بھارت نے قتل ہونے والے پنجابی گلوکار سدھو کا گانا ’ایس وائے ایل‘ یوٹیوب سے کیوں ہٹوا دیا

ویب ڈیسک

بھارتی پنجاب کے پنجابی گلوکار سدھو موسے والا کے قتل کے تقریباً تین ہفتوں بعد ریلیز ہونے والا گانا ’ایس وائے ایل‘ بھارت میں حکومت کی جانب سے کی گئی قانونی شکایت کے باعث لوگ نہیں دیکھ پا رہے

برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کے بھارت میں نامہ نگار مرزا اے بی بیگ کے مطابق بھارت میں یہ گانا یوٹیوب پر نہیں دیکھ سکتے، تاہم پاکستان اور دنیا کے دیگر ممالک میں لوگ اس گانے کو یوٹیوب پر دیکھ سکتے ہیں

بھارت میں کئی دیگر صارفین نے بھی سوشل میڈیا پر کہا کہ وہ جب یو ٹیوب پر سدھو موسے والا کے اس گانے کو یو ٹیوب پر دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں تو ایک عبارت سامنے آتی ہے کہ ”اس ملک کی حکومت کی جانب سے قانونی شکایت کی وجہ سے یہ مواد دستیاب نہیں ہے“

اس قانونی شکایت کی وجوہات تو تاحال سامنے نہیں آئیں تاہم ایک ’متنازع موضوع‘ پر بنے اس گانے کے ریلیز ہونے کے بعد سے اس کے بارے میں مختلف آرا سامنے آ رہی تھیں اور کچھ افراد اس پر اعتراض کرتے رہے ہیں

یاد رہے کہ گذشتہ ماہ کے اواخر میں سدھو موسے والا کو بھارتی ریاست پنجاب میں اپنے گاؤں کے قریب نامعلوم افراد نے فائرنگ کر کے قتل کر دیا تھا۔ بھارتی پولیس نے اب تک اس قتل کے مقدمے میں گیارہ ملزمان کو گرفتار کیا ہے، جن میں مبینہ شوٹرز بھی شامل ہیں

مذکورہ گانا سدھو موسے والا کے یوٹیوب اکاؤنٹ پر ریلیز کیا گیا تھا، جسے صرف تین روز میں تین کروڑ سے زیادہ افراد دیکھ اور سُن چکے ہیں

’ایس وائے ایل‘ نامی اس گانے میں بھارتی ریپر کی کچھ پرانی تصاویر اور وڈیوز کو استعمال کیا گیا ہے اور اس کے آخر میں یہ پیغام لکھا گیا ہے ”پنجاب کو صحرا بننے سے روکنے کے لیے آپ میں سے ہر ایک شخص پنجاب کے دریاؤں کے پانی کو بچانے کی آخری امید ہے“

گانے کے آخر میں دو ہیش ٹیگ بھی دیے گئے ہیں: پنجاب کے پانی کو بچائیں ( #savepunjabwaters) اور سکھ قیدیوں کو رہا کریں ( #freesikhprisoners)

سوشل میڈیا پر انہی ہیش ٹیگز کی مدد سے لوگ اس نئے گانے کے بارے میں اپنا ردعمل دے رہے ہیں

سدھو موسے والا کے نئے گانے کا نام ’ایس وائے ایل‘ ہے، جس سے مراد ’ستلج یمنا لنک کینال‘ ہے۔ یہ زیر تعمیر 214 کلومیٹر طویل نہر ستلج اور یمنا دریاؤں کو آپس میں ملاتی ہے

تاہم یہ منصوبہ پنجاب اور ہریانہ کی ریاستوں کے درمیان تنازع کا باعث بنا ہوا ہے۔ اس کے ذریعے پنجاب کے دریاؤں کا پانی دوسری ریاستیں بھی استعمال کر سکیں گی، جس پر پنجاب کے کئی رہنماؤں کو اعتراض ہے

اس گانے کے بول اور دھن بھی گلوکار سدھو موسے والا نے خود بنائی، جس کے آغاز میں سُنا جا سکتا ہے کہ ”پنجاب کے اندر ہماری سرکار آ گئی ہے۔۔۔ 2025 میں ہریانہ کے ہر کھیت تک پانی پہنچے گا، یہ ہماری گارنٹی ہے“

گانے میں بھی اسی مسئلے کا ذکر کیا گیا ہے اور ایک جگہ لکھا گیا ہے کہ ”شمالی بھارت میں پانی کی سطح خطرناک حد تک گِر رہی ہے“

سدھو موسے والا کے گانے کے ایک حصے کا ترجمہ کچھ ایسا بنتا ہے کہ ”پانی کا کیا ہے، پانی تو پلوں کے نیچے سے بہتا ہے۔ ہمیں لاکھ بار ساتھ ملاؤ، ہم جھکیں گے نہیں۔ دھمکی دے کر مانگتے ہو، ہم پھر نہیں دیتے، پانی چھوڑو، ہم قطرہ بھی نہیں دیں گے“

ایس وائے ایل میں بلوندر سنگھ کا بھی ذکر ہے، جنہیں سکھ برداری آزادی کی تحریک میں ہیرو کا درجہ دیتی ہے اور انہیں ستلج یمنا لنک کینال کی مخالفت پر سراہا جاتا ہے

بلوندر سنگھ کا پس منظر پنجاب کے ضلع روپڑ کے چمکور صاحب سے تھا۔ چونکہ ان کے گاؤں کا نام جٹانہ تھا، اس لیے وہ خالصتانی تحریک کی عسکری مہمات میں بلوندر سنگھ جٹانہ کے نام سے مشہور ہوئے

سنہ 1990ع میں انہوں نے اپنے کچھ ساتھیوں کے ساتھ مل کر چندی گڑھ کے سیکٹر 26 میں ایس وائی ایل کے دفتر میں اس نہر کے تعمیراتی منصوبے میں شامل چیف انجینئر ایم ایس سیکری اور سپرنٹنڈنٹ اوتار سنگھ اولکھ پر گولی چلا دی تھی

واقعے میں دونوں کی موت ہوگئی اور نہر کی تعمیر کا کام روک دیا گیا

پنجاب، ہریانہ سمیت ملک کی کئی ریاستوں کے کسانوں نے مرکزی حکومت کی طرف سے لائے گئے تین زرعی قوانین کو واپس لینے کا مطالبہ کرتے ہوئے دہلی کی سرحدوں پر دھرنا دیا تھا

اس دوران کچھ نوجوانوں نے دہلی کے لال قلعہ کے ایک خالی ستون پر نشان صاحب رکھ دیے تھے

سدھو موسی والا نے اپنے آخری گانے میں بھی اس واقعے کا ذکر کیا ہے

اہم بات یہ ہے کہ اس واقعے کے بعد پنجابی گلوکار ببو مان نے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اپنے والدین کی موت کے بعد اتنا نہیں رویا جتنا اس واقعے کے بعد روئے

ایک سال سے زیادہ کے احتجاج کے بعد بالآخر حکومت نے تینوں زرعی قوانین کو واپس لینے کا اعلان کر دیا تھا

اس گانے میں سدھو موسے والا نے سنہ 1980ع کی دہائی میں پنجاب میں شروع ہونے والی شورش کے دوران پرتشدد سرگرمیوں کے الزام میں جیلوں میں بند خالصتان کے حامی قیدیوں کے بارے میں بات بھی کی تھی

انہیں پنجاب میں اسیر سکھ بھی کہا جاتا ہے۔ گانے میں سدھو موسے والا نے ان کی رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔ بہت سے اسیر سکھ پچیس سے تیس سال سے زیادہ کی سزا کے تحت جیلوں میں ہیں

گانے پر پابندی یا یوٹیوب پر اس پر اس تک رسائی محدود ہونے کے باعث اکثر افراد حکومت کے اس اقدام کی مذمت کر رہے ہیں

تاہم کچھ افراد ایسے بھی ہیں جو اسے ایک اچھا اقدام قرار دے رہے ہیں

ایک صارف نے لکھا کہ ’ہر کسی کو ایس وائے ایل کے مسئلے کا پتا چل چکا ہے چاہے حکومت اب اس پر پابندی لگا دے۔‘

اسی طرح ایک اور صارف نے لکھا ’مردہ شخص بول رہا ہے۔ حکومت نے ایک قتل کیے گیے موسیقار کے گانے کی میوزک وڈیو پر پابندی لگا دی اور ہماری آزادی اظہارِ رائے سلب کرنے کی ایک اور کامیاب کوشش کی‘

تاہم ایک صارف نے یہ بھی لکھا ’بالآخر بھارتی حکومت نے ایس وائے ایل پر پابندی لگا دی۔ اس میں اندرا گاندھی اور جنرل ویدیا کے قاتلوں کی تعریف کی گئی تھی‘

ایک بھاری اکثریت کی جانب سے سدھو موسے والا کے گانے کو ان کے فینز کی جانب سے سراہا جا رہا ہے۔ جیسے جپنیت سنگھ نے لکھا ”سدھو بھائی کے گانوں نے ہمیشہ یہ ثابت کیا ہے کہ وہ سچ بولنے سے کبھی نہیں ڈرے۔ کچھ لوگ زندہ ہوتے ہوئے بھی اپنے لوگوں کے لیے اسٹینڈ نہیں لیتے، کچھ لوگ اس دنیا میں نہ ہوتے ہوئے بھی اسٹینڈ لینا نہیں چھوڑتے“

کور نامی صارف کہتی ہیں ”وہ ان فنکاروں میں سے ایک ہیں جنہوں نے پنجاب کے پانی کو دوسری ریاستوں کی طرف موڑنے کے حوالے سے بات کی تھی“

تاہم بعض صارفین کے مطابق یہ گانا خالصتان کی تحریک کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ جیسے رنویر سنگھ نے لکھا ’اگر آپ سدھو موسے والا کا نیا گانا پسند آیا تو خالصتان کے لیے مسلح جدوجہد کے بارے میں جانیں جس کے بارے میں ان کا میوزک ہے‘

ویبھو جین پوچھتے ہیں ’کیا سدھو موسے والا فساد برپا کرنے کی کوشش کر رہے تھے؟ بار بار خالصتان کا مسئلہ کیوں اجاگر کیا گیا؟‘

کیلیفورنیا سکھ یوتھ الائنس نامی اکاؤنٹ نے لکھا ’سدھو موسے والا کا نیا گانا ہمیں پنجاب کے استحصال اور ہماری آزادی کے راستے کے بارے میں سنجیدہ سوالات کرنے پر اکساتا ہے‘

ہرمان ساندھو نے لکھا ”اگر ہم واقعی سدھو کو خراج تحسین پیش کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں پنجاب کے مسائل کے لیے کھڑے ہونا چاہیے۔ ایس وائے ایل کے بارے میں پڑھیں اور پنجاب کے پانیوں کو بچائیں۔ ہمارے سکھ سیاسی قیدیوں کے لیے اپنی آواز بلند کریں“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close