مشکل فیصلے اور آسان فیصلے

سعد اللہ جان برق

بات اگر ’’سیاست‘‘ کی نہیں، انصاف کی ہو تو ہم بڑے خوش نصیب ہیں کہ خدا نے ہمیں ایسے لیڈر اور حاکم دیے ہیں کہ اپنا عیش و آرام تیاگ کر، خواب و خور حرام کر کے دن رات ہماری خدمت میں جتے ہوئے ہیں۔۔ ان کے پاس کیا نہیں ہے، خدا کا دیا ہوا اور عوام سے چھینا ہوا، سب کچھ ہے۔ بنگلے ہیں، زمینیں ہیں، کارخانے ہیں اور اپنی دولت ہے کہ اگر مٹھیاں بھر بھر کر چاروں طرف پھینکیں، تب بھی ختم نہیں ہوگی

لیکن یہ ’’خدا کے پراسرار بندے‘‘ وہ سب کچھ تیاگ کر صرف ایک دھن میں لگے ہوتے ہیں کہ کسی طرح ہماری خدمت کرنے کی سعادت حاصل کریں۔ وہ یہ سب کچھ تو صدیوں سے کر رہے ہیں، محمود آف غزنی سے شہاب الدین آف غور اور خاندان غلاماں تک، پھر مغلوں کے زمانے سے لے مرہٹوں، احمد شاہ آف ابدالیان سے رنجیت سنگھ آف لاہور تک اور سلسلہ در سلسلہ آج تک ان کا کام ہی یہی ہے، لیکن پاکستان بننے کے ساتھ ہی جب انگریزوں نے ان پر اپنی ذمے داری ڈال کر کھلا چھوڑ دیا تو ان کا جذبہ خدمت اور زیادہ تیز ہو گیا، جس میں خدمت گاری کے ساتھ ’’مشکل فیصلوں‘‘ کی اضافی ذمے داری بھی ان کے کاندھوں پر آ پڑی

چنانچہ جس حکومت میں آتے ہیں یا جو بھی حکومت ان کے قبضے میں آتی ہے اور یہ سلسلہ پچھتر سال سے جاری و ساری ہے کہ عوام کی بداعمالی کی وجہ سے ان کو مشکل فیصلے کرنا پڑتے ہیں بلکہ صبح سے شام تک اور شام سے صبح تک مشکل فیصلوں میں مصروف رہتے ہیں، اپنے عوام تو کالانعام ہیں، سمجھتے ہی نہیں ہیں کہ یہ لوگ یا خاندان یا درباری طبقہ ان کے لیے کیا کیا اور کیسے کیسے فیصلے کرتے رہتے ہیں، بیچارے ان مشکل فیصلوں میں اتنے تجریہ کار ہوگئے ہیں کہ ان کا نام ہی ’’مشکل‘‘ رکھا جانا چاہیے

قوم کے غم میں ڈنر کھاتے ہیں حکام کے ساتھ،
رنج لیڈر کو بہت ہیں مگر آرام کے ساتھ۔۔۔

مگر یہ تو بہت پرانی بات ہوگئی کہ یہ ’’حکام‘‘ کے ساتھ قوم کا غم صرف ’’ڈنر‘‘ میں کھاتے تھے ، اب تو چونکہ یہ خود ’’حکام‘‘ ہو گئے ہیں، اس لیے ڈنرکے ساتھ لنچ، بریک فاسٹ، عصرانوں، ظہرانوں اور راتوں کو بھی عوام کے غم میں مصروف رہتے ہیں اور ’’مشکل فیصلے‘‘ کرتے رہتے ہیں بلکہ اب تو مشکل فیصلوں کے عادی ہوگئے ہیں کہ جس دن مشکل فیصلے نہ ہوں بیچارے کھوئے کھوئے اور بے چین رہتے ہیں

بے چین بہت پھرنا گبھرائے ہوئے رہنا،
اک آگ سی ’’سینے‘‘میں دہکائے ہوئے رہنا۔۔

اور عادت کے بارے میں تو ہم آپ کو رحمان بابا کا فرمودہ بتا چکے ہیں کہ ’’علت‘‘ چھوٹ جائے گی لیکن عادت کبھی نہیں چھوٹتی اور عادت بھی مشکل فیصلوں کی ہو اور وہ بھی بہت پرانی خاندانی عادت ہو

