے والوں کو جینیاتی انتخاب کے ذریعے ایک ایسی برائلر مرغی تیار کرنے کی ترغیب دی، جس میں تیزی سے نشونما پانے کی صلاحیت کے ساتھ ساتھ بہترین معیار کا گوشت بھی ہو

برطانیہ کی لیسٹر یونیورسٹی میں پرندوں کے آثارِ قدیمہ (برڈ آرکیالوجی) کے ماہر رچرڈ تھامس کہتے ہیں ”اس مقابلے کے ذریعے وہ ایسے پرندے تیار کرنا چاہتے تھے جو جلد ہی تندرست و توانا ہو سکیں اور انھیں کم عمری میں ہی ذبح کیا جا سکے“

یہ دراصل ملک میں اس وقت بچوں کی پیدائش میں تیزی کے رجحان (برتھ بلوم) کے نتیجے میں پروٹین کی بڑھتی مانگ کو پورا کرنے کی کوشش تھی۔ اس کے علاوہ، جنگ کی وجہ سے بکرے اور گائے کے گوشت کو محاذ پر پہنچانے بھی مشکل ہو رہی تھی

لیکن اس وقت، مرغی صرف ایک کمزور سا جانور سمجھا جاتا تھا، جسے زیادہ تر انڈوں کے لیے پالا جاتا تھا اور اسے بڑھنے میں تقریباً چار مہینے لگتے تھے

تاہم سنہ 2014ع میں شائع ہونے والی البرٹا یونیورسٹی کی ایک تحقیق کے مطابق، حیران کن بات یہ ہے کہ صرف نصف صدی سے زائد عرصے میں برائلر چکن کے اوسط حجم میں 400 فیصد اضافہ ہوا ہے

تحقیق کے مصنفین میں سے ایک، مارٹن زیوڈوف نے تصدیق کی کہ مقابلے میں جو کچھ ہوا اس کا براہ راست اثر مرغی کی نشو و نما پر پڑا

انہوں نے اینیمل سائنس نامی جریدے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’امریکی حکومت کا خواب یہ تھا کہ ہر برتن میں ایک مرغی ہو، اور سب ہی خوش رہیں۔ چکن تیار کرنے کی یہی بڑی وجہ تھی۔‘

پروفیسر تھامس کے مطابق ’سنہ 1940 کی دہائی میں اس مقابلے کے ساتھ ہی پہلی بار برائلر یا تیار شدہ مرغیاں پیدا ہوئیں۔‘

زیوڈوف کا کہنا ہے کہ ’مقابلے سے پہلے یہ جانور چار ماہ میں ذبح کرنے کے قابل ہوتا تھا لیکن اب یہ مدت 4 یا 5 ہفتوں کی ’مثالی‘ حد تک پہنچ گئی ہے۔‘

دی اکانومسٹ میں شائع ہونے والے ایک مضمون کے مطابق مرغی کی قیمت میں سنہ 1960ع سے 2019ع تک 47 فیصد تک کمی واقع ہوئی تھی

اس وقت امریکہ میں آدھا کلو مرغی کی قیمت 1.92 ڈالر ہے جبکہ 59 برس قبل اس کی قیمت 3.63 ڈالر تھی (قیمت کو افراطِ زر کے حساب سے ایڈجسٹ کیا گیا ہے)

اس مقابلے نے صنعتی پیداوار کے جدید طریقوں اور بعد میں تکنیکی ترقی میں پیش رفت کی وجہ سے مرغی کے گوشت تک کروڑوں افراد کے لیے قابل رسائی مصنوعات میں سے ایک میں تبدیل کرنے میں مدد کی

’بہتر‘ گوشت کی تلاش

سنہ 1948ع میں تیار کی گئی ایک دستاویزی فلم، جسے ‘چکن آف ٹومارو ‘ کی تشہیر کے طور پر استعمال کیا گیا تھا اور اس میں اس مقابلے کا مرحلہ وار خلاصہ کیا گیا تھا، اس بات پر روشنی ڈالی گئی تھی کہ ‘مثالی’ مرغی میں چھاتی کا گوشت اچھا خاصا ہو اور اس کی ‘موٹی تازی’ رانیں ہوں

اداکار لوویل تھامس نے اس فلم میں بطور اناؤنسر کام کیا تھا اور وہ یہ کہتے ہوئے سنے جا سکتے ہیں کہ ‘ایک ایسی مرغی (تیار کرنی ہے) جس میں گوشت کی اعلیٰ خصوصیات بھی پائی جاتی ہوں۔’

