نایاب نسل کی مکڑیوں کی خرید و فروخت کے کروڑوں روپے کے غیر قانونی کاروبار کا حصہ پشاور سے تعلق رکھنے والے فرمان (فرضی نام) بتاتے ہیں ”مارچ میں ایک شخص نے لاہور سے فون کر کے پانچ سو بلیک وڈو مکڑیوں کا آرڈر دیا۔ ہم نے کلرکہار میں ایک شکاری سے بات کی۔ اس نے کہا میرے پاس دو سو موجود ہیں۔ لیکن قیمت ایک کروڑ روپے ہوگی اور ایڈوانس میں دینی پڑے گی“
پشاور ہی کے پچاس سالہ جان محمد (فرضی نام) بھی اسی کاروبار سے جڑے ہیں۔ وہ گذشتہ دس برسوں سے بچھو اور نایاب نسل کی چھپکلیوں کے علاوہ حالیہ برسوں سے مکڑیوں کا غیر قانونی کاروبار بھی کر رہے ہیں
ان کا کہنا ہے ”پاکستان بھر میں ایک بڑا نیٹ ورک موجود ہے جس میں پشاور، اسلام آباد، کراچی اور لاہور کے بڑے بیوپاری نایاب نسل کی مکڑیاں خرید کر مہنگے داموں بیرون ملک بھجواتے ہیں“
محکمہ جنگلی حیات خیبر پختونخوا کے حکام کا کہنا ہے کہ صوبے کے مختلف علاقوں میں ایسے گروہ سرگرم ہیں جو بچھو اور چھپکلی کے علاوہ نایاب نسل کی مکڑیوں کی غیر قانونی خرید و فرخت میں ملوث ہیں
سینٹر سرکل پشاور کے کنزرویٹر افتخار زمان نے بتایا ”چند دن قبل ایبٹ آباد میں نایاب نسل کی ٹرنٹولا مکڑی اسمگل کرنے کی کوشش کرنے والے تین افراد کو گرفتار کیا گیا، جن کو وائلڈ لائف ایکٹ 2015 کے تحت ایک لاکھ روپے جرمانہ ہوا“
جان محمد کے مطابق پاکستان میں تین اقسام کی مکڑیاں ہیں، جن میں بلیک وڈو، بلیک اور براؤن کی مانگ کافی زیادہ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان مکڑیوں کو خیبر پختونخوا میں چترال اور مانسہرہ جبکہ پنجاب میں کلرکہار اور چکوال سے پکڑا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ کشمیر اور بلوچستان کے ٹھنڈے علاقوں میں بھی نایاب نسل کی مکڑیاں پائی جاتی ہیں۔مکڑی کا ریٹ نسل، وزن اور لمبائی کے حساب سے طے کیا جاتا ہے“
ان کے مطابق ”سو گرام تک وزن ہو تو چار سے پانچ کروڑ روپے، دو سو گرام اور چھ انچ لمبائی والی ہو تو اور بھی زیادہ قیمت مل سکتی ہے۔ لیکن اتنے بڑے سائز کی مکڑیاں بہت کم مقدار میں شکاریوں کے ہاتھ آتی ہیں۔ اگر کوئی ان کو پکڑ بھی لے تو اُن کو لے جانا مشکل ہوتا ہے کیونکہ جگہ جگہ سکیورٹی چیک پوسٹ ہوتی ہیں“
اُن کے بقول دو سے ڈھائی انچ اور بیس سے تیس گرام تک کی مکڑی پانچ لاکھ روپے جبکہ انتہائی چھوٹے سائز کے لیے دس سے پندرہ ہزار روپے مل جاتے ہیں
جان محمد کے مطابق لوگ زیادہ تر چھوٹے سائز کی مکڑیاں خرید کر کچھ عرصے کے لیے ڈبوں میں رکھ کر مخصوص درجہ حرارت میں پالتے ہیں اور ان کی خوراک کے لیے مارکیٹ سے کیڑے خریدے جاتے ہیں
’نایاب نسل کی مکڑیوں کے لیے گرم آب و ہوا بھی جان لیوا ثابت ہو سکتی ہے۔ اسی لیے جب ان کو سرد علاقوں سے گرم علاقوں میں لایا جاتا ہے تو بیوپاری ٹھنڈے ماحول کا انتظام رکھتے ہیں۔‘
مکڑیوں کی مانگ کی وجہ کیا ہے؟
یہ مکمل طور پر واضح نہیں کہ مکڑیوں کے اس غیر قانونی کاروبار کے پیچھے اصل عوامل کیا ہیں لیکن پاکستان میں مکڑیوں کے کاروبار سے وابستہ افراد کا دعویٰ ہے کہ ان کے زہر کے حصول کے لیے لوگ ان کو خریدتے ہیں، جس کو بعد میں ادویات بنانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے
جان محمد کے مطابق ’جن مکڑیوں کا کاروبار ہوتا ہے وہ انتہائی زہریلی ہوتی ہیں۔ خریدار ہمیں صرف اتنا بتاتا ہے کہ ان کے زہر سے دوائی تیار کی جاتی ہے‘
اُنھوں نے کہا کہ ان کی مانگ امریکہ، یورپی ممالک اور روس میں کافی زیادہ ہے
اُن کے بقول ’بیرون ملک موجود لوگوں کے مقامی ایجنٹ یہاں اُن کے لیے خریداری کرتے ہیں۔‘ انھوں نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ بعض اوقات ’باہر سے لوگ یہاں آ کر مکڑیوں کو خرید کر اپنے ساتھ ہوائی جہاز میں لے جاتے ہیں۔‘ اُن کے مطابق یہ بااثر لوگ ہوتے ہیں۔
یہ کاروبار منافع بخش بھی ہے اور خطرات سے بھرپور بھی۔ ان میں سے ایک خطرہ اس غیر قانونی کاروبار کا وہ پہلو ہے، جس میں فروخت کرنے والا اور خریدار دونوں ہی ایک دوسرے کو دھوکہ دینے کی کوشش کرتے ہیں
جان محمد بتاتے ہیں کہ ’اس کاروبار میں جھوٹ بہت زیادہ بولا جاتا ہے۔ مثلاً جب کسی کو وڈیو بھیج کر پچیس لاکھ ریٹ بتاتے ہیں تو آگے وہ دوسرے بندے کو اسی لاکھ بتاتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ میرے پاس موجود ہیں‘
انہوں نے بتایا کہ بعض لوگ گاہگ کو دھوکہ دینے کے لیے عام نسل کی مکڑیوں کو کیمیکل کے استعمال سے قیمتی نسل ظاہر کرنے کی کوشش بھی کرتے ہیں جس میں کم تجربہ کار بیوپاری اکثر دھوکہ کھا جاتے ہیں
فرمان (فرضی نام) بتاتے ہیں ’مارچ کے مہینے میں لاہور سے ایک بندے نے ان کو پانچ سو بلیک وڈو کا آرڈر دیا۔ جب ہم نے کلرکہار میں ایک شکاری سے بات کی تو اُس نے کہا کہ میرے پاس دو سو تک موجود ہیں لیکن قیمت ایک کروڑ روپے ہے جو ایڈوانس میں ادا کرنی ہوگی۔ ہمارے پاس چالیس لاکھ روپے تھے۔ ہم دو دوستوں نے اُس حساب سے سودا کیا۔ مکڑیوں کو گاڑی میں ڈال کر جیسے ہی لاہور پہنچے تو گاہگ نے اپنا موبائل بند کر دیا۔ کافی دیر انتظار کرنے کے بعد ہم واپس پشاور آ گئے۔ جب ہم نے شکاری کو مال واپس لینے کا کہا تو اس نے بھی انکار کر دیا۔ ہمیں تو ان کو پالنے کی سمجھ نہیں تھی، ساری مکڑیاں مر گئیں۔‘
مکڑی کا شکار کیسے کیا جاتا ہے؟
واجد (فرضی نام) کا تعلق مانسہرہ کے پہاڑی علاقے سے ہے۔ گذشتہ ایک سال سے وہ اپنے علاقے سے نایاب نسل کی مکڑیاں پکڑ کر پشاور میں بیوپاریوں کو بھیجتے ہیں، ان کا کہنا ہے ’اس علاقے میں دو تین قسم کی مکڑیاں ہیں جو گھنی گھاس اور ویرانوں میں پائی جاتی ہیں۔ ان کو پکڑنا بہت مشکل کام ہے کیونکہ ایک تو یہ نازک ہوتی ہیں اور دوسرا یہ زہریلی بھی ہوتی ہیں۔ خطرہ ہوتا ہے کہ کہیں یہ پکڑنے والے کو ڈنگ نہ مار دیں۔ مکڑی کا شکار کرنے سے پہلے ہاتھ پر پلاسٹک کے دستانے چڑھا کر جال سے مکڑی کو پکڑا جاتا ہے اور پھر اس کو ایک ڈسپوزیبل کپ میں ڈال دیا جاتا ہے، جس کے اُوپر سے پلاسٹک میں سوراخ کر دیا جاتا ہے‘
اُنھوں نے بتایا کہ اس شکار کے لیے بیوپاریوں سے ایڈونس میں پیسے لیے جاتے ہیں
واجد کا دعویٰ ہے کہ وہ مکڑی کے شکار کے لیے محکمہ جنگلات سے باقاعدہ طور پر لائسنس بھی مانگ چکے ہیں، لیکن ان کو انکار کر دیا گیا
ان کا دعویٰ ہے کہ محکمہ جنگلی حیات کے پاس مکڑیوں کے تحفظ کے لیے قانون میں کوئی دائرہ اختیار نہیں
