بلوچستان کو قدرت نے نہ صرف خوبصورت ساحلی پٹی دی ہے، بلکہ قدرتی وسائل اور معدنیات سے بھی نوازا ہے۔ جہاں بلوچستان کے ساحل کا جغرافیہ ملکی دفاع کے لئے ناگزیر ہے وہیں اقتصادی لحاظ سے بھی یہ ساحلی علاقہ اہم ہے۔ اسی ساحل سے اعلیٰ کوالٹی کی مچھلی اور جھینگے مختلف ممالک کو برآمد کر کے کثیر زرمبادلہ حاصل کیا جاتا ہے
دوسری طرف بلوچستان کا ضلع کیچ، ضلع پنجگور اور ضلع گوادر پر ڈویژن پاکستان کا واحد ڈویژن ہے، جو کہ لگ بھگ سالانہ ایک سو ستائیس میٹرک ٹن کھجور برآمد کرتا ہے۔ یہاں ایک سو بیس کے قریب مختلف اقسام کی کھجور پائی جاتی ہے۔ مکران میں اعلیٰ درجہ کے کھجور پیدا ہوتی ہے۔ جس میں موضاتی، بیگم جنگی، آب دندان ، کوزن باد، جدگالی، شکری، سبزو، ہلینی، گوگ نا، کنگو، اور دیگر اقسام سرفہرست ہیں
مکران میں پیدا ہونے والی کھجور ملک اور بیرون ملک میں شوق سے کھائی جاتی ہے ۔ یہ کھجور ایران، عرب امارات، امان اور دیگر خلیجی ممالک میں تحفے کے طور پر بھی جاتی ہے
بلوچستان کے ضلع کیچ میں شدید گرمی میں کھجور کی ایک ایسی فصل پیدا ہوتی ہے، جو اپنے منفرد ذائقے اور خواص کے باعث ملکی اور عالمی سطح پر بہترین تحفہ سمجھی جاتی ہے
ایک اندازے کے مطابق اس وقت تربت کیچ میں چوبیس ہزار دو سو ہیکٹر رقبے پر ڈیڑھ لاکھ ٹن کے قریب کھجور کی پیداوار ہوتی ہے
اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں کھجور کی پیداوار کے لحاظ سے سب سے پہلے مکران ڈویژن کے ضلع پنجگور اور ضلع کیچ تربت کا نام سر فہرست ہے، کیونکہ یہاں سو سے زائد اقسام کی کھجوریں کاشت کی جاتی ہے
اگرچہ اس علاقے میں مختلف اقسام کی کھجور کاشت کی جاتی ہیں، لیکن یہاں کے ایکسپوٹرز کا شکوہ ہے کہ کسان کو ان کی محنت کا صلہ نہیں ملتا
’درفشان ڈیٹ فارم کیچ‘ کے سی ای او مقبول عالم نوری کا اس حوالے سے کہنا ہے ”کسان کو اس کی پیداوار اور محنت کے مطابق معاوضہ نہیں ملتا مثلاً ہماری کھجور کی قسم بیگم جنگی جس کو ہم انڈسٹریل کہتے ہیں، اس کے ایک ٹن کے پچیس ہزار روپے ملتے ہیں۔ یہ عالمی مارکیٹ میں آٹھ سو ڈالرز میں فروخت ہوتی ہے۔“
ان کا کہنا تھا: ’ہمارے کسان بیچارے پورا سال محنت کرتے ہیں۔ کھجور کی پیداوار کے لیے ایک ایک درخت پر چڑھ کر پولن دینے کی ضرورت ہوتی ہے۔ انگریزی میں اس کو سپیتھ اور بلوچی میں گش کہتے ہیں“
مقبول عالم نوری نے بتایا ”پولن ملنے پر درخت پھل دیتا ہے، تو اس لحاظ سے ہر درخت پر چڑھ کر پولن دینا کسان کے لیے بہت مشکل عمل ہے، اس پر بہت وسائل صرف ہوتے ہیں، خرچہ آتا ہے، درختوں کو وقت چاہیے ہوتا ہے، پانی دینا پڑتا ہے، فصل تیار ہونے پر بیگم جنگی کے درخت پر کم از کم چار پانچ مرتبہ چڑھ کر کھجور اتارنی ہوتی ہے۔ پھر کھجور کو سورج میں سکھا کر پیکنگ کے بعد مارکیٹ بھیجتے ہیں“
ان کا کہنا تھا ”اس انتھک محنت پر کسان کو فی من ہزار بارہ سو یا زیادہ سے زیادہ پندرہ سو روپے مل جاتے ہیں۔ یہ کسان کے لیے کچھ بھی نہیں“
بلوچستان میں کجھور کی تاریخ
ماضی میں بلوچستان کے دور دراز علاقوں سے لوگ کھجور کی سیزن (ہامین) میں آتے تھے۔ ہامین جو کہ بلوچی زبان کا لفظ ہے، کھجور کے سیزن کے لئے استمال کیا جاتا ہے۔ سیزن ختم ہونے پر لوگ کھجور ساتھ لے کر واپس اپنے علاقوں میں چلے جاتے تھے۔ لوگ غربت اور بیروزگاری کی وجہ سے کھجور کے سیزن (ہامین) کا باقاعدہ انتظار کرتے ہیں
مکران میں کھجور ضلع کیچ اور پنجگور میں بڑی مقدار میں پیدا ہوتی ہے۔ جبکہ بلوچستان کے ساحلی علاقوں میں یہ پیداوار نہیں ہوتی، جس کی وجہ زمین میں نمکیات اور سمندر کا قریب واقع ہونا بتائی جاتی ہے
غلام یاسین بزنجو کے مطابق ”یہ کوئی نہیں جانتا کہ مکران میں کب سے کھجور پیدا ہو رہی ہے، تاہم کچھ تاریخی دستاویزات میں اس بات کا ذکر کیا گیا ہے کہ سکندر اعظم نے جب بلوچستان کے مکران کے علاقوں میں کچھ عرصہ قیام کیا تھا تو ان کا گزر بسر مکران کی تازہ کھجور پر ہوتا تھا
یاسین بزنجو کا کہنا ہے ”بدقسمتی سے آج کے جدید ترین ٹیکنالوجی کے دور میں بھی بلوچستان خصوصاً مکران کے کاشتکار انتہائی مشکلات و مصائب کا شکار ہیں۔ نہ کوئی جدید طریقہ کار موجود ہے اور نہ ہی ان کاشتکاروں کی کوئی ٹریننگ ہے۔ وہی پرانے روایتی طریقے اپنائے ہوئے ہیں۔ سیزن سے تھوڑے عرصہ پہلے کھجور کے درختوں پر چڑھ کر کھجور کے گھنچوں کو ٹوکریوں (سوندھ) میں ڈالتے ہیں تاکہ محفوظ رہیں اور زمین پر بھی نہ گریں“
حکومتی سطح پر مقامی کسانوں کی مدد نہ ہونے کے برابر ہے۔ جس کے باعث سالانہ کئی ٹن کھجور کی برآمدات ضائع ہو جاتی ہیں۔ اگر حکومت کی طرف سے مقامی کسانوں کی تربیت کے ساتھ ساتھ ان کو مطلوبہ ساز و سامان اور آسان اقساط پر قرض دیئے جاتے تو آج مکران بلوچستان سے کھجوروں کی فصل کے ذریعے ملکی خزانے کو سالانہ اربوں روپے کا فائدہ پہنچا رہا ہوتا
چند سال قبل ایک غیر سرکاری ادارے کی سروے رپورٹ کے مطابق پاکستان دنیا کا پانچواں بڑا کھجور پیدا کرنے والا ملک ہے۔ جبکہ بلوچستان کے مکران ڈویژن میں سالانہ ستر فیصد کھجور پیدا ہوتی ہے۔ کھجور جو کہ دوا بھی ہے اور غذا بھی، لیکن صحیح معنوں میں تربیت اور دیگر بنیادی سہولیات کی عدم دستیابی سے مکران کے کسان سخت نالاں ہیں
حکومت کھجور کی پیداوار کی دیکھ بھال اور کسانوں کو ضروری سہولیات اور امداد فراہم کرکے نہ صرف ان کی زندگی بہتر بنا سکتی ہے، بلکہ اس علاقے میں روزگار کے مواقع میں بھی اضافہ ہو سکتا ہے۔