صرف ایک چھوٹا سا پتّھر (نارویجین ادب سے منتخب افسانہ)

راگنل یؤلسن (مترجم: شگفتہ شاہ)

اتوار کی سہ پہر کو وہ دونوں اکثر سڑک کے کنارے کنارے چہل قدمی کرتے دیکھے جاتے تھے۔ وہ ابھرے گالوں اور چھوٹی ناک والی، چھوٹے قد کی فربہ جسم لڑکی تھی۔ وہ دبلا پتلا اور محنتی لڑکا تھا۔دونوں خاموشی سے ایک دوسرے پر اعتماد کے جذبہ میں سرشار چلتے جاتے، چلتے چلے جاتے، ایک دوسرے کے ہاتھ میں ہاتھ دئیے ہوئے۔۔ کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا کہ وہ دونوں نیچے دریا کنارے چلے جاتے، اور وہاں کاٹ کر رکھے گئے درختوں کے موٹے تنوں پر بیٹھ جاتے، مگر ہمیشہ صرف وہ دونوں ہی ہوتے، کوئی تیسرا یا چوتھا وہاں موجود نہ ہوتا۔ وہ دونوں وہاں بیٹھے رہتے، وہ اپنی سلوٹوں بھری اسکرٹ پہنے ہوئے، جسے وہ صرف چھٹی کے دن پہنا کرتی تھی۔اور جس کو وہ تھوڑا سا اونچا کر کے باندھ لیا کرتی تھی، تاکہ نیچے لگنے سے وہ گندی نہ ہو جائے۔۔ اور وہ سر پر سیاہ رنگ کا بڑا سا ہیٹ سجائے ہوئے، جسے وہ صرف اتوار کے اتوار استعمال کیا کرتا تھا۔ وہ بڑا سا ہیٹ اس کے لئے ایک چھوٹے سے کمرے کی مانند تھا، جسے سر پر رکھتے ہی وہ خود کو دوسرے نوجوانوں سے الگ تھلگ محسوس کیا کرتا تھا۔۔ اور انہیں دوسرے نوجوانوں سے گھلنے ملنے کی کوئی خواہش بھی نہ ہوتی تھی۔۔ اور سب کے ساتھ مل کر ہنسنے کھلنے کی بجائے وہ دونوں خاموشی سے ڈھلوان کی راہ لیتے۔۔ اور اگر کوئی انہیں زچ کرنے کی غرض سے کہہ دیتا، ”اوہ، تو آپ نیچے ڈھلوان کی طرف جا رہے ہیں، اور اس لئے دبے قدموں جا رہے ہیں کہ کسی کو پتہ نہ چلے۔“
تو وہ دونوں بیک زبان جواب دیتے:
”نہیں، ہم دبے قدموں تو نہیں، تیز قدموں سے ادھر جا رہے ہیں۔“
اور اگر کوئی کہتا: ”آج کل کے کم عمر نوجوانوں کا تو یہی وطیرہ ہے، مگر آپ تو بڑے ہو گئے ہیں۔ بیس برس یا اس سے بھی زیادہ کے تو ہوں گے آپ؟“
”نہیں، ہم دونوں ہی اس کرسمس تک چوبیس برس کے ہو جائیں گے۔“ وہ بہت تحمل سے بولتا، ”مگر نوجوانوں نوجوانوں میں بھی فرق ہوتا ہے۔۔ اور میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ ہم کبھی ادھر بہت آگے تک نہیں جاتے۔“
”وہ آوارہ اور لا اُبالی نوجوان ہی ہوتے ہیں، جو وہاں بہت آگے تک گھومتے رہتے ہیں“ کوئی دلیل سے بات آگے بڑھاتا، ”لڑکیاں بھی کبھی ایک لڑکے کے ساتھ اور کبھی دوسرے کے ساتھ گھومتی پھرتی رہتی ہیں۔۔ اور ایسے ہی لڑکے بھی روز روز لڑکیاں بدلتے رہتے ہیں۔“
”ہم کوئی خانہ بدوش تو ہیں نہیں۔۔ ہر کوئی اپنے قول و فعل کا خود ذمہ دار ہوتا ہے۔ اور ہم دونوں بھی ایک دوسرے کا خود دھیان رکھ سکتے ہیں۔ میں صحیح کہہ رہا ہوں نا ماریا؟“
”بے شک، ماریا اعتماد سے مسکراتے ہوئے جواب دیتی

جب وہ دونوں ایک دوسرے کے ہاتھ میں ہاتھ دئیے آگے کی جانب گامزن تھے تو وہ باہم مصروفِ گفتگو تھے:
”ماریا میرے پاس پچاسی کراؤن جمع ہو گئے ہیں“

”واقعی! کیا تم سچ کہہ رہے ہو؟“

”ہاں، ہمیں مستقبل میں پیسوں کی ضرورت ہوگی۔ ممکن تھا کہ میں اس سے بھی زیادہ جمع کر لیتا، اگر کام پر میرے ساتھ ناانصافی نہ ہوتی۔۔ مگر خدا کی یہی مرضی تھی۔ سب بہتر ہو جائے گا۔“

”ہاں، سب اچھا ہوگا۔۔ اور ہاں یورگن، میں نے بھی اس ہفتے مقررہ تعداد سےساٹھ درجن زیادہ پیکٹ تیار کئے ہیں۔“

”او ہو، تم تو مشین ہو ماریا۔بس ایک بات کا دھیان رکھنا۔ مجھے ڈر ہے کہ تم کمزور اور نڈھال نہ ہو جاؤ۔ مالی ضروریات تو میں اکیلا بھی پوری کر سکتا ہوں، یہ تم اچھی طرح سے جانتی ہو۔“

”جی ہاں میں جانتی ہوں یورگن کہ تم یہ سب کر سکتے ہو، لیکن میری خوشی اسی میں ہے کہ تمہاری تھوڑی بہت مدد میں بھی کروں، اور اُمید کرتی ہوں کہ تم میری اس خوشی کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنو گے۔ میں یہ نہیں چاہتی کہ میں تمہارے گھر خالی ہاتھ آؤں، تم یہ بات سمجھو یورگن۔“

”تم خالی ہاتھ بھی آؤ، تو مجھے اتنی ہی عزیر رہو گی، میری پیاری ماریا۔۔ تم بہت خوبصورت ہو اور میرے دل میں تمہارا ایک خاص مقام ہے۔۔ تمہاری یہ محّبت اور اہمیت میرے دل میں ہمیشہ قائم رہے گی، یہ تمہاری اچھائی اور سمجھداری ہے کہ تم ایسا سوچتی ہو۔۔ میں اور تم الگ الگ تو نہیں ہیں نا۔۔ اور میری ماریا، جب ہم اپنے لئے رہنے کی جگہ بنا لیں گے تو ہمارے مالی حالات بہت اچھے ہو جائیں گے۔ اس لئے تمہیں ابھی سے خود کو نڈھال کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے“

”لیکن تمہارا اپنے بارے میں کیا خیال ہے، یورگن؟“

”چھوڑو اس بات کو، میں جانتا ہوں کہ مجھ میں کتنی قوتِ برداشت ہے، اور یہ تم بھی جانتی ہو، اس لئے تمہیں میرے بارے میں فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔“

”مجھے تمہاری بہت فکر رہتی ہے، یورگن۔“

”ہاں ہاں، میری ماریا، میں جانتا ہوں کہ تم بھی مجھ سے اتنی ہی محبت کرتی ہو، جتنی کہ میں تم سے کرتا ہوں۔۔ وہ لمحہ کتنا حسین ہوگا، جب تم بیاہ کر میرے گھر آجاؤ گی۔۔ ماریا، تم یہی چاہتی ہونا کہ ہم موسمِ گرما میں بیاہ کریں؟ ہاں تو ٹھیک ہے، تمہیں بھی تیاری کے لئے وقت چاہیے ہوگا، میں بھی یہ سوچ رہا ہوں کہ تب تک بڑے کمرے کے کونے میں، ہم دونوں کے لئے سونے کی جگہ تیار کرلوں گا اور ضرورت کی دوسری چیزوں کا بندوبست بھی کر لوں گا۔ اور ہاں ماریا، یہ تصور ہی کتنا خوش کن ہے کہ میں تمہیں اپنے گھر میں گھومتے پھرتے، کام کاج کرتے دیکھ سکوں گا۔ میرے بوڑھے والدین کو اپنے درمیان ایک نوجوان کی موجودگی کتنی خوشی دے گی۔“

”یورگن تم اطمینان رکھو، میں تمہارا اور تمہارے والدین کا بہت خیال رکھوں گی۔“

جب یورگن اور ماریا پُل پر پہنچ گئے، جہاں سے انہوں نے اپنے اپنے گھر کی راہ لینی تھی، تو وہ دونوں دیر تک جنگلے پر جھکے کھڑے رہے۔ ”تمہیں چھوڑ کر جانا مجھے ہمیشہ ہی بہت مشکل لگتا ہے ماریا۔۔ اب تک ہم دونوں ایک دوسرے کے سنگ سنگ تھے ۔ اور اب مجھے اکیلے ہی اپنے گھر جانا ہوگا۔ اور تم جانو، تمہیں دیکھنے سے پہلے، میں نے کبھی لڑکیوں کی طرف آنکھ اُٹھا کر بھی نہیں دیکھا تھا، تم میری زندگی میں آنے والی پہلی لڑکی ہو، ماریا۔“

”یورگن ، بالکل ایسا ہی معاملہ میرے ساتھ بھی ہے۔“

اور وہ بہت دیر تک وہاں کھڑے اِدھر اُدھر کی باتیں کرتے رہے۔۔

”کیا تم نے ان دنوں اُولے دامّن کو کہیں دیکھا ہے؟“

”نہیں، مگر تم یہ کیوں پوچھ رہے ہو؟“

”بس ایسے ہی۔۔۔“

اور انہوں نے اوپر آسمان پر چھائے بادلوں کی طرف نگاہ دوڑائی

”لگتا ہے کل بارش ہوگی۔۔ سورج نہیں نکلے گا۔“

”ہاں، لیکن کافی دنوں سے ہم گرمی اور دھوپ کے مزے لے رہے ہیں۔“

”ہاں، مسلسل دو ہفتوں سے موسم اتنا اچھا جا رہا ہے۔“

”تمہارے ابو اور امی کیسے ہیں، یورگن۔ میں نے شاید تھوڑی دیر پہلے بھی پوچھا تھا؟“

”خدا کا شکر ہے کہ دونوں کی صحت اچھی ہے۔ اور تم بتاؤ، تمہارے بہن بھائی اور والدین کا کیا حال ہے۔ آپ سب لوگ اپنے اس عارضی گھر میں خوش تو ہیں نا؟“

”جی ہاں، بس ابّا اور امّاں اکثر لڑتے جھگڑتے رہتے ہیں۔ اور پھر چھوٹے بہن بھائی بھی ڈیوڑھی میں بھاگتے دوڑتے اور چیختے چلاتے رہتے ہیں۔“

”اتنے بہت سے افراد کے ساتھ، اتنے چھوٹے گھر میں رہنا یقیناً بہت مشکل ہوگا ماریا۔۔لیکن اس گھر کی ہم جلد ہی مرمت کر لیں گے۔“

”ہاں، ہم جلد ہی اس کی حالت بہتر کر لیں گے، یورگن۔“

اور پھراچانک یورگن نے ایک لمبی خاموشی کو توڑا اور گویا ہوا، ”اچھا، الوداع ماریا۔“

”الوداع یورگن۔۔ لمبی عمر جیؤ۔“

”تم بھی۔“

چند دن بعد ایک اتوار جب وہ حسبِ معمول سڑک کے کنارے چہل قدمی کر رہے تھے تو یورگن کا اندازِ گفتگو کچھ عجیب و غریب سا تھا۔

”سنو ماریا“ اس نے چلتے چلتے، ماریا کے ہاتھ کو بہت مضبوطی سے اپنے ہاتھ میں تھاما اور بہت دکھ بھری آواز میں اسے مخاطب کیا، ”ماریا، شاید ہم دونوں زیادہ عرصہ ایک دوسرے کے سنگ سنگ زندگی نہیں گزار سکیں گے۔“

ماریا نے کچھ نہ سمجھتے ہوئے، آنکھوں میں حیرانی لئے یورگن کی طرف دیکھا، کہ وہ کیا کہہ رہا ہے۔۔

”ہاں ماریا، مجھے لگتا ہے کہ میں زیادہ دن نہیں جیوں گا۔“

”کیا تم بیمار ہو، یورگن؟“

”نہیں میں بیمار تو نہیں ہوں۔ اور نہ ہی میں تمہیں بتا سکتا ہوں، کہ کیوں اور کیسے یہ خیال میرے دماغ میں سما گیا ہے؛ آخری کچھ دنوں سے ایسا ہے کہ جب میں صبح گھر سے نکلتا ہوں تو یہ خیال مجھے گھیر لیتا ہے کہ نجانے میں دوبارہ اپنے ماں، باپ اور گھر کو دیکھ بھی سکوں گا یا نہیں۔ اور شام کو گھر پہنچنے تک یہ خیال میرا پیچھا کرتا رہتا ہے۔ تمہیں نہیں لگتا کہ شاید اب میرا آخری وقت قریب آ چکا ہے؟“

”مگر۔۔ خدا جا واسطہ یورگن۔۔ ایسی باتیں مت کرو“

”ماریا، اگر وہ گھڑی آ گئی تو تم سوگ نہ منانا۔ مجھے یقین ہے کہ میری آخرت اچھی ہو گی؛ کیونکہ میں نے زندگی بھر نہ تو کبھی چوری کی ہے اور نہ ہی کسی کو دھوکا دیا ہے۔۔ اور تم بھی یہ سب باتیں سوچ کر صبر سے اس دن کا انتظار کرنا، جب ہم دوبارہ ملیں گے۔۔ میں چاہتا ہوں کہ میری ساری چیزیں، میری نشانی کے طور پر تم اپنے پاس رکھ لینا۔ میری وہ میز جو میں نے بولی سے خریدی تھی، وہ بھی تم لے لینا ماریا، وہ بہت اچھی حالت میں ہے، اس کی اوپر والی دراز میں جگہ کم ہے، مگر اسے تالا لگ جاتا ہے، اس میں تم اپنی کنگھی، سر کے رومال اور اس طرح کی دوسری چیزیں رکھ لینا، جبکہ دوسری دراز بہت کھلی اور بڑی ہے، ہاں البتہ تیسری دراز تھوڑی سی اُکھڑی ہوئی ہے، لیکن اسے میں آج شام ہی ٹھیک کر دوں گا، ماریا۔ میرا خیال ہے کہ میری گھڑی بھی تم لے لینا اور پھولوں کی وہ جھاڑی بھی تمہاری ہوئی، بہار میں اس پر تمہارے لئے پھول آیا کریں گے۔ ہاں البتہ بینک کی چیک بُک میرے والدین کے پاس ہی رہنے دینا۔ تم تو جوان اور صحت مند ہو، اپنا گزارا کر لو گی، مگر وہ بے چارے تو بہت بوڑھے ہو چکے ہیں۔“

تھوڑی دیر تک وہ دونوں یونہی چپ چاپ کھڑے رہے، پھر یورگن نے لب کھولے، ”میں نے ہمیشہ یہی سُنا ہے کہ غم میں اگر کوئی ساتھ ہو تو غم سہنا آسان ہو جاتا ہے۔ جب کبھی ایسا موقع آیا تو تم میرے والدین کے پاس چلی جانا۔ وعدہ کرو ماریا کہ تم ان کے پاس جاؤ گی۔“

”جی اچھا“ ماریا نے مختصراً کہا۔ وہ بہت کچھ کہنا چاہ رہی تھی، مگر اس کی زبان گنگ ہو گئی تھی۔ البتہ اپنے ہاتھ میں لئے یورگن کے ہاتھ پر اس کی گرفت پہلے سے مضبوط ہو چکی تھی۔ اُس روز وہ ہاتھ میں ہاتھ دئیے، بہت دیر تک پُل پر کھڑے رہے، یہاں تک کہ فضا اندھیرے کی لپیٹ میں آ گئی۔ ان دونوں میں سے کسی نے بھی کسی سے کچھ کہا نہ کچھ سُنا

پھر یورگن نے لب کشائی کی،
”ماریا، مجھے اب جانا چاہیے۔ میرے والدین میرا انتظار کر رہے ہوں گے۔ تم ہمیشہ خوش رہو ماریا۔۔ وہ سب لمحات جو تم نے میرے ساتھ گزارے ہیں، ان کے لئے میں تمہارا بے حد شکر گزار ہوں“

”الوداع، یورگن۔۔۔“

یورگن نے ماریا کے گال پر نرمی سے ہاتھ پھیرا اور گھر کی طرف چل دیا۔ ڈھلوان کے اوپر پہنچ کر وہ ایک لمحے کو رُکا اور پیچھے مڑ کر دیکھا۔ماریا دکھ اور پریشانی میں آنسو بہاتی ہوئی پیر گھسیٹ گھسیٹ کر آگے بڑھ رہی تھی۔ وہ فوراً نیچے کی جانب بھاگ کھڑا ہوا

”ماریا!“ یورگن نے اسے آواز دی، ”تم غم نہ کرو، میری ماریا! سنو، یہ سب تو میرے اپنے ذہن کی اختراع تھی، میں نے یہ سب صرف تمہیں آزمانے کے لئے گھڑا تھا۔۔ اور اب میرا دل بہت ہلکا ہو گیا ہے۔ الوداع ماریا، حوصلہ رکھو اور بہادر بنو ماریا۔“

”الوداع یورگن۔“

اور ماریا اور یورگن اپنی اپنی راہ چل دئیے۔

اگلے روز مطلع ابر آلود تھا۔فیکٹری کا گھڑیال کام شروع کرنے کی اطلاعی گھنٹی بجا چکا تھا۔ سب مزدور فیکٹری کے اندر جا چکے تھے۔ مکانوں کے چمنیوں سے نکلتا اور فضا میں مرغولے بناتا ہوا دھواں اس بات کا ثبوت تھا کہ گھروں کے اندر آتشدانوں میں کافی کی کیتلیوں کے نیچے آگ روشن ہے۔ دریا اور آبشار سے اُٹھتی صبح کی دُھند، ابھی تک فیکٹری کے قریبی گھروں اور کھیتوں پر چھائی ہوئی تھی۔ فیکٹری مزدور تندہی سے اپنے اپنے کاموں میں مصروف تھے اور مشینوں کے چلنے سے اک شور سا برپا تھا۔ اچانک اوپر چٹان پر مصروفِ کار کارکنوں نے بہ آوازِ بلند ایک اعلان کیا۔ وہ نئی عمارات کی تعمیر کے لئے پہاڑ کو دھماکے سے اُڑانے کے کام پر معمور تھے، اور اس غرض سے پچھلے ہفتے اس جگہ پر دھماکہ خیز مواد دبا کر گئے تھے۔ اب انہوں نے ڈائنامیٹ کو آگ لگا کر پہاڑ کو اُڑانا تھا۔ اور وہ سب لوگوں کو باخبر کر رہے تھے کہ اس جگہ سے دور ہو جائیں۔

جب پہاڑ کو اُڑانے پر معمور کارکن بھی بھاگ کر وہاں سے دور ہٹ چکے تھے۔ تب اچانک ایک آدمی ادھر جاتا ہوا دیکھا گیا۔ وہ صبح دیر تک سوتا رہا تھا اور کام پر پہنچنے میں دیر ہو جانے کے سبّب، اس کے پاس انتباہی اعلان پر کان دھرنے کی فرصت نہ تھی۔ وہ یہ سوچتا ہوا آگے بڑھتا گیا کہ ابھی تو صرف دو دفعہ ہی اعلان ہوا ہے۔ لیکن جب وہ عین پہاڑ کی سیدھ میں پہنچ گیا، تو تیسری مرتبہ انتباہی اعلان فضا میں گونجا۔ آدمی نے اوپر کی جانب نگاہ اُٹھائی اور یکدم واپس پلٹا۔۔ مگر عین اُسی لمحے ایک زور دار دھماکا ہوا، ہاتھ کی مٹھی برابر حجم کا ایک چھوٹا سا پتّھر بجلی کی سی تیزی سے اُڑ کر اس کے سر پرآ گرا۔۔ اور وہ وہیں زمین پر ڈھیر ہو گیا۔

