پاکستان میں گاڑیاں تیار کرنے والی دو بڑی کمپنیوں ٹویوٹا اور سوزوکی نے خام مال کی عدم دستیابی کے پیش نظر آئندہ ماہ سے اپنے پلانٹس جزوی طور پر بند کرنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے
چند کمپنیوں کی جانب سے نئی گاڑیوں کی بکنگ بند کر دی گئی ہے جبکہ پہلے سے بُک کی گئی گاڑیوں کی صارفین کو ڈیلیوری میں بھی کافی مشکلات پیش آ رہی ہیں
برطانوی خبر رساں ایجنسی روئٹرز نے اپنی ایک رپورٹ میں ٹویوٹا اور سوزوکی کے حکام کے حوالے سے بتایا ہے کہ یہ فیصلہ درآمدی پابندیوں اور شرح مبادلہ میں اتار چڑھاؤ کی وجہ سے خام مال کی عدم دستیابی کے پیش نظر کیا گیا ہے
واضح رہے کہ حکومت نے حالیہ ہفتوں میں تیزی سے کم ہوتے غیرملکی ذخائر، روپے کی قدر میں کمی اور بڑھتے ہوئے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کی وجہ سے درآمدات کو روکنے کے اقدامات کیے ہیں، جس سے اپنی مصنوعات کو مکمل تیار کرنے کے لیے درآمدات پر انحصار کرنے والی صنعتیں متاثر ہوئی ہیں
مذکورہ کمپنیوں کے حکام کا کہنا ہے کہ مرکزی بینک نے قرضوں کی منظوری میں تاخیر کی ہے، جس سے ان کی سامان درآمد کرنے کی صلاحیت متاثر ہوئی ہے
پاکستان میں ٹویوٹا گاڑیاں بنانے والی انڈس موٹر کمپنی لمیٹڈ کے چیف ایگزیکٹیو علی اصغر نے روئٹرز کو بتایا ”اگلے ماہ کام کرنے کے دس دن ہوں گے، وہ بھی صرف اس صورت میں کہ جب مرکزی بینک ہمیں اپنے وعدے کی بنیاد پر لیٹر آف کریڈٹ کھولنے کی اجازت دیتا ہے“
انہوں نے کہا ”کمپنی ان صارفین کو رقم واپس کرنے کی پیشکش کر رہی ہے، جنہیں گاڑیوں کی فراہمی میں تاخیر کا سامنا ہے۔ ڈیلیوری میں کم سے کم تین ماہ کی تاخیر ہو سکتی ہے اور قیمتوں پر نظر ثانی کی جائے گی کیونکہ ملک کے پاس ڈالر دستیاب نہیں ہیں“
اس طرح ٹویوٹا انڈس موٹرز نے اس سلسلے میں باضابطہ طور پر صارفین سے کہا ہے کہ وہ اگر چاہیں تو ایڈوانس کی مد میں جمع کروائی گئی رقم بغیر کسی کٹوتی کے واپس لے سکتے ہیں
سوزوکی گاڑیوں کو مقامی طور پر اسمبل کرنے ولی کمپنی پاک سوزوکی موٹرز کے تعلقات عامہ کے سربراہ شفیق اے شیخ کہتے ہیں ”پابندیوں نے بندرگاہوں سے درآمدی کنسائنمنٹس کی کلیئرنس پر منفی اثر ڈالا ہے۔ خام مال کی عدم دستیابی کے نتیجے میں اگست میں پلانٹ بند ہو سکتا ہے۔ جبکہ اگر یہی صورتحال رہی تو اگست 2022 سے ان کے لیے بڑے مسائل ہوں گے“
گاڑیاں بنانے والی کمپنیوں کی جانب سے جولائی کے مہینے میں پیداوار کم کرنے کے بعد اب اگست میں پیداوار مزید کم کرنے کے اعلانات سے صارفین کو گاڑیوں کی ڈیلیوری میں مزید تاخیر ہوگی، جس کے باعث وہ صارفین پریشان ہیں جنھوں نے ایڈوانس رقم بھی جمع کروائی ہوئی ہے
کار ڈیلرز کے مطابق ٹویوٹا انڈس موٹرز، پاک سوزوکی کی جانب سے مزید بکنگ نہ کرنے کا کہا گیا ہے، کِیا موٹرز میں تھوڑا سا مسئلہ ہوا تاہم زیادہ نہیں جبکہ ہونڈا موٹرز کی جانب سے بکنگ بند نہیں کی گئی ہے
کم پیداوار کی وجہ کیا ہے؟
کاریں بنانے والی کمپنیوں نے گذشتہ ہفتے پارلیمان کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کو بتایا تھا کہ ملک میں گاڑیاں بنانے والی کمپنیوں کی جانب سے صارفین سے ڈیڑھ ارب روپے لیے گئے ہیں، جو بکنگ کے لیے دی گئی ایڈوانس رقم کی مد میں ہیں۔ کمیٹی کی جانب سے گاڑیوں کی فراہمی میں تاخیر پر برہمی کا اظہار کیا گیا اور آڈیٹر جنرل آف پاکستان سے کمپنیوں کے مالی حسابات کے بارے میں تفصیلات بھی مانگی گئیں
کمپنیوں کی جانب سے گاڑیوں کی ڈیلیوری میں تاخیر کی جو وجوہات بتائی گئیں، ان میں ڈالر کی بڑھتی قیمت کے باعث گاڑیاں تیار کرنے کے لیے پارٹس کی درآمد میں مشکل سرِفہرست ہے
کمپنیوں کے مطابق پارٹس کا بڑا حصہ بیرون ملک سے منگوایا جاتا ہے اور عدم دستیابی کی وجہ سے پیداواری سرگرمی متاثر ہو رہی ہے اور گاڑیوں کی تیاری ممکن نہیں جس کی وجہ سے صارفین کو گاڑیوں کی ڈیلیوری میں تاخیر ہو گی
واضح رہے کہ 30 جون کو ختم ہونے والے مالی سال میں ملک میں تیار ہونے والی گاڑیوں کی فروخت میں اس سے پچھلے سال کے مقابلے میں 54 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا اور ملک میں مجموعی طور پر تقریباً دو لاکھ 80 ہزار چھوٹی بڑی گاڑیاں فروخت ہوئیں
دوسری جانب ملک میں گاڑیوں کی قیمت میں بھی بے پناہ اضافہ دیکھا گیا جس کی وجہ کار کمپنیوں کی جانب سے ڈالر کی قیمت میں ہونے والے اضافے کو قرار دیا جاتا ہے
گاڑیاں تیار کرنے والی کمپنی ٹویوٹا انڈس موٹرز کے تحریری مؤقف کے مطابق اسٹیٹ بینک اُنہیں اپنی ضرورت کا صرف 35 سے 40 فیصد ڈالر دینے کی اجازت دے رہا ہے جو پارٹس کی درآمد کے لیے چاہییں جس کی وجہ سے اُنھوں نے اسی تناسب سے اپنی پیداوار کم کر دی ہے
پاک سوزوکی موٹرز کے ترجمان شفیق اے شیخ نے اس سلسلے میں بتایا کہ بینکوں کی جانب سے درآمد کے لیے ایