صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع مانسہرہ کے تھانہ کاغان کی حدود میں ایک پانچ روزہ ٹریکنگ پروگرام پر محو سفر اسلام آباد سے روانہ ہونے والا چار رکنی گروپ ڈاکوؤں کے حملے کا نشانہ بنا، جس میں جہلم سے تعلق رکھنے والے ریٹائرڈ اسکول پرنسپل ہلاک ہو گئے
گروپ میں شامل فیضان سمیع کا کہنا ہے ”24 جولائی کی رات سرال گل میدان میں پیش آنے والا ڈکیتی اور قتل کا واقعہ میرے لیے ڈراؤنا خواب بن چکا ہے۔ ہم نے ڈاکوؤں کو اپنے پاس موجود تمام نقدی اور سامان وغیرہ ساتھ لے جانے اور فائرنگ نہ کرنے کا کہا تھا مگر اس کے باوجود وہ فائرنگ کرتے رہے، جس سے ٹریکنگ پر جانے والے ہمارے بزرگ اور دوست کے سُسر راجہ عظیم نے ہمارے سامنے دم توڑ دیا“
فیضان سمیع کہتے ہیں ”بے رحم ڈاکوؤں کو راجہ عظیم کے ہلاکت بعد بھی کوئی رحم نہیں آیا تھا“
اس واقعہ کا مقدمہ مقتول راجہ عظیم کے داماد مدثر حسین، جو کہ خود بھی اس ٹریکنگ گروپ میں شامل تھے، کی مدعیت میں درج کیا گیا ہے
درج مقدمہ میں مدثر حسین کی طرف سے کہا گیا ہے ”میں اپنے ساتھیوں فیاض سمیع، اسفند یار خان اور اپنے سسر راجہ عظیم کے ہمراہ سیر و تفریح کے لیے براستہ بیل رتی گلی کشمیر جا رہا تھا۔ رات کو سرال گلی میدان میں ہم نے ٹینٹ لگا کر رہائش اختیار کی جبکہ ہمیں گھوڑوں پر لے جانے والے اور پوٹرز نے قدرے فاصلے پر پتھر کے نیچے رہائش رکھی ہوئی تھی۔ رات کے تقریباً گیارہ بجے جب ہم لوگ سو رہے تھے ایک شخص نے آواز دی کہ ٹینٹ سے باہر نکلیں۔ باہر موجود لوگ آپس میں شینا زبان (شینا زبان گلگت بلتستان اور کوہستان کے کچھ علاقوں میں بولی جاتی ہے) میں بات کر رہے تھے۔ اتنی دیر میں میرے سسر راجہ عظیم بھی اٹھ کر کھڑے ہوئے تو باہر سے کسی شخص نے فائر کیا، جس سے وہ زخمی ہو کر گر پڑے اور موقع ہی پر دم توڑ گے“
مدثر حسین کے مطابق ”ڈاکوؤں نے اپنے چہرے ڈھانپ رکھے تھے۔ ہاتھوں میں ڈنڈے بھی موجود تھے۔ ان کی تعداد تین تھی۔ ان کی عمریں پچیس سے بیس سال لگ رہی تھیں“
اس واقعہ کے بعد ضلع مانسہرہ شعبہ تفتیش کے ایس پی نے ڈی ایس پی بالاکوٹ اور ڈی ایس پی شعبہ تفتیش مانسہرہ کی سربراہی میں بارہ رکنی تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی ہے جو اس واقعہ کی تفتیش کر رہی ہے
ڈی ایس پی مانسہرہ راجہ خان کا کہنا تھا کہ واقعہ کی تفتیش جدید سائنسی بنیادوں پر ہو رہی ہیں۔ موقع پر ہماری کئی ٹیمیں پہنچ چکی ہیں۔ کچھ لوگوں سے پوچھ کچھ بھی ہو رہی ہے
