کراچی سے تعلق رکھنے والا سوشل میڈیا پر متحرک نوجوان ارسلان خان کلفٹن میں اپنی رہائش گاہ سے مبینہ طور لاپتہ ہوگیا ہے، جبکہ ان کے دوستوں کا دعویٰ ہے کہ انہیں قانون نافذ کرنے والے اداروں نے اٹھایا ہے
ارسلان خان کی اہلیہ عائشہ ارسلان کا کہنا ہے ”دس کے قریب اہلکار جن میں سے تین سادہ کپڑوں میں تھے گھر میں داخل ہوئے اور ارسلان کو بولا تم ریاست کے خلاف بات کرتے ہو۔۔۔ وہ کہتا رہا کہ میں قانون کی پیروی کرنے والا شہری ہوں لیکن وہ اس کو ساتھ لے کر چلے گئے“
ارسلان کی اہلیہ عائشہ نے بتایا کہ رات کے غالباً چار بجے تھے وہ اور بچے سو رہے تھے کہ دروازے پر دستک ہوئی اور پھر اس کے بعد دس کے قریب اہلکار گھر میں داخل ہو گئے
انہوں نے دعویٰ کیا کہ سب کے چہروں پر سیاہ نقاب تھا، صرف آنکھیں نظر آ رہی تھیں۔ انھوں نے ارسلان کو کہا کہ ’تم ریاست کے خلاف لکھتے ہو، تم نے پریشان کر کے رکھا ہے، پاکستان میں رہتے ہو اور یہاں رہ کر یہ سب کرتے ہو۔‘
’ارسلان نے جواب دیا کہ میں قانون کی پیروی کرتا ہوں لیکن انہوں نے اس کی ایک نہ سُنی۔‘
عائشہ کے مطابق ’اہلکاروں نے ارسلان کا موبائل فون لے لیا۔ اس کے بعد بیٹی کا فون بھی لیا اور پوچھا کہ لیپ ٹاپ کہاں ہے، کیا اسلحہ تو نہیں ہے۔ پھر ارسلان کو کہنے لگے کہ تم ہی ’اے کے 47‘ ہو نا‘
واضح رہے کہ یہ ارسلان کا ٹوئیٹر ہینڈل ہے
ان کے مطابق اس کے بعد اہلکار ارسلان کو اپنے ساتھ نیچے لے گئے، جہاں کمپاؤنڈ میں ایک پجیرو گاڑی آئی، جس میں سول ڈریس (عام کپڑوں میں ملبوس) اہلکار بیٹھے تھے، ارسلان کو ساتھ بٹھایا جبکہ باقی اہلکار اپنی موبائل گاڑیوں میں بیٹھ کر روانہ ہو گئے
عائشہ کے مطابق ارسلان ٹوئٹر پر سرگرم تھے۔ وہ بلاتفریق لاپتہ افراد اور مذہبی اقلیتوں کے لیے آواز اٹھاتے تھے۔ ’دوست احباب انھیں کہتے تھے کہ انھیں خیال رکھنا چاہیے۔ لوگوں کو سچ سننے کی عادت نہیں، وہ کہتا تھا کہ مجھے سے یہ بددیانتی نہیں ہوگی۔‘
سندھ رینجرز سے اس بارے میں رابطہ کیا گیا لیکن انھوں نے اس پر کوئی مؤقف نہیں دیا جبکہ ایس پی کلفٹن روحیل کھوسو نے بی بی سی کو بتایا کہ سوشل میڈیا کے ذریعے انھیں اس واقعے کے بارے میں معلوم ہوا ہے۔ روحیل کھوسو نے بتایا کہ ’میں نے تمام متعلقہ تھانوں سے معلوم کیا ہے، اُن میں سے کسی تھانے نے انھیں حراست میں نہیں لیا۔‘
سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس ایس پی) ضلع جنوبی کراچی اسد رضا نے مبینہ گرفتاری سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ پولیس نے سماجی کارکن کو گرفتار نہیں کیا
ایس ایس پی نے کہا کہ ارسلان خان کے اہل خانہ نے تاحال پولیس میں کوئی شکایت درج نہیں کرائی، ارسلان خان کی رہائش گاہ کلفٹن میں واقع ہے جو کہ ضلع جنوبی کے حدود میں آتا ہے
ٹوئٹر پر ’اے کے 47‘ کے نام سے پہچانے جانے والے ارسلان خان ماضی میں بطور صحافی جیو سمیت متعدد ٹی وی چینلز میں کام کر چکے ہیں، وہ اس وقت ٹوئٹر پر بہت متحرک ہیں اور ایک سماجی تنظیم ’کراچی بچاؤ تحریک‘ کے ساتھ کام کر رہے ہیں
انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل ساؤتھ نے اپنے بیان میں ارسلان خان کی مبینہ گمشدگی پر خدشات کا اظہار کیا
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بیان میں کہا کہ ہمیں صحافی ارسلان خان کے کراچی میں ان کے گھر سے آج صبح 4 بجے اغوا ہونے پر گہری تشویش ہے
بیان میں کہا گیا کہ پاکستان میں لوگوں کو اپنے پیاروں سے دور کر کے اختلاف رائے پر سزا دینے کے اس گھناؤنے عمل کو ختم کرنا چاہیے
اس حوالے سے نشاندہی کی گئی ہے کہ لاپتہ افراد سے متعلق نئی تشکیل دی گئی بین الوزارتی کمیٹی کو اس پر نوٹس لینا چاہیے کہ جو کچھ وہ کہہ رہے ہیں اور جو حقیقت میں ہو رہا ہے اس کے درمیان فرق ہے