کسانوں اور چکن پالنے والوں کی حوصلہ افزائی کے لیے اشیائے خوردونوش فروخت کرنے والی سب سے بڑی امریکی کمپنی ’اے اینڈ پی‘ کمپنی دس ہزار ڈالر کی رقم رکھی تھی

یہ مقابلہ امریکی محکمہ زراعت کی سرپرستی میں ایک کمیٹی کے زیر اہتمام منعقد کیا گیا تھا اور اس کا آغاز ریاستی سطح پر ہوا

ایک طرف جیوری کو جانور کی خصوصیات کا جائزہ لینا تھا، جیسا کہ وہ یکساں ہیں یا نہیں، ان کا سائز کیا ہے اور اس کے پر کتنے بڑے ہیں، جبکہ دوسری جانب یہ کہ اس کی پیداوار لاگت کتنی کم ہو گی

‘مستقبل کا پرندہ’ بنانے کے لیے کمیٹی کے مطلوبہ معیار پر پورا اترنے کے لیے حریفوں کو اپنے بہترین برائلرز کی افزائش کرنا تھی

سنہ 1946ع اور 1947ع کے امریکی کی مختلف ریاستوں کی سطح پر 68 مقابلے ہوئے۔ آخری سال میں پانچ علاقائی مقابلے ہوئے، جن میں سے 25 امریکی ریاستوں میں سے 40 فاتحین کو قومی سطح پر مقابلے کے لیے منتخب کیا گیا

مقابلہ کون جیتا؟

مقابلے کا آخری مراحل مارچ سنہ 1948 شروع ہوئے۔ اس ماہ فائنل میں پہنچنے والا ہر امیدوار ریل گاڑیوں اور کاروں میں 720 انڈے لیکر ریاست میری لینڈ کی جانب روانہ ہوا۔ میری لینڈ میں ہر امیداور کے لائے ہوئے 720 انڈوں کو محفوظ مقام پر رکھ کر ان سے چوزے نکلنے کا انتظار کیا گیا

جب چوزے نکل آیے تو ہر چوزے پر امیدوار کا خاص نمبر لگا کر ڈیلاویئر میں محمکہ زراعت کے ایک فارم پر پہنچا دیا گیا

ان چوزوں کو خوراک دی جاتی رہی اور ہر مرحلے پر ان کے صحت کا جائزہ لیے جانے کے 12 ہفتے بعد تمام کو ذبح کر دیا گیا

ایک بہت بڑے کمرے میں تقریبِ انعامات کے دن تمام مرغیوں کی کھال اتار کر انہیں ’قابلِ فروخت‘ حالت میں لایا گیا

اس مقابلے میں ریاست کینٹکی کی کاروباری شخصیت، ہینری سیگلیو کے لائی ہوئی آربر ایکرز نامی نسل کی مرغی دوسرے نمبر پر رہی جبکہ پہلا انعام کیلیفوریا کی چارلس اور کینتھ وینٹریس نے ریڈ کورنش اور نیو ہیمشائر ریڈ نامی نسلوں کے ملاپ سے بننے والے چکن کو ملا

اس قسم کے چکن کو پہلا انعام اس بنیاد پر ملا کہ یہ خوراک بہت جلدی ہضم کر لیتے ہیں اور اس کی پیداواری لاگت بھی کم تھی

جِینز اور صنعتی پیمانے پر چکن کی پیداوار

مرغیوں کی نسلوں کو بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ کسانوں اور پالنے والوں کی حوصلہ افزائی کے لیے یہ مقابلہ مزید تین سال کے لیے منعقد کیا جاتا رہا۔ ان مقابلوں میں وینٹریس نسل ایک بار پھر فاتح رہی

ان دنوں مشہور جریدے نیشنل جیوگرافک میں صحافی، میرین مکینا نے ایک مضمون لکھا تھا جس میں ان کا کہنا تھا کہ سنہ 1960 تک برائلر مرغی کی جو اقسام امریکہ میں سب سے زیادہ کامیاب ثابت ہو چکی تھیں ان میں سے 60 فیصد ایسی تھیں جو وینٹریس قسم سے متاثر تھی، یہی وجہ ہے کہ وینٹریس کو امریکہ میں برائلر کا ’باپ‘ سمجھا جاتا ہے

لیکن ’مستقبل کے چکن‘ بنانے کا عمل اس کے بعد کے برسوں میں بھی تھما نہیں

تھامس کے مطابق ان برسوں میں بڑے برائلر چکن بنانے کے لیے جِنز میں بانت بانت کی تبدیلیاں کی جاتی رہیں

لیکن برائلر کا وزن بڑھانے میں جینیاتی تبدیلی کے علاوہ کئی دیگر عوامل بھی کافرما ہوتے ہیں

اس حوالے سے یہ بھی اہم ہوتا ہے کہ چکن کی طبعی عمر کتنی ہو سکتی ہے، اسے کیسے پالا جاتا ہے۔ اسی لیے بہت سے ناقدین ہمیشہ یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ برائلر مرغیوں کو کن حالات میں رکھا جاتا ہے اور انہیں کس قسم کی خوراک دی جاتی ہے

پروفیسر تھامس کہتے ہیں کہ پرندوں کی طبعی عمر عمومی طور پر دیگر جانوروں سے کم ہوتی جس کی وجہ سے وہ زیادہ تیزی سے بڑے ہو جاتے ہیں

’نشو ونما کی شرح، جانور کتنے بچے دیتا ہے، یہ ایسی چیزیں ہیں جو کسی جانور کو ورثے میں ملتی ہیں۔ چونکہ ایک سال کے عرصے میں بہت سے نئے چکن پیدا ہو جاتے ہیں، اسی لیے چکن میں جینیاتی تبدیلی کا عمل بہت تیز کیا جا سکتا ہے۔‘

اس کا اندازہ امریکی محکمہ زراعت اس رپورٹ سے لگایا جا سکتا ہے کہ سنہ 2020 میں صرف امریکہ میں تقریباً 9.22 ارب برائلر تیار کیے گئے

برائلر عام طور پر بڑے فارموں پر پالے جاتے ہیں، جہاں دسیوں ہزار پرندے تقریباً 40 دن میں بڑے ہو جاتے ہیں

یہ چکن یادہ پروٹین والی غذائیں، جیسے مکئی اور سویا، دن میں تقریباً 23 گھنٹے تک کھاتے رہتے ہیں۔ ان فارمز میں روشنی کا انتظام ایسا کیا جاتا ہے کہ برائلرز کو معلوم نہیں ہوتا کہ دن کب ہوا اور کب رات ہو گئی

جس جگہ پر انہیں رکھا جاتا ہے، اس جگہ کو اس وقت تک صاف نہیں کیا جاتا جب تک برائلز کی ایک نسل تیار نہیں ہو جاتی اور انھیں ذبح نہیں کر دیا جاتا۔ کسی پولرٹی فارم کے ایک شیڈ یا حصے میں 20 سے 50 ہزار برائلر پالے جا سکتے ہیں

جانوروں کے آثار قدیمہ کے ماہر تھامس کا کہنا ہے کہ اس کنٹرول شدہ ماحول سے باہر پرندے زندہ نہیں رہتے۔ وہ جینیاتی طور پر فارم ٹیکنالوجی پر انحصار کرنے کے لیے تیار ہیں

وہ کہتے ہیں ’حقیقت یہ ہے کہ پیداوار کی شکل میں ان جانوروں کے لیے کچھ بھی نارمل نہیں ہے اخلاقی مسائل بہت بڑے ہیں۔ آپ ایک اور جاندار چیز کو صرف اپنے استعمال کے لیے مارنے کے لیے پیدا کر رہے ہیں۔‘

جانوروں کے رویے کے ماہر ویٹرنری ڈاکٹر والٹر سوریز سانچز کا کہنا ہے کہ پولٹری کی پیداوار کے جانوروں پر مضر اثرات ہوتے ہیں

جانوروں کے لیے کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم کے ان ماہر کا کہنا ہے کہ مرغیوں کو اکثر چلنے پھرنے میں تکلیف کا سامنا ہوتا ہے اور ان کے بڑھے وزن کی وجہ سے انھیں جوڑوں کا درد ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ زیادہ وزن والی مرغیوں کو دل کی خرابی اور دیگر معدے کے مسائل کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے

اس فضلے جس پر وہ زندہ رہتی ہیں ان میں جلد اور پروں کی بیماریاں پیدا کرتا ہے۔ مگر زیود ہاف کا نظریہ مختلف ہے، وہ کہتے ہیں کہ ‘چند کسان صبح اٹھتے ہی کہتے ہیں کہ آج میں مرغیوں کی زندگی مشکل بنانے والا ہوں’، وہ صرف یہ چاہتے ہیں کہ ان کے پرندے ٹھیک رہیں۔’

کینیڈا میں اپنی لیب میں موجود زیود ہاف کا کہنا تھا ’کسان اس وقت خوشحال ہوتا ہے جب ان کی مرغیاں صحت مند ہو۔ جب ان کی پیداوار اچھی ہو۔ مرغیوں کی صحت اور ان کی پرفارمنس کی اہلیت میں بہت زیادہ تعلق ہے۔ اور یہ ہی انھیں متحرک رکھنے کی ایک وجہ ہے‘