بالاکوٹ سرکل پولیس کے مطابق ”مذکورہ مقام اور علاقہ مکمل طور پر پُرامن ہے۔ وہاں پر طویل عرصہ سے قتل کا واقعہ تو پیش ہی نہیں آیا، تاہم معمولی نوعیت کے واقعات اس سے قبل رپورٹ ہوئے ہیں“
واقعے کی تفصیلات
فیضان سمیع کہتے ہیں کہ ‘یہ کوئی پہلا موقع نہیں ہے کہ ہم لوگ ٹریکنگ کے لیے گئے ہوں۔ ہم دوست جاتے رہتے ہیں۔ اس سے پہلے ایسا کوئی بھی واقعہ نہیں سنا تھا۔ اب اس واقعہ کے بعد پتا نہیں ہم دوبارہ ٹریکنگ وغیرہ کرنے کی ہمت کر سکیں گے کہ نہیں۔‘
فیضان سمیع کہتے ہیں ”جب انکل گر گئے تو وہ لوگ اندر داخل ہوئے، ان میں سے دو کے ہاتھ میں پستول اور ایک کے ہاتھ میں باہر پڑی ہوئی ہماری ہی ایک ہائیکنگ اسٹک تھی۔ جس کو اس نے ڈنڈا بنا لیا تھا اور اس اسٹک سے ہم پر وار کر رہا تھا۔ اس کا ایک شدید وار میرے اور مدثر حسن کے ہاتھ پر لگا، جس سے ہم بھی زخمی ہو گئے تھے۔۔ اس موقع پر یہ لوگ آپس میں شینا زبان میں بات کر رہے تھے ایک ان میں سے مسلسل کہہ رہا تھا کہ ان کو گولی مارو۔ ہمارے ساتھی مدثر حسن جو کہ گلگت بلتستان کے رہائشی ہیں شینا زبان جانتے ہیں۔ انھوں نے ان سے کہا کہ ایسے مت کرو۔ یہ فائرنگ اور ڈنڈے چھوڑو ہمارے پاس جو کچھ ہے وہ ہم سے لے لو اور جاؤ“
فیضان سمیع نے بتایا ”وہ ہمیں مارتے ہوئے باہر لے گئے اور پتھر کے ساتھ کھڑا کر دیا تھا۔ ان میں سے ایک بہت زیادہ اشتعال میں نظر آرہا تھا وہ متواتر ‘گولی مار دو۔ مار دو‘ کہہ رہا تھا۔ انہوں نے ہمیں پتھر کے پاس کھڑا کر کے ہم پر فائرنگ بھی کی تھی مگر پتا نہیں کیا ہوا کہ خوش قسمتی سے ہم لوگ بچ گئے تھے“
فیضان سمیع کہتے ہیں ”اس کے بعد ان تینوں میں سے ایک کو ہمارے پاس کھڑا کیا گیا۔ وہ ہم سے چار پانچ فٹ کے فاصلے پر پستول تانے کھڑا تھا۔ ہم لوگ بالکل خاموش تھے۔ میں تو کلمہ پڑھ رہا تھا یقیناً میرے ساتھی بھی کلمہ پڑھ رہے ہوں گے، کیونکہ وہ بظاہر بہت اشتعال میں نظر آرہے تھے اور ان سے کچھ بھی بعید نہیں تھا۔۔ ابھی ہم کھڑے ہی تھے کہ دونوں نے اندر ٹینٹ میں سے اپنے ساتھی کو آواز دی کہ ادھر آؤ ذرا۔ یقیناً انہوں نے انکل کی لاش کو دیکھ لیا ہوگا“
فیضان سمیع نے بتایا ”کوئی دس پندرہ منٹ تک ہم اس مقام پر خاموش کھڑے رہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ دوبارہ آ جائیں۔ جس کے کچھ دیر بعد ہمارے گھوڑوں والے آئے اور انہوں نے ہمیں آوازیں دینا شروع کر دیں، جس پر ہم آگے روانہ ہوئے۔ گھوڑے والوں کی مدد سے انکل کی لاش کو سنبھالا۔ اس موقع پر بارش بھی ہو رہی تھی لاش کو ہم نے ٹینٹ کے ساتھ ہی لپیٹ دیا تھا“
ان کا کہنا تھا ”اس موقع پر گھوڑوں والوں نے بھی لاش کے ساتھ رکنے سے انکار کر دیا تھا۔ جس کے بعد ہم سب لوگوں نے لاش کو اللہ حوالے کر کے رات کے اندھیرے میں مدد کی تلاش کے لیے نکل کھڑے ہوئے۔ ہمیں جہاں بھی کوئی ٹینٹ کی روشنی نظر آتی تو ہم مدد کے لیے پکارتے مگر کوئی بھی مدد نہیں دے رہا تھا“
فیضان سمیع کا کہنا تھا ”کوئی اڑھائی تین گھنٹے چلنے کے بعد ہم لوگ ایک چرواہوں کی بستی میں پہنچے، جہاں پر ٹینٹ لگے ہوئے تھے۔ یہ رات کے دو سے زائد بج چکے تھے۔ اس بستی میں جب ہم نے آوازیں دیں تو وہ لوگ باہر نکل آئے۔ اس موقع پر ان کے بڑے انار گل نے ہماری بات سنی تو انہوں نے کہا کہ ‘کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ ہم لوگ آپ کی مدد کریں گے۔‘
فیضان سمیع کہتے ہیں ”انار گل نے ہمیں ایک ٹینٹ میں بٹھا دیا تھا۔ اس موقع پر انہوں نے ہمیں گرم چائے پلانے کے علاوہ گرم بستر فراہم کیے۔ اپنے قبیلے کے پندرہ بیس لڑکوں کو اکٹھا کیا اور ہمارے گھوڑوں والوں سے کہا کہ ان کے قبیلے والوں کے ساتھ جا کر لاش کو نیچے لاؤ“
فیضان سمیع مزید کہتے ہیں ”لاش کو انار گل کے قبیلے والوں اور گھوڑوں والوں نے اپنے کندھوں، گھوڑوں پر رکھ کر انتہائی مشقت کے بعد صبح تقریباً آٹھ بجے کے قریب نیچے پہنچایا۔ اس سے پہلے ہی انار گل نے موٹر سائیکل دے کر اپنے قبیلے کے ایک لڑکے کو جل کھڈ پولیس چوکی بھجوا دیا تھا“
وہ بتاتے ہیں ”انکل کی لاش اسلام آباد پہنچی تو ان کے سینکڑوں شاگرد اس کو ریسیو کرنے کے لیے موجود تھے۔‘
واضح رہے کہ مقتول اسلام آباد کے ایک اسکول سے بحیثیت پرنسپل ریٹائر ہوئے تھے
فیضان سمیع کہتے ہیں ”ہمارا جب ٹریکنگ کا پروگرام بنا تو مدثر حسین نے کہا کہ ’ان کے سُسر چاہتے ہیں کہ وہ بھی اس میں ہمارے ساتھ شامل ہو جائیں‘ جس پر ہم نے کہا کہ ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے۔ جس کے بعد ہم نے جمعہ کے روز اپنے سفر کا آغاز کیا تھا“
ان کا کہنا تھا ”ہم سب دوست مل کر اخراجات برداشت کرتے تھے۔ انکل نے بھی اپنے حصے کے پیسے اصرار کر کے ادا کیے تھے۔ میں اس سے پہلے بھی انکل کو جانتا تھا۔ مدثر حسین کی وجہ سے ان کے ساتھ ملاقاتیں تھیں۔ میں نے ان کو ہمیشہ انتہائی انسان دوست پایا تھا“
فیضان سمیع نے بتایا ”جب ہمارا سفر شروع ہوا تو اس موقع پر ہمیں ایک مرتبہ بھی محسوس نہیں ہوا کہ ہم لوگ یہ سفر ایک چوہتر پچھتر سالہ بزرگ کے ساتھ کر رہے ہیں۔ اگر ہم لوگ ٹینٹ لگا رہے ہوتے تو وہ بھی مدد کر رہے ہوتے تھے۔ جب ہم لوگ ہائیکنگ کر رہے ہوتے تو وہ ہم سے آگے ہوتے تھے“