پشین کا تاج محمد: نادرا میں سینیٹری ورکر سے سینٹر انچارج بننے تک کی کہانی

ویب ڈیسک

 ”کبھی کبھار کوئی میری ملازمت یعنی سینیٹری ورکر ہونے کا طعنہ بھی دے دیتا جو بہت تکلیف دہ ہوتا۔ ایسا بھی وقت آیا جب مجھے لگنے لگا تھا کہ میں کبھی آگے نہیں بڑھ پاؤں گا“

تاج محمد کا تعلق بلوچستان کے صحرا اور پہاڑوں پر مشتمل ضلع پشین سے ہے. صحراؤں کی سی ان کی زندگی میں آگے بڑھنے اور کچھ بن کر دکھانے کے خواب کا گلِ لالہ کھلا اور پھر وہ مقصد کے حصول کے لیے عزم و ہمت کے ایک پہاڑ بن کر ڈٹ گئے

تاج محمد حال ہی میں ایک مسابقتی امتحان میں کامیابی حاصل کر کے اسی ادارے نیشنل ڈیٹابیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) میں بطور ڈپٹی اسسٹنٹ ڈائریکٹر تعینات ہو گئے ہیں، جہاں سے اُنہوں نے سنہ 2003ع میں اپنا سفر بطور سینیٹری ورکر شروع کیا تھا

یقیناً اس منزل پر پہنچنے کے لیے راستے کٹھن تھے، لگ بھگ اُنیس برسوں پر محیط یہ سفر تھکا دینے والا تھا اور اس دوران اُن کے سامنے مشکلات بھی آئیں، لیکن اب تاج محمد اپنی محنت کا ثمر پا کر بہت خوش بھی ہیں اور پُرجوش بھی

اپنے اس کٹھن، دشوار گزار، صبر آزما سفر کی روداد سناتے ہوئے تاج محمد نے بتایا ”جب میں 2003ع میں نادرا میں بطور سینیٹری ورکر بھرتی ہوا تو اس وقت میں نے صرف میٹرک کر رکھا تھا۔ مگر یہ ملازمت مل جانے کے بعد میں نے یہ نہیں سوچا کہ بس اب زندگی کا مقصد حاصل ہو گیا، بلکہ میں نے اپنے دل میں مزید آگے بڑھنے کی ٹھان رکھی تھی“

وہ کہتے ہیں ”کچھ لوگ نوکری کے ساتھ پڑھائی یا دوسرا کام پارٹ ٹائم کرتے ہیں، لیکن میں نے پڑھائی کو کبھی ایسی چیز نہیں سمجھا جسے بندہ اپنے فارغ اوقات میں کر لے۔ اسی سوچ کے ساتھ میں نے پہلے ایف اے کیا اور پھر بیچلرز“

انہوں نے کہا ”میرے چند مہربان افسروں نے پڑھائی میں میرا شوق دیکھتے ہوئے مجھے مشورہ دیا کہ چونکہ نادرا مکمل طور پر کمپیوٹر ٹیکنالوجی پر مبنی ادارہ ہے، اس لیے میں ماسٹرز کمپیوٹر سائنس میں کروں“

اس مشورے پر غور کرنے کے بعد تاج محمد نے سنہ 2009ع میں کوئٹہ کی یونیورسٹی آف بلوچستان میں ایم سی ایس میں داخلہ لے لیا

اسی برس اُن کی شادی بھی ہو گئی لیکن اُن کے ایک افسر نے اُنہیں مشورہ دیا کہ وہ پڑھائی سے اپنی توجہ کسی صورت نہ ہٹنے دیں ورنہ گھریلو معاملات کے باعث پڑھائی متاثر ہوگی

شادی کے کچھ عرصے بعد اُن کی بیٹی پیدا ہوئی۔ جب وہ دو برس کی ہوئی تو تاج محمد کو معلوم ہوا کہ اسے تھیلیسیمیا میجر ہے۔ ڈاکٹروں نے بتایا کہ ان کی بیٹی کا واحد علاج ہر مہینے دو سے تین مرتبہ خون لگوانا ہے

ملازمت، گھر کی ذمہ داریاں، بیٹی کا علاج اور پھر تعلیم بھی، یہ سب ساتھ کرنا کچھ مشکل تھا لیکن اس دوران اپنے افسرانِ بالا کی دلجوئی نے ان کا حوصلہ ٹوٹنے نہیں دیا ، یہاں تک کہ سنہ 2012ع میں اُنہوں نے اپنی ڈگری مکمل کر لی

اب اُن کی بیٹی بارہ برس کی ہو چکی ہے اور اس کا علاج اب بھی جاری ہے۔

مگر ابھی تو اُن کے سامنے ایک طویل مرحلہ تھا، جس میں ڈگری تو گویا پہلا قدم تھا

تاج محمد نے بتایا ’میں اب بھی سینیٹری ورکر ہی تھا مگر چونکہ ہاتھ میں ڈگری اور دل میں سیکھنے کا جذبہ تھا، اس لیے میں اپنے اردگرد ہونے والے دفتری کام کو بھی سمجھنے کی کوشش کرتا، اپنے افسران سے سوالات پوچھا کرتا اور اپنی معلومات میں اضافہ کرتا‘

وہ بتاتے ہیں کہ کبھی کبھی تو یوں بھی ہوتا کہ دفتر میں کسی شخص کو کمپیوٹرز سے متعلق کوئی دشواری ہوتی تو وہاں اُن کی قابلیت کام آ جاتی۔ یوں سیکھنے کا یہ سفر جاری رہا

سینیٹری ورکر ہونے کا طعنہ

لیکن دفتر کے کچھ لوگوں کو یہ بات نہ بھاتی۔

’کبھی کبھار کوئی میری ملازمت یعنی سینیٹری ورکر ہونے کا طعنہ بھی دے دیتا جو بہت تکلیف دہ ہوتا۔ ایسا بھی وقت آیا جب مجھے لگنے لگا تھا کہ میں کبھی آگے نہیں بڑھ پاؤں گا اور نہ کبھی ترقی کروں گا، مگر ہمدردوں کے ہمت دلانے سے میرا حوصلہ دوبارہ بحال ہو جاتا۔‘

تاج محمد کہتے ہیں ”میں نے کوشش کی کہ نادرا میں ہی میری ترقی کا بندوبست ہو جائے، مگر مجھے بتایا گیا کہ نادرا کی ایسی کوئی پالیسی نہیں کہ سروس کیڈر تبدیل کیا جائے۔“

چنانچہ اُنھوں نے اپنی اسی ملازمت پر کام جاری رکھا۔ سال در سال کوششوں کے باوجود جب کامیابی آپ کے ہاتھ نہ آئے تو بلند حوصلوں میں بھی کہیں نہ کہیں مایوسی اپنی جگہ بنانے لگتی ہے

کچھ ایسا ہی تاج محمد کے ساتھ ہوا۔ جب فروری 2022 میں نادرا کی جانب سے نئی بھرتیوں کا اشتہار جاری ہوا تو اس وقت اُنییں امید نہیں تھی کہ وہ اس امتحان میں کامیاب ہو سکیں گے

اُنھیں اُن کے دوستوں نے کہا کہ چلو اس کا ٹیسٹ دیتے ہیں۔ اُن کا دل نہیں مان رہا تھا مگر دوستوں نے اصرار کیا اور کہا ”تاج محمد، دیکھو تمہارا موقع آ گیا ہے“

جب ٹیسٹ دینے گئے تو وہاں پچھلی شفٹ میں ٹیسٹ دینے والوں کا کہنا تھا کہ ٹیسٹ بہت زیادہ مشکل آیا ہے

ٹیسٹ میں کیا ’مشکل‘ تھا؟

چیئرمین نادرا طارق ملک نے اس حوالے سے بتایا کہ ٹیسٹ کے لیے ہزاروں سوالوں میں سے منتخب کر کے سوالات پوچھے گئے تھے جن میں تکنیکی، نفسیاتی، قانونی سوالات سمیت نادرا آرڈیننس اور نادرا کی پالیسیز سے متعلق سوالات شامل تھے

چیئرمین نادرا نے کہا کہ نفسیاتی سوالات شامل کرنے کا مقصد امیدوار کے رویے جانچنا ہوتا ہے تاکہ یہ پرکھا جا سکے کہ وہ نادرا کے صارفین سے کیسے پیش آئیں گے یا افسر بننے کے بعد ان کا رویہ کیسا ہو گا

یہ ایک آن لائن ٹیسٹ تھا اور اختتام پر تاج محمد کو محسوس ہوا کہ اُنہوں نے ٹیسٹ اچھا کیا ہے

‘دن گزرتے گئے اور ایک دن انٹرویو کی کال آئی۔ جب میں انٹرویو میں بیٹھا تو وہاں مجھے لگنے لگا کہ میری ساری محنت اب میرے کام آ رہی ہے۔ انٹرویو لینے والے بھی بہت متاثر ہوئے اور اُنہوں نے میری تعریف کی۔

’جس وقت انٹرویو میں کامیابی کی کال آئی تو خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا۔ نہ صرف کامیابی کی اطلاع دی گئی، بلکہ نادرا کے کئی اعلیٰ افسران نے بھی کال کی اور مجھے مبارکباد دی۔‘

یہاں تک کہ اُنھیں چیئرمین نادرا طارق ملک کی کال آئی اور بعد از مبارکباد اُنہوں نے کہا کہ وہ تاج محمد کو اپنے ہاتھوں سے اسلام آباد میں آفر لیٹر دینا چاہتے ہیں، جس کے لیے وہ دارالحکومت روانہ ہو گئے اور اپنی محنت کا پھل وصول کیا

طارق ملک کہتے ہیں ”تاج محمد کی کارکردگی اتنی اچھی تھی کہ میں اس پر بہت حیران ہوا۔ اس کے علاوہ میں دورانِ ملازمت میٹرک سے لے کر ماسٹرز کرنے تک کی تاج محمد کی مستقل مزاجی سے بہت متاثر ہوا۔“

وہ کہتے ہیں کہ اُنھوں نے خود بھی اسلام آباد میں ملاقات کے دوران تاج محمد سے کچھ مزید سوالات پوچھے، جن کے تاج محمد نے درست جوابات دیے

چیئرمین نادرا کا کہنا تھا کہ ادارے کے سربراہ کے طور پر اُنہیں خوشی ہے کہ تاج محمد نے ایک پسماندہ علاقے سے تعلق رکھنے کے باوجود کسی مشکل کو آڑے نہیں آنے دیا

وہ کہتے ہیں ”تاج محمد کی کامیابی میں پیغام ہے کہ کھلی آنکھوں سے خواب دیکھیں اور اس کے لیے محنت کریں، اور ریاست کا کام ہے کہ ان خوابوں کی تعبیر کرے۔“

طارق ملک کہتے ہیں کہ اُنھیں اس بات کی خوشی ہے کہ تاج محمد جس سینٹر میں کبھی سینیٹری ورکر تھے، اب وہ وہاں بطور سینٹر انچارج کام کریں گے

اُنھوں نے بتایا کہ ڈپٹی اسسٹنٹ ڈائریکٹر کے طور پر تاج محمد اپنے سینٹر کی ٹیم کی سربراہی کریں گے اور پوری تحصیل میں نادرا کے نمائندے کے طور پر حکومتی اداروں کے ساتھ مل کر کام کریں گے

’ایسا لگ رہا ہے کہ سب ایک خواب ہے‘

جب کامیابی کی اطلاع ملی تو اُن کے کیا تاثرات تھے اور اب کیسا محسوس کر رہے ہیں؟ اس سوال پر تاج محمد کا کہنا تھا ’گذشتہ چار پانچ دنوں میں کامیابی کی اطلاع ملنے سے لے کر اب تک یہ سمجھ نہیں آ رہا کہ کیا یہ کوئی خواب ہے۔ یقین نہیں آ رہا کہ یہ کیا ہوا ہے، شاید کچھ دن تک یہی احساس رہے۔‘

تاج محمد نے اپنی زندگی کا بڑا حصہ اپنے ماموں کے ساتھ گزارا ہے اور اُنہوں نے ہی سنہ 2003ع میں نادرا میں ملازمت کے بارے میں تاج محمد کو بتایا تھا۔ آج وہ بھی تاج محمد کی اس کامیابی پر بہت خوش ہیں۔ اور تاج محمد کی والدہ کی تو خوشی کا کوئی ٹھکانہ ہی نہیں ہے کیونکہ اُن کے بیٹے نے ترقی حاصل کی ہے

وہ کہتے ہیں ’رشتے داروں اور محلے والوں کی طرف سے مبارکبادوں کا سلسلہ جاری ہے، کئی جگہوں سے فون آ رہے ہیں اور لوگ پذیرائی کر رہے ہیں۔‘

وہ افراد جو مشکل حالات کا سامنا کر رہے ہیں یا ایسی ملازمتیں کرنے پر مجبور ہیں جو اُن کی قابلیت سے مطابقت نہیں رکھتیں، اُن کے لیے تاج محمد کہتے ہیں ”کامیابی کے لیے کسی ایک چیز پر توجہ دے کر اسے زندگی کا مقصد بنا لینا بہت اہم ہے۔ میں صرف یہ کہوں گا، کہ آپ چاہے پانچ کام ایک ساتھ کریں، لیکن کم از کم ایک کام ایسا ضرور ہو، جس پر آپ اپنی بھرپور توجہ دیں۔ ایسا نہیں کہ پانچوں کی پانچوں چیزیں ادھوری کریں۔ کامیابی اسی میں ہے کہ کسی ایک چیز پر پوری توجہ مرکوز کی جائے“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close