دنیا بھر میں خواتین بچے کی پیدائش کے بعد انہیں اپنا دودھ پلانا شروع کرتی ہیں لیکن عالمی ادارہ صحت کے مطابق ان میں سے صرف 44 فیصد خواتین ہی چھ ماہ تک اپنا دودھ پلانا جاری رکھتی ہیں
ایسی مائیں متبادل کے طور پر بچوں کو فارمولا دودھ پلانا شروع کرتی ہیں، کیونکہ شیر خوار بچے پہلے چھ ماہ تک سخت خوراک نہیں کھا سکتے اس لیے انہیں ماں کا دودھ یا بچوں کے لیے بنایا جانے والا فارمولا دودھ پلایا جاتا ہے
یہی وجہ ہے کہ امریکہ میں اس وقت فارمولا دودھ کی کمیابی نے صورت حال کو گھمبیر بنا دیا ہے، کیونکہ امریکہ میں صرف ایک چوتھائی مائیں ہی بچوں کو اپنا دودھ چھ ماہ تک پلاتی ہیں
امریکہ میں فارمولا دودھ کی کمی کی وجہ پیداوار اور سپلائی چین سے متعلقہ مسائل ہیں، مزید مسئلہ فارمولا دودھ بنانے والی اہم ترین کمپنی ایبٹ نیوٹریشن کے خلاف محکمہ خوراک کی تفتیش کی وجہ سے بھی پیدا ہو گیا
واضح رہے کہ ایبٹ اور تین دیگر کمپنیاں فارمولا دودھ کا 90 فیصد تیار کرتی ہیں
تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ نوزائیدہ بچوں کے لیے ماں کا دودھ ہی خوراک کا صحت مند اور محفوظ ترین ذریعہ ہے۔ یہ ماں اور بچے کے باہمی تعلق میں بھی کلیدی حیثیت رکھتا ہے
تو پھر آخر مائیں اپنا دودھ پلانے کی بجائے فارمولا دودھ پلانے کو کیوں ترجیح دیتی ہیں؟
بچے کو اپنا دودھ نہ پلانے میں کئی عوامل کارفرما ہوتے ہیں۔ لیکن بہت سے ماہرین کہتے ہیں بچے کی پیدائش کے وقت ہسپتال میں ماؤں کا تجربہ اس بارے میں خاص اہمیت رکھتا ہے
عالمی ادارہ صحت گزشتہ کئی دہائیوں سے اس بات پر ذور دے رہا ہے کہ بریسٹ فیڈنگ کی ترویج کے لیے ہسپتالوں میں ’بچوں کے لیے دوستانہ‘ ماحول فراہم کیا جائے
نوزائیدہ بچوں کے لیے پیدائش کے بعد پہلے چوبیس گھنٹہ بہت اہم ہوتے ہیں اور اس دوران وہ سیکھتے ہیں کہ وہ ماں کا دودھ کیسے پی سکتے ہیں
یورپ اور امریکہ کے ہسپتالوں میں تو ’نومولود دوست‘ اقدامات کیے جا چکے ہیں لیکن دنیا کے دیگر خطوں میں اب تک ایسا نہیں ہو سکا۔ کینیا میں بچوں کی نگہداشت سے متعلق ایک ادارے سے وابستہ محقق انتونینا میوتورو نے اقوام متحدہ کی ایک تازہ رپورٹ کے لیے سروے کرنے میں معاونت فراہم کی تھی جس میں نیروبی کی غیر رسمی آبادیوں کی صورت حال کا جائزہ لیا گیا تھا
اس سروے کے نتائج سے معلوم ہوا ہے کہ نوزائیدہ بچوں کی صرف دو فیصد مائیں بچوں کو صرف اپنا دودھ پلا رہی تھیں
یہ امر اس لیے بھی اہم ہے کہ ان گنجان آباد بستیوں میں رہنے والی مائیں فارمولا دودھ خریدنے کی استطاعت بھی نہیں رکھتی تھیں۔ وہ اپنا دودھ پلانے کی بجائے بچوں کو گائے کا دودھ اور نرم غذائیں دے رہی تھیں