انسانی صحت پر اثرات

ماہرین وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جینیاتی تبدیلیاں جو مرغی کی تیزی سے نشو نما اور صنعتی سطح پر پیداوار بڑھاتی ہیں ان کا انسانی صحت پر براہ راست کوئی اثر نہیں ہے

مرغیوں کی تیزی سے نشوو نما اور ہارمونز میں تبدیلیوں سے متعلق معلومات کو رد لرتے ہوئے زیود ہاف کہتے ہیں ‘یہ سب سائنس کی بنیاد پر ہے، اس میں ڈرنے والا کچھ نہیں۔’

تاہم ڈاکٹر والٹر سوریز اس بات پر زور دیتے ہیں کہ صنعتی سطح پر جانوروں کی افزائش سے صحت عامہ کے لیے ممکنہ خطرات کی تصدیق ہو چکی ہے، جیسے کہ کچھ وائرل اور بیکٹیریل بیماریاں جو کہ کچھ فارموں کے غیر صحت مند اور گندے حالات کے باعث پیدا ہوتی ہیں

وہ کہتے ہیں ”یہ مختلف طرح کے وائرس اور بیماریوں کا سبب بنتی ہیں جو ایک جانور سے دوسرے جانور کو لگتی ہیں اور باعث اوقات ممکنہ طور پر انسانوں کو بھی متاثر کرتا ہے۔ جس کے چند مثالیں مختلف قسم کے فلو وائرس، ای کولی وغیرہ ہیں“

بعض اوقات مرغیوں میں بیماری کی وبا کو بڑھنے سے روکنے کے لیے کسان اور مرغیوں کی افزائش نسل کرنے والے انہیں اینٹی بائیوٹکس ادویات بھی دیتے ہیں۔ یہ بھی انسانی صحت کے لیے ایک مسئلہ ہو سکتی ہیں کیونکہ اس سے بیکٹریا میں اس دوائی کے خلاف قوت مزاحمت بن جاتی ہے

ان کا کہنا ہے ”کوئی بھی بیکٹریا نہ صرف جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہوتا ہے بلکہ یہ ماحول میں بھی موجود رہتا ہے۔ جہاں سے یہ نشو و نما پا کر اینٹی بائوٹک دوا کے خلاف اپنی قوت مزاحمت کو بڑھا لیتا ہے“

جانوروں کے ماہر زیودہاف مزید کہتے ہیں کہ حالیہ کچھ عرصے میں چند حکومتوں نے برائلر مرغی میں اینٹی بائوٹکس ادویات کے استعمال کو کم کرنے کے لیے پالیسیاں منظور کی ہیں، جیسا کہ یورپی یونین، جس نے ویٹرنری میڈیسن میں انسانوں کے لیے بنائے جانے والے اینٹی بائوٹکس کے استعمال پر پابندی لگائی ہے

سائنسدان مرغیوں کی ایسے جینیاتی تبدیلیوں پر بھی کام کر رہے ہیں جو نہ صرف مرغیوں کو جلدی سے بڑھنے میں مدد دے بلکہ ان کا گوشت بھی زیادہ اور اور وہ بیماریوں کے خلاف قوت مدافعت بھی رکھتی ہوں

لیکن ڈاکٹر والٹر کے مطابق انسانی صحت کو محفوظ رکھنے اور جانوروں کو بچانے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ ہمیں اپنی غذائی ضرورت کے لیے پروٹین دیگر جانداروں سے حاصل کرنا ہوگی

ایک متضاد حل

امریکی شہر میامی کے مضافات میں ایک چھوٹے سے مرغیوں کے فارم میں گولیرو گوریرا نامی کسان اپنی برائلر مرغیوں میں دانہ تقسیم کر رہے ہیں۔ یہ مرغیاں زمین سے چن کر کھاتی ہیں، زمین کو کھود کر تلاش کرتی ہیں، ہوا ان کے پروں سے ٹکراتی ہے۔ ان کو ایک باڑ لگی باڑے میں رکھا گیا ہے جہاں لکڑی کے بنے شیڈز ہیں اور ان کی دیکھ بھال کرنے والے وہاں خوراک رکھتے ہیں

سنہ 2019 سے کولمیبا کے کسان اپنے مرغیوں کو کھلے باڑوں میں پال رہے ہیں۔ یہ صنعتی فارم ہاؤس سے دور ایک اور متبادل ہے۔ گوریرا کا ماننا ہے کہ اس طرح سے گوشت کی پیداوار حاصل کرنے کے لیے پیدا جانے والی مرغیاں بہت بہتر ہیں