دریں اثنا کراچی بچاؤ تحریک، جو کہ کئی سیاسی اور سول سوسائٹی کی تنظیموں کا اتحاد ہے، نے بھی اپنے رکن کے ’اغوا‘ کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا اور گمشدگی کے خلاف احتجاج کا اعلان کیا ہے
کراچی بچاؤ تحریک کے کنوینر خرم نیئر کا کہنا ہے ارسلان ایک رضاکار تھا، انہوں نے دعویٰ کیا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے چند اہلکار مبینہ طور پر ارسلان کو کلفٹن میں واقع ان کے اپارٹمنٹ سے لے گئے ہیں
انہوں نے الزام عائد کیا کہ رکن کے خاندان نے بھی ’ناخوشگوار رویہ‘ کا سامنا کیا، اور دعویٰ کیا کہ ارسلان کو اٹھانے والے افراد نے ارسلان کی بیوی کو بتایا کہ اس کا شوہر ’بہت بولنے لگا ہے‘
کراچی بچاؤ تحریک کے نمائندوں کے مطابق ارسلان کا ابھی تک پتہ نہیں چل سکا ہے اور ارسلان کو اپنے ساتھ لے جانے والے افراد مبینہ طور پر اس کا لیپ ٹاپ اور موبائل فون بھی اپنے ساتھ لے گئے ہیں
کراچی یونین آف جرنلسٹس نے سوشل میڈیا کارکن ارسلان خان کی قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ہاتھوں مبینہ گرفتاری کی شدید مذمت کی اور ارسلان کی گرفتاری کو آزادی اظہار رائے کی سنگین خلاف ورزی قرار دیا
کراچی یونین آف جرنلسٹس کے صدر شاہد اقبال اور جنرل سیکریٹری فہیم صدیقی سمیت مجلس عاملہ کے تمام اراکین کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا کہ ارسلان خان ایک سوشل میڈیا کارکن ہیں، جنہیں جمعرات اور جمعے کی درمیانی شب کلفٹن میں واقع ان کی رہائش گاہ سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار گھر پر چھاپہ مار کر اپنے ہمراہ لے گئے
کراچی یونین آف جرنلسٹس نے ارسلان خان کی اہلیہ کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ارسلان کو ان کے سوشل میڈیا کارکن ہونے کی وجہ سے گرفتار کیا گیا ہے اور زور دیتے ہوئے کہا کہ آرمی چیف، چیف جسٹس آف پاکستان، وزیراعظم پاکستان اور وفاقی وزیر داخلہ سے مطالبہ ہے کہ وہ ارسلان خان کی ‘غیر قانونی گرفتاری’ کا فوری نوٹس لیں اور انہیں فوری طور پر رہا کیا جائے
ارسلان خان کی مبینہ گرفتاری کے بعد سوشل میڈیا پر ان کی رہائی کے لیے، صحافیوں سماجی اور سیاسی کارکنان نے ٹوئٹر پر آواز بلند کی ہے
کراچی بچاؤ تحریک نے ٹوئٹر پر بھی ارسلان خان کی گرفتاری کی مذمت کی ہے
صحافی اور سوشل میڈیا ایکٹوسٹ فواد حسن کا کہنا ہے کہ ارسلان کراچی کی آواز کو سپورٹ کرتے تھے۔ ’جو شہری لاپتہ ہیں، جو اسیر ہیں، وہ اُن کی معلومات رکھتے تھے اور لاپتہ افراد کے اہلخانہ کی خبرگیری کرتے تھے۔‘
ارسلان کراچی میں گجر (گجھڑو) نالے سمیت دیگر علاقوں سے تجاوزات کے خلاف آپریشن کے بعد بنائی گئی ’کراچی بچاؤ تحریک‘ میں بھی سرگرم رہے۔ اس تحریک کے رہنما خرم علی کے مطابق ارسلان ان کی تنظیم کے باقاعدہ رُکن نہیں تھے لیکن وہ اس مہم کو سوشل میڈیا پر سپورٹ کرتے تھے
خرم علی نے اپنے ٹویٹ میں کہا ہے کہ ’کچھ عرصے پہلے ارسلان سے ملاقات ہوئی تو میں نے کہا آپ بہت زیادہ سچ لکھ رہے ہیں۔ ارسلان نے کہا کہ سب سے بڑا خطرہ ضمیر کی عدالت میں مجرم ٹھہرنے کا ہے۔ سچ لکھنا نہیں چھوڑ سکتا کیونکہ دنیا کی ہر قید سے ضمیر کی قید زیادہ تکلیف دہ ہے۔‘
سماجی رابطوں کی ویب سایٹ ٹوئٹر پر بھی ارسلان کی رہائی کے حوالے سے ٹرینڈ موجود ہے
ایوان بالا کے رکن سینیٹر مصطفیٰ نواز کھوکھر نے اپنی ٹوئٹ میں لکھا ’جبراً اُٹھائے گئے ارسلان صاحب کی اہلیہ کا ویڈیو پیغام سنا۔ اُنھیں یہ بتایا گیا ’یہ سوشل میڈیا پر بہت بولتے اور لکھتے ہیں۔‘
انھوں نے لکھا کہ ’بولنا اور لکھنا جرم نہیں، جرم کسی شہری کو زبردستی اغوا اور گمشدہ کرنا ہے۔‘
سینیئر سیاستدان اور انسانی حقوق کمیشن کے سابق چیئرمین افراسیاب خٹک نے کہا ہے کہ ’ارسلان خان کی جبری گمشدگی قابل مذمت ہے، کب تک مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ آئین و قانون کی اس خلاف ورزی پر سوتے رہیں گے؟ شہریوں کے حقوق کا کیا ہو گا؟‘