میوتورو کہتی ہیں کہ اپنا دودھ نہ پلانے کی وجوہات میں سے ایک اہم ترین وجہ یہ بھی تھی کہ ہسپتال میں بچے کی پیدائش کے بعد ماؤں کو یہ سکھایا ہی نہیں گیا کہ وہ بچوں کو بریسٹ فیڈنگ کیسے کریں۔ وہ بتاتی ہیں، ”اگر پیدائش کے بعد متعلقہ اسپتال میں نومولود دوست سہولت میسر نہ ہو تو کئی مرتبہ عملہ کہتا ہے کہ بچہ ہمیں دیں، ہم اسے فارمولہ دودھ پلا دیتے ہیں۔ یوں سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔‘‘
اس کے علاوہ ڈاکٹر کبھی ماں سے کہتے ہیں کہ اس کا دودھ کافی نہیں ہے۔ تاہم میوتورو کا کہنا ہے کہ پیدائش کے بعد جب بچے کو ماں کی چھاتی پر رکھا جاتا ہے تو طلب پیدا ہوتی ہے جس سے دودھ بھی آ جاتا ہے
مسئلہ ماں کے دودھ کی افادیت سے لاعلمی کا بھی نہیں ہے۔ میوتورو کے مطابق طبی عملہ جانتا ہے کہ ماں کا دودھ بچے کی صحت کے لیے کتنا اہم ہے۔ لیکن اس عمل کو فروغ دینے کے لیے اسٹرکچر موجود نہیں ہوتا۔ کئی ڈاکٹر اور نرسیں ماؤں کو تربیت نہیں دیتے کہ وہ بریسٹ فیڈنگ کیسے کریں اور اس کی بجائے فارمولہ دودھ تھما دیتے ہیں
اس کے بعد بچوں کا فارمولہ دودھ بنانے والی کمپنیوں کا اثر و رسوخ بھی ہوتا ہے۔ 1981ع میں عالمی ادارہ صحت کے فیصلہ ساز شعبے ورلڈ ہیلتھ اسمبلی نے ماں کے دودھ کے متبادل مصنوعات کی تشہیر کا ضابطہ تیار کیا۔ اس ضابطے کے تحت فارمولہ دودھ بنانے والوں پر اپنی مصنوعات کی یوں تشہر کرنے پر پابندی عائد کی گئی، جس سے بریسٹ فیڈنگ کی حوصلہ شکنی ہو
تاہم رواں برس فروری میں سامنے آنے والی عالمی ادارہ صحت کی رپورٹ کے مطابق یہ کمپنیاں اپنی مصنوعات کی بڑھ چڑھ کر آن لائن تشہیر کر رہی ہیں اور اس مقصد کے لیے وہ آن لائن تشہیر کے ایسے طریقے اختیار کر رہی ہیں، جو سن 1981ع میں ضابطہ بناتے وقت موجود نہیں تھے۔ ان طریقوں میں ایلگورتھم اور ایپس کے ذریعے معلومات جمع کر کے ماؤں تک رسائی فراہم کرنا شامل ہیں
رپورٹ میں بتایا گیا کہ اس ضابطے کے اطلاق کے چار عشروں بعد بھی بریسٹ فیڈنگ کی شرح جمود کا شکار ہے لیکن فارمولہ دودھ کے فروخت کی شرح دو گنا ہو گئی ہے
عملی تربیت کا فقدان
عالمی ادارہ صحت کی رپورٹ کے مصنفین میں شامل رفائیل پیریز ایسکامیلا کہتی ہیں کہ زیادہ تر نومولود دوست ہسپتالوں میں بھی خواتین کو ایسی تربیت یا مدد فراہم نہیں کی جاتی جس سے وہ یہ جان پائیں کہ گھر جانے کے بعد انہیں بچوں کو اپنا دودھ کیسے پلانا ہے