رنج سے خوگر ہو انسان تو مٹ جاتا ہے رنج،
’’مشکلیں‘‘مجھ پر پڑیں اتنی کہ آسان ہو گئیں۔۔

ہمارے عوام تو انتہائی بے حس، بے درد، بے مروت بلکہ احسان فراموش، ناشکرے، ناقدرے لوگ ہیں، اس لیے پروا ہی نہیں کر رہے ہیں کہ ان کے ’’خادم‘‘ ان کے لیے کتنی مشکلات سے گزر رہے ہیں لیکن ہم ایسے نہیں ہیں۔۔ ہمیں، احساس ہے کہ ان ’’خادموں‘‘ پر مشکل فیصلوں کی وجہ سے کیا کیا گزر رہی ہے

جو ہم پہ گزری سو گزری مگر ’’نادان عوام‘‘

ہمارے اشک تری عاقبت سنوار چلے۔۔

مطلب یہ کہ اپنے عوام کی زندگی نہ سہی ’’عاقبت‘‘ تو سنوار چکے ہیں، اتنی زیادہ کہ یہاں سے سیدھے جنت میں لینڈ کریں گے، آخر خدا اتنا ناانصاف تو نہیں کہ کسی کو دونوں جہانوں میں ’’دوزخ نشین‘‘ کر دے۔ اس لیے ہم نے فیصلہ کر لیا ہے کہ ہم بھی اپنے ’’خادموں‘‘ کی مدد کریں گے، ٹھیک ہے ہم مشکل فیصلوں کا نہ کوئی تجربہ رکھتے ہیں اور نہ ہی ہمارے پاس اختیار ہے کہ مشکل فیصلے کر سکیں، اس لیے ہم صرف آسان فیصلوں پر فوکس کریں گے، وہ بھی صرف مشورے کی حد تک کیوں کہ بہرحال فیصلے ان کے اختیار میں ہیں

ہم اپنے ان جدی پشتی خادموں سے گزارش کرنا چاہتے ہیں کہ بہت سارے مشکل فیصلے کر کے یقیناً آپ ’’تھکن‘‘ محسوس کر رہے ہوں گے اور اس تھکان کو دور کرنے کے لیے آپ کو کسی آسان فیصلے کا گلوکوز پینا چاہیے اور اسی گلوکوز کی طرف ہم آپ کو متوجہ کرنا چاہتے ہیں

وہ آسان فیصلہ یہ ہے کہ یہ جو آپ نے ’’سفید ہاتھیوں‘‘ کا قبیلا پال رکھا ہے، اسے کم سے کم آدھا کر دیجیے، وزیر، چھوٹے وزیر، مشیر، معاون اور پھر ان سب کے پورے پورے جھنڈ جو اس غریب، مقروض، مقبوص اور بدنصیب ملک کو لاحق ہیں۔ چونکہ امریکا اور اس کی ہرچیز ہماری ’’فیورٹ‘‘ ہے تو وہاں پندرہ وزیر ہیں، آب بھی پندرہ کر کے امریکا جیسے ہو جائیے

یہ جو منتخب خاندانوں کے ’’منتخب‘‘ ہیں، یہ تو پیدائشی منتخب ہیں، یہاں اجمل خٹک کا ایک بے موقع قطعہ یاد آیا:

غٹان غٹان خانان خانان پیدادی،
دوی خودہ مورہ جنتیان پیدادی

رازی چہ ھغولہ جنت اوگٹو،
سوک چہ دہ مورہ دوزخیان پیدادی

ترجمہ: یہ بڑے بڑے خان اور رئیس تو ماں کی کوکھ سے ’’جنتی‘‘ پیدا ہوئے ہیں، آؤ ان لوگوں کے لیے جنت کمائیں جو ماں کی کوکھ سے ’’دوزخی‘‘ پیدا ہوئے ہیں۔

مطلب یہ کہ بہت ہی آسان فیصلہ ہے، ویسے بھی قمر جلالوی نے کہا ہے کہ جب کشتی ڈوبنے لگتی ہے تو سامان اتارا کرتے ہیں۔۔

بشکریہ: ایکسپریس نیوز

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close