ملک خاص طور پر پنجاب میں آج کل سیاسی درجہ حرارت عروج پر ہے اور اس کی وجہ صوبے میں ہونے والے ضمنی انتخابات ہیں
تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اور مسلم لیگ ن کی نائب صدر آج کل ان حلقوں میں جلسوں سے خطاب کر رہے ہیں۔ عمران خان کی توپوں کا رخ اپنے مخالفین سے زیادہ اسٹیبلشمنٹ کی طرف ہے اور وہ مختلف طریقوں اور الفاظ کے انتخاب سے یہ تنقید کر رہے ہیں
پہلے انہوں نے نیوٹرلز کا لفظ استعمال کیا تو اب وہ جلسوں میں ’مسٹر ایکس‘ اور ’مسٹر وائی‘ کی اصطلاحات استعمال کررہے ہیں
جب انہوں نے الیکشن مہم کا آغاز کیا تھا تو اس وقت انہوں نے خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے ایک افسر کا نام لے کر بھی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وہ پنجاب میں ہونے والے ضمنی انتخابات پر اثر انداز ہو رہے ہیں۔ اب وہ نام لینے کے بجائے متبادل اصطلاحات ’مسٹر وائی اور ایکس‘ کا استعمال کر رہے ہیں
بدھ کے روز بھی اٹھارہ ہزاری جھنگ میں ضمنی انتخابات کے سلسلے میں جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے کہا ’17 جولائی کے انتخابات ملک کے مستقبل کا فیصلہ کریں گے، ہمارا سارا وقت دھاندلی روکنے میں لگا ہوا ہے۔‘
عمران خان کا کہنا تھا ’ایک مسٹر ایکس بیٹھا ہوا ہے اور مسٹر وائی کو ملتان بھجوایا ہوا ہے اور انہیں حکم ملا ہے کہ ان چوروں کو الیکشن جتوانا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ان انتخابات میں ہمارا مقابلہ صرف لوٹوں سے نہیں بلکہ شریف خاندان اور الیکشن کمیشن سے بھی ہے۔ چیف الیکشن کمشنر دونوں پارٹیوں سے مل گیا ہے، وہ چھپ چھپ کر مریم نواز اور حمزہ شہباز سے ملتا ہے۔‘
اس سے قبل بھی وہ یہ کہہ چکے ہیں ”لاہور میں بیٹھے شخص کی نوکری ہے تمہیں جتوانا لیکن وہ بھی ناکام ہوگا“
انہوں نے کہا تھا ”لاہور میں مسٹر ایکس کے باوجود پنجاب کا ضمنی الیکشن جیتیں گے“
اس حوالے سے صحافی عامر ضیا سمجھتے ہیں کہ ’عمران خان سوچ سمجھ کر ان الفاظ کا انتخاب کر رہے ہیں۔ اگر آپ ’مسٹر ایکس‘ کی بات کریں تو یہ لفظ آپ کو ابن صفی کے ناولوں میں ایک جاسوس کردار کا ملتا ہے‘
’اس سے صاف ظاہر ہے کہ عمران خان کس کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔ چونکہ وہ جارحانہ سیاست کے قائل ہیں اس لیے وہ اپنی مرضی سے کبھی فرنٹ فٹ پر آجاتے ہیں اور کبھی الفاظ کے انتخاب میں ردوبدل کر لیتے ہیں بلکہ پوری تحریک انصاف کی قیادت یہ لائن لیتی نظر آ رہی ہے۔‘
خیال رہے کہ بدھ کے روز لاہور میں تحریک انصاف کے رہنما فواد چوہدری نے بھی پریس کانفرنس کرتے ہوئے اداروں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’اب دو ہی آپشنز ہیں یا تو انقلاب سے ہوش میں آئیں یا پھر سری لنکا جیسے حالات پیدا ہوجائیں‘
انہوں نے وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناءاللہ اور پنجاب کے وزیر داخلہ عطااللہ تارڑ کو اسٹیبلشمنٹ کے مہرے قرار دیا
سیاسی تجزیہ کار سلمان غنی کا کہنا ہے ’عمران خان سے زیادہ کون جانتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کیسے اثرانداز ہوتی ہے۔‘
سلمان غنی کا کہنا ہے کہ ’عمران خان اس وقت دو طرح سے کھیل رہے ہیں، ایک طرف وہ صحافیوں کو مل کر کہتے ہیں انہوں نے نمبر ان بلاک کر دیے ہیں۔ جس کا صاف مطلب ہے کہ وہ اب کسی کو آواز دے رہے ہیں اور مذاکرات کے موڈ میں ہیں جبکہ دوسری طرف انہوں نے جلسوں میں اپنی جارحانہ حکمت عملی بھی قائم رکھی ہوئی ہے۔‘
تجزیہ نگار سید مجاہد علی لکھتے ہیں ”عمران خان انتخابی جہاد کے ذریعے قوم کو ’حقیقی آزادی‘ دلوانے کے مشن پر گامزن ہیں لیکن اس دوران کوئی مسٹر ایکس بلاوجہ پرائی لڑائی میں کود چکے ہیں اور کسی بھی قیمت پر تحریک انصاف کے امیدواروں کو ہرانے کے مشن پر گامزن ہیں۔ یوں تو مسٹر ایکس کو کوئی نہیں جانتا حتیٰ کہ موصوف کو عوام کی عدالت میں پیش کرنے والے عمران خان کو بھی علم نہیں ہے کہ وہ کون ہیں
اس کے باوجود وہ لوگوں کو یہ باور کروانا چاہتے ہیں کہ سب کو علم ہے کہ مسٹر ایکس کون ہے۔ ہم تو یہی کہہ سکتے ہیں کہ ویسے تو نہیں معلوم کہ یہ ’ایکس‘ کون ہے لیکن اتنا کہا جاسکتا ہے کہ جس کا نام عمران خان جیسا ’خوددار‘ شخص بھی مسٹر لگائے بغیر نہیں لے سکتا، وہ کوئی خاص آدمی ہی ہوگا۔ اور اس شخص کے خاص ہونے میں کیا شک ہوسکتا ہے جو کسی اور کو نہیں بلکہ عمران خان کو ’شکست‘ دلوانے کے لئے میدان میں اترنے کا حوصلہ کر رہا ہے“
بہرحال پاکستانی سیاست اور انتخابات میں ’اصل قوت‘ کا سرچشمہ کون ہے، اس سوال کا جواب ’ہاتھ کنگن کو آرسی کیا‘ میں چھپا ہوا ہے یا یوں کہیے کہ عیاں ہے۔ انتخابی سیاست کے بارے یہ بات تو طے ہے کہ یہاں سب کچھ ’طے شدہ‘ ہوتا ہے
لیکن ملین ڈالر سوال یہ ہے کیا اس کے باوجود عمران خان ، جیسا کہ وہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ تمام تر دھاندلی اور مداخلت کے باوجود یہ ضمنی الیکشن میں اپنے امیدواروں کو جتوانے میں کامیاب ہو جائیں گے، اگر ایسا ہو جاتا ہے تو یہ اصل کمال ہوگا۔