ایسکامیلا کے مطابق اس کی دو اہم وجوہات ہیں۔ پہلی وجہ یہ ہے کہ زیادہ تر میڈیکل نرسنگ اسکولوں میں تربیت کے دوران صرف دو گھنٹے کے لیے یہ سکھایا جاتا ہے کہ بریسٹ فیڈینگ کیسے کی جاتی ہے
عملی تربیت کے اسی فقدان کے باعث نرسیں بریسٹ فیڈنگ کے بارے میں ماؤں کو بھی کچھ نہیں سکھا پاتیں۔ اس لیے عام طور پر یہ کام بریسٹ فیڈنگ کے لیے مشاورت فراہم کرنے والے دیگر لوگ کرتے ہیں
بیشتر ممالک میں صحت کا نظام ایسے مشیروں کو بھرتی نہیں کرتا اور نہ ہی ان کے اخراجات برداشت کیے جاتے ہیں۔ اس لیے ایسے پیشہ ور صرف ان خواتین کو ہی نجی طور پر تربیت دے پاتے ہیں، جو انہیں پیسے ادا کر سکیں
ایسکامیلا کے مطابق دوسری اہم وجہ یہ بھی ہے کہ بریسٹ فیڈنگ کی اہمیت جاننے کے باوجود کچھ اہلکار جان بوجھ کر اس کی ترویج سے گریز کرتے ہیں کیوں کہ فارمولہ دودھ بنانے والی انڈسٹری انہیں پیسے دیتی ہے
ایسکامیلا کہتی ہیں، ”ان میں سے کئی لوگوں کو عشائیوں پر مدعو کیا جاتا، کانفرنسوں میں شرکت کے لیے پیسے دیے جاتے ہیں، کتابیں ملتی ہیں اور کچھ کو تو خاص تعداد میں مصنوعات تجویز کرنے کے عوض رشوت بھی ملتی ہے“
دوسرا اہم پہلو یہ ہے کہ بچوں کو دودھ پلانا ایک ماں کے لیے کل وقتی کام ہے، جب کہ کئی مائیں ملازمت کرنے کی وجہ سے بھی فارمولا دودھ کا انتخاب کرتی ہیں
کیونکہ اگر مائیں بچوں کو اپنا دودھ پلائیں تو ہر چند گھنٹے میں ان کی چھاتیاں دودھ سے بھر جاتی ہیں۔ اس دودھ کو جسم سے نکالنا پڑتا ہے، یا تو بچے کو دودھ پلا کر یا پھر پمپنگ کے ذریعے۔ اگر ایسا نہ کیا جائے تو انہیں درد کا سامنا کرنا پڑتا ہے
کئی ملکوں میں بچے کی پیدائش کے بعد خواتین ایک برس تک تنخواہ کے ساتھ چھٹی کر سکتی ہیں۔ یوں بریسٹ فیڈنگ اور پمپنگ کوئی بڑا مسئلہ نہیں بنتا لیکن امریکہ اور کینیا سمیت کئی دیگر ممالک میں ایسے قوانین موجود نہیں، جس کے باعث خواتین کو تنخواہ کے بغیر چھٹی کرنا پڑتی ہے
اگر کوئی ماں کام نہیں چھوڑ سکتی تو اسے کام پر پمپ کرنا پڑتا ہے
جبکہ پروفیسر کیلی سنائیڈر کے مطابق ایسی ملازمتیں جہاں خواتین کو الگ دفتر دستیاب ہوتا ہے، وہاں تو یہ ممکن ہے لیکن ہر صنعت اور ہر دفتر میں الگ جگہ فراہم کرنا ممکن نہیں ہوتا
اس طرح کے حالات میں ایسی مائیں بھی، جو بچوں کو صرف اپنا دودھ ہی پلانا چاہتی ہوتی ہیں، فارمولہ دودھ پر انحصار کرنے پر مجبور ہو جاتی ہیں
فارمولہ دودھ استعمال کرنے کی وجوہات صرف معاشی و معاشرتی ہی نہیں ہیں۔ ایسی خواتین بھی ہیں جو دیگر وجوہات کی بنا پر بریسٹ فیڈنگ نہیں کر سکتیں۔ اس سلسلے کی دوسری رپورٹ میں ہم ان وجوہات کا جائزہ لیں گے۔