جنگل کے قریب ایک جھونپڑی میں دو بوڑھے، ینّس اور کھاری بروتن بیٹھے فیکٹری کے لئے ڈبے تیار کر رہےہیں۔ وہ دونوں بہت ضعیف ہو چکے ہیں، مگر بہت تندہی سے اپنے کام میں مصروف ہیں۔ ان کے بائیں ہاتھ میں لکڑی کا ایک ایک سانچا ہے، جس پر وہ ڈبوں کو شکل دے رہے ہیں۔ دونوں کی دائیں جانب ڈبوں کا انبار، گوند سے بھری بالٹی اور گوند لگانے کا برش رکھا ہے۔ ان دونوں کے بیچ میں ایک ٹوکری پڑی ہے، جس میں وہ تیار شدہ ڈبے ڈالتے جا رہے ہیں۔ ان کے ہاتھوں میں کوئی خاص پھرتی نہیں ہے۔ خاص طور پر بوڑھے آدمی کے جھریوں بھرے ہاتھ کمزوری اور جوڑوں کے درد کی وجہ سے مڑے ہوئے ہیں اور پھر اسے بار بار منہ میں تمباکو ڈالنا اور مسوڑھوں کو کھجانا پڑتا ہے، جس کی وجہ سے اس کی داڑھی میں بھی گوند لگ جاتی ہے اور ان وجوہات کے سبّب اس کے لئے کام کرنا اتنا آسان نہیں ہے۔ جبکہ بوڑھی عورت قدرے بہتر طور پر کام انجام دے پا رہی ہے، اس لئے کہ اس کی انگلیاں جال اور موزے وغیرہ بُننے کی عادی ہیں اور پھر تمباکو اور داڑھی بھی اس کے کام میں حائل نہیں ہیں۔ ہاں البتہ کمرے کے کونے میں ٹنگی گھڑی بار بار اس کی توجہ اپنی جانب مبذول کر لیتی ہے۔

”دیکھو میں نے ایک گھنٹے میں سو ڈبے تیار کر لئے ہیں۔“ اس نے بہت خوشی سے اپنے شوہر کو بتایا۔

”اور میں نے؟“ بوڑھے آدمی نے پوچھا

”ہوں۔۔ میرا خیال ہے کہ تم ہمیشہ ہی ایک گھنٹے میں پچیس ڈبوں کو گوند لگا پاتے ہو، اور ینّس، میرا خیال ہے کہ تم تو یہ کام رہنے ہی دیا کرو، تم خود بھی جانتے ہو کہ یوں خوامخواہ بیکار بیٹھنے سے تمہاری کمر دُکھنے لگ جاتی ہے۔“

”بہت بہتر“ بوڑھے آدمی نے کہا، ”اور میں اطمینان سے تمباکو نوشی بھی کر لیا کروں گا۔“ وہ گوند کی بالٹی ایک طرف رکھ کر اٹھ کھڑا ہوا اور دروازے کی دہلیز پر بیٹھ کر تمباکو نوشی کا ارادہ کر ہی رہا تھا کہ ایک فربہ جسم لڑکی اندر داخل ہوئی۔ اس کی گول گول آنکھیں پوری کھلی ہوئی تھیں اور چہرے کی رنگت اڑی اڑی سی تھی۔

”تو یہ تم ہو، ماریا؟” کھاری نے کہا، ”ؤ بیٹھو۔“ مگر پھر اس کی حالت دیکھ کر کھاری اپنے دونوں ہاتھ ملنے لگی اور دونوں بوڑھوں نے بیک زبان ہو کر پوچھا:
”بنامِ یسوع۔ یورگن کو کچھ ہو تو نہیں گیا؟“

”جی ہاں“ ماریا نے کہا اور دکھ سے چہرہ دوسری جانب کر لیا، ”میں آپ کو یہی بتانے اور اس رنج کی گھڑی میں آپ کی ڈھارس بندھانے کے لئے ہی یہاں آئی ہوں۔ یورگن کی یہی خواہش تھی۔۔ اور میں جب تک جیوں گی، آپ کے ساتھ رہ کر آپ کی خدمت کرتی رہوں گی“

ایک لمحے کے لئے کمرے میں مکمل سناٹا چھایا رہا۔ کھاری سانچے کو ہاتھ میں لئے اپنی جگہ پر جمی بیٹھی تھی، بوڑھا آدمی فرش پر کھڑا تھا، اس کے بازو نیچے کو لٹک گئے تھے اور منہ کھلے کا کھلا رہ گیا تھا۔ صرف دیوار پر ٹنگی گھڑی سے ٹک ٹک کی صدا بلند ہو رہی تھی

پھر ماریا نے لب کھولے، ”یہ حادثہ کسی مشین کی وجہ سے نہیں ہوا“ اس نے انہیں تسلّی دیتے ہوئے کہا۔۔ اور پھر حالات کا مقابلہ کرنے کا حوصلہ لئے اس کی آواز دوبارہ ابھری، ”وہ پہاڑ سے گرنے والا صرف ایک چھوٹا سا پتّھر تھا۔“

Original Title: Bare en liten stein
Writer: Ragnhild Jølsen

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close