وہ کہتے ہیں کہ ان کے چکن فارم میں ایک مرغی کو تیار ہونے کے لیے 90 دن درکار ہوتے ہیں کیونکہ وہ نیند کا قدرتی عمل مکمل کرتی ہیں اور دن کے چند گھنٹے ہی خوراک کھاتی ہیں۔ اور اگر ان میں سے کوئئ مرغی بیمار ہو جائے تو اس کو باقیوں سے الگ کر دیا جاتا ہے

اس مرغی فارم کے مالک کا کہنا ہے کہ صنعتی سطح پر بنے مرغی فارموں میں ایسا کچھ نہیں ہوتا، یہ ہی اس میں سب سے بڑا فرق ہے، ہمارا ماننا ہے کہ اس طرح سے نشو و نما پانے والی مرغیاں قدرتی طور پر بڑھتی ہیں

گیولرمو خود بھی سبزیاں کھانے والے شخص ہیں، وہ جانوروں سے اس طرح غذائی ضرورت کے لیے پروٹین حاصل کرنے کے حق میں نہیں ہیں

ان کے مرغیاں پالنے کے چھوٹے سے کاروبار کا آغاز بنیادی طور پر خود کے لیے مرغیاں پالنے سے ہوا تھا، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ان کے ارد گرد کے افراد نے مرغیوں کے گوشت کو پسند کرنا شروع کر دیا۔ اب وہ ہر چند ہفتوں بعد تقریباً 90 مرغیاں پال کر فروخت کرتے ہیں

’چکن آف ٹومارو‘ مقابلے کے بعد چکن بریڈرز، فارمز اور میٹ پروسیسرز بین الاقوامی سطح پر ایک بہت بڑی صنعت بن گئے

امریکی محکمہ زراعت کے اعداد و شمار کے مطابق سنہ 2020 تک امریکہ میں برائلر مرغیوں کی پیداواری مالیت 21.7 بلین ڈالر تھی، جو دوسرے پرندوں جیسے کہ ٹرکی سے بھی زیادہ تھی، جن کی پیداوار 5.19 بلین ڈالر تھی

میکینا نے نیشنل جیوگرافک کے لیے اپنی تحریر میں کہا ہے کہ اس مقابلے نے پیٹرسن، وینٹریس، کوب، ہبارڈ، پِلچ اور آربر ایکرز جیسے بریڈرز کو چکن بریڈنگ مارکیٹ میں بڑے برانڈز بننے کا موقع فراہم کیا

کتاب بگ چکن کی مصنف کے مطابق، ان فرموں نے جو کمپنیاں بنائیں ان کی پیچیدگی نے اس بات کو یقینی بنایا کہ مرغیوں کی افزائش نسل ان کے کاروبار سے باہر نہ ہو۔ل

آج کے دور کی دو بڑی بین الاقوامی کمپنیاں کوب ونٹرس اور آیویجن جو برائلر مرغی کی افزائش نسل یا پیداوار میں سب سے بڑی ہیں نے کن آف ٹومورو مقابلے میں حصہ لیا تھا

اپنی ویب سائٹ پر ایویجن کا کہنا ہے کہ وہ ایک سو سے زائد ممالک میں بریڈر مرغیاں تقسیم کرتی ہے۔ اس کی کمپنی تلے چار برائلر برانڈز ہیں۔جبکہ کوب وینٹرس جو 1916ع میں قائم ہونے والی سب سے قدیم چکن فارمنگ کمپنی ہونے کا دعویٰ کرتی ہے، اس کے سات ممالک میں کارخانے ہیں،جن کی موجودگی بنیادی طور پر افریقہ کے علاوہ ہر براعظم میں ہے

میکینا کہتی ہیں ”چکن آف ٹومارو کے مقابلوں کے جیتنے والوں نے نئے پرندے بنانے سے زیادہ کچھ کیا؛ جب انھوں نے مرغیوں کو جینیاتی طور پر تبدیل کیا، تو انھوں نے پولٹری کی صنعت کو بھی دوبارہ تخلیق کیا“

جبکہ میامی میں مرغیوں کی افزائش کرنے والے کسان اپنی مرغیوں کا گوشت براہ راست صارفین کو فروخت کرتے ہیں اور اس کی قیمت عام بازار سے تقریباً تین گنا ہوتی ہے. پروفیسر تھامس کہتے ہیں ”زیادہ تر صارفین مہنگا گوشت خریدنے کی حیثیت نہیں رکھتے“

بشکریہ: بی بی سی نیوز

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close