سندھ کے دارالحکومت اور پاکستان کے معاشی حب کراچی میں ٹیکسٹائل کی صنعت بند ہونے لگی ہیں، جس سے ہزاروں افراد بےروزگار ہو رہے ہیں
انہی میں سے ایک، حال ہی میں ایک ٹیکسٹائل فیکٹری سے فارغ کر دیے گئے کراچی کے علاقے کورنگی کے رہائشی نجیب اللہ نے اپنی دکھ بھری روداد بتاتے ہوئے کہا ”مجھے ایک ہفتہ قبل اچانک ملازمت سے فارغ کر دیا گیا۔ والدین، بیوی اور تین بچوں کے ساتھ کرائے کے مکان میں رہتا ہوں۔ کچھ دن پہلے تک رات دیر گئے کام سے گھر آنے پر جو ناراضگی رہتی تھی وہ اب ختم تو ہوئی ہے، لیکن ساتھ ہی روزگار بھی ختم ہوگیا ہے“
اپنی پریشانی بتاتے ہوئے ان کا کہنا تھا ”اب سمجھ نہیں آ رہا کہ گھر کے اخراجات چلانے کے لیے کہاں سے پیسے لاؤں؟ نوکری نہیں ہے تو ہر گزرتے دن کے ساتھ پریشانی بھی بڑھ ہی ہے“
واضح رہے کہ نئی حکومت آنے کے بعد پاکستان کے ساحلی شہر کراچی میں ٹیکسٹائل انڈسٹری شدید بحران کا شکار ہونے لگی ہے، پیداواری لاگت بڑھنے اور آرڈز نہ ہونے کی وجہ سے فیکٹری مالکان نے یونٹ بند کر کے ہزاروں افراد کو نوکریوں سے فارغ کر دیا ہے
اس حوالے سے صنعت کاروں کا کہنا ہے کہ بجلی اور گیس کے نرخوں میں اضافے کی وجہ سے پیداواری لاگت بڑھ گئی ہے۔ پاکستان کے مقابلے میں چین، بنگلہ دیش سمیت دیگر ممالک میں سستا مال میسر ہے۔ خریدار پاکستان کے بجائے دیگر مارکیٹوں سے سودے کر رہے ہیں
صنعت کاروں کے مطابق ایسے میں صنعتوں کو چلانا مشکل ہو گیا ہے۔ ٹیکسٹائل سیکٹر کو سستے نرخوں پر یوٹیلیٹیز فراہم نہیں کی گئی تو آنے والے دن مزید مشکل ہوں گے
نجیب اللہ کراچی کے ضلع کورنگی کے صنعتی علاقے میں ایک ٹیکسٹائل فیکٹری میں کوالٹی چیکر کا کام کرتے تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ کچھ ماہ سے فیکٹری میں کام نہ ہونے کے برابر تھا۔ ابتدائی طور پر تین شعبوں سے اسٹاف کم کیا گیا
وہ بتاتے ہیں ”اس وقت اندازہ نہیں تھا کہ آنے والے چند دنوں میں یہ تمام یونٹس بند ہو جائیں گے اور ہمیں بھی بیروزگار ہونا پڑے گا“
حبیب اللہ کا کہنا ہے کہ وہ اپنے گھر کے واحد کفیل ہے۔ سات افراد پر مشتمل خاندان ہے اور وہ اپنے اہل خانہ کے ہمراہ کورنگی ناصر جمپ کے پاس کرائے کے گھر میں رہتے ہیں
وہ کہتے ہیں ”دس سال قبل ٹیکسٹائل فیلڈ میں کام شروع کیا تھا اور مناسب آمدنی تھی۔ گزارا مشکل ضرور تھا، لیکن ہو رہا تھا۔ اب تو صورتحال ہی مختلف ہے۔ ایک ہفتے قبل فیکٹری نے ہمارا شعبہ بھی بند کر دیا اور مجھ سمیت ایک سو اکیس افراد کو فارغ کر دیا۔ تمام ہی لوگ پریشان ہیں کیونکہ سب ہی ہماری طرح تنخواہ دار تھے، جن کی تنخواہ آنے سے قبل حساب میں پیسے بٹ جایا کرتے تھے“
واضح رہے کہ نئی حکومت آنے کے بعد حالیہ دنوں میں بجلی اور گیس سمیت دیگر یوٹیلٹیز کی مد میں اضافے کی وجہ سے اشیا کی تیاری کی لاگت بڑھ گئی ہے۔ پیداواری لاگت بڑھنے سے ٹیکسٹائل سمیت دیگر صنعتیں شدید متاثر ہوئی ہیں۔ کراچی کے پانچ بڑھے صنعتی زونز میں اب تک تقریباً تیس سے زائد یونٹس بند ہو چکے ہیں، جس سے ہزاروں افراد بے روزگار ہو گئے ہیں
کراچی میں کام کرنے والے چار بڑے یونٹس سے اب تک تقریباً ساڑھے آٹھ ہزار سے زائد افراد کو فارغ کیا جا چکا ہے، جبکہ دیگر یونٹس میں بھی چھانٹی جاری ہے
صدر ایوان صنعت و تجارت کراچی محمد ادریس نے اس بات کی تصدیق کی کہ کراچی میں ٹیکسٹائل یونٹس بند ہو رہے ہیں اور وہاں کام کرنے والے ہزاروں کی تعداد میں ورکرز کو بھی فارغ کیا جا رہا ہے
محمد ادریس بتاتے ہیں ”کراچی کی بیشتر صنتعوں میں تین شفٹوں کو دو شفٹ میں کر دیا گیا ہے۔ امریکہ یورپ سے کام نہیں مل رہا تو مشکلات ہو رہی ہیں۔ موجودہ حالات میں خریدار پاکستان کو آرڈز دینے میں بھی احتیاط کر رہا ہے۔ اس کی اہم وجہ یہ ہے کہ مقررہ وقت پر مال کی فراہمی پر انہیں کچھ خدشات ہیں۔ اس کی اہم وجوہات ہر گزرتے دن کے ساتھ روپے کی قدر میں کمی اور بجلی و گیس کا بحران ہے“
کراچی میں کپڑے کے بروکر عثمان زاہد کا کہنا ہے کہ اس وقت مارکیٹ کی صورتحال اچھی نہیں ہے۔ چار ماہ پہلے لومز کا ریٹ 50 پیسہ فی پک تھا، لیکن اب کام نہ ہونے کی وجہ سے یہ لوم 38 پیسہ فی پک میں مل رہی ہے مگر گاہک موجود نہیں ہے
انہوں نے بتایا ”سائیٹ کراچی میں، جہاں سے سے مال تیار کرواتے ہیں، اس فیکٹری مالک کا کہنا ہے کہ گزشتہ ماہ گیس کا بل ڈیڑھ کروڑ کا تھا جو اس ماہ ڈھائی کروڑ ہو گیا ہے۔ ایسی صورتحال میں پیداواری لاگت بہت بڑھ گئی ہے اور طے شدہ معاہدے کے مطابق مال فراہم کرنا مشکل ہو گیا ہے“
محمد ادریس کے مطابق ”گیس کا بحران شدید ہو گیا ہے۔ وقت پر گیس کا سودا نہیں کیا اب مہنگے داموں خریدنا پڑ رہا ہے۔ ہر چیز یوٹیلٹیز سے جڑی ہے۔ کام کرنا مشکل ہوگیا ہے“
انہوں نے کہا کہ انڈسٹری کو چلانے کے لیے سستے داموں بجلی اور گیس کی فراہمی ہوگی تو ہی آرڈرز وقت پر تیار ہو سکے گا اور ایکسپورٹ کیا جا سکے گا
صدر ایوان صنعت و تجارت کراچی محمد ادریس کہتے ہیں ”چھ ماہ قبل ٹیکسٹائل انڈسٹری میں بہت تیزی تھی اور تقریباً تمام فیکٹریاں دو سے تین شفٹوں میں کام کر رہی تھیں، لیکن اب صورتحال مختلف ہے“
نجیب اللہ کا کہنا ہے ”حکومت کو چاہیے کہ ملک میں چلنے والی صنعتوں کے لیے ہنگامی بنیادوں پر کام کیا جائے۔ اگر اس صورتحال کو فوری کنٹرول نہیں کیا گیا تو بیروزگاری بڑھے گی اور عام آدمی کے لیے زندگی گزارنا مشکل تر ہو جائے گا“