تاہم اس بارے میں محکمہ جنگلی حیات خیبر پختونخوا کے افتخار زمان کا کہنا ہے ”ادارے کے پاس تمام جنگلی حیات کے تحفظ کا قانونی اختیار موجود ہے جس میں مکڑیوں کے شکار پر پابندی بھی شامل ہے“
غیر قانونی دھندے کو روکنا مشکل کیوں ہے؟
افتخار زمان کے مطابق پاکستان کے ہزارہ ڈویژن کے علاوہ افغانستان کے سرحدی علاقوں سے بھی مکڑیوں کی سمگلنگ کی جاتی ہے اور پورے صوبے میں محکمہ جنگلی حیات کا عملے اس دھندے سے آگاہ ہے لیکن وسائل اور عملے کی کمی ان کے راستے کی ایک روکاٹ ہے
اُنہوں نے بتایا کہ مختلف معلومات کی بنیاد پر ادارہ کارروائی کرتا ہے اور قانون کے مطابق ملوث افراد کو تین سال قید اور لاکھوں روپے جرمانہ تک ہو سکتا ہے
لیکن دوسری جانب پاکستان میں سوشل میڈیا پر ایسے اکاؤنٹ بھی موجود ہیں جو نایاب قسم کے بچھو، چھپکلیوں اور مکڑیوں کی خرید و فروخت کے لیے چلائے جاتے ہیں تاہم اب تک محکمہ جنگلی حیات نے اس قسم کے آن لائن کاروبار کے خلاف کسی قسم کی کارروائی نہیں کی
افتخار زمان کہتے ہیں کہ یہ قانونی طور پر جرم ہے اور اس حوالے سے ان کا ادارہ کسی بھی قسم کی شکایت موصول ہونے کی صورت میں باقاعدہ طور پر ایسے افراد کے خلاف قانونی کارروائی کرے گا
مکڑیوں کی فارمنگ؟
جان محمد کہتے ہیں کہ اب پاکستان کے مختلف مقامات پر مکڑیاں پالنے کے رجحان کا آغاز ہو چکا ہے
’نہ صرف چھوٹی مکڑیوں کو پال کر بڑا کیا جاتا ہے بلکہ افزائش نسل بھی کی جا رہی ہے لیکن یہ انتہائی حساس اور مشکل کام ہے۔‘
اُنھوں نے کہا کہ ’مادہ مکڑی انڈہ دیتی ہے جس کی وجہ سے ان کا وزن آدھے سے بھی کم ہوجاتا ہے۔‘
’ایک انڈے سے ہزار تک انتہائی چھوٹے بچے پیدا ہوتے ہیں۔۔۔ مکڑیوں کو پالنے کے لیے لوگ خوراک کے طور پر کیڑے مارکیٹ سے خرید کر فراہم کرتے ہیں۔‘
اُن کا کہنا ہے کہ ’مخصوص نسل کے کیڑوں، جن میں پروٹین کی مقدار زیادہ ہوتی ہے، کی بھی فارمنگ ہوتی ہے جو کہ مہنگے داموں فروخت ہوتے ہیں۔‘
لیکن افتخار زمان نے مکڑیوں کی فارمنگ کے دعوے کو رد کرتے ہوئے کہا کہ ’مکڑیوں کی فارمنگ نہیں ہوتی بلکہ ان کو جنگلات سے پکڑ کر ہی فروخت کیا جاتا ہے۔‘
پشاور یونیورسٹی کے شعبہ زولوجی (حیوانیات) کے لیکچرار قیصر جمال بھی افتخار زمان سے اتفاق کرتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’اب تک مکڑیوں کی فارمنگ کے حوالے سے باقاعدہ طور پر کام نہیں ہوا۔‘
مکڑیوں کو درپیش خطرات اور اثرات
ڈاکٹر قیصرجمال کہتے ہیں کہ مکڑی فصلوں کو نقصان پہنچانے والے کیڑوں سے محفوظ رکھنے کے لیے انتہائی اہم ہے۔
’اگر ان کی تعداد کم ہوتی ہے تو اس سے فصل کی پیداواری صلاحیت متاثر ہو گی۔‘
ڈاکٹر قیصر جمال کا کہنا ہے کہ ’مکڑیوں کے مسکن انسان کی وجہ سے غیر محفوظ ہوتے جا رہے ہیں جس کی وجہ سے مکڑیوں کی نسل کو خطرات لاحق ہیں۔‘
’انسانی آبادی میں اضافہ، فصلوں پر کیمیکل سپرے، جنگلات کی کٹائی، زرعی زمینوں کی کمی، کاروباری مقصد کے لیے مکڑیوں کا شکار، ان تمام کی وجہ سے مکڑیوں کو خطرہ ہے۔‘
اُن کے بقول ماحولیاتی تبدیلی اور حشرات پر اس کے اثرات کے حوالے سے مزید تحقیق کی ضرورت ہے تاکہ مستقبل میں پیدا ہونے والے ممکنہ خطرناک اثرات سے بچا جا سکے۔
نوٹ: اس رپورٹ کی تیاری میں اسلام گل آفریدی کے بی بی سی اردو میں شائع ہونے والے طویل فیچر سے مدد لی گئی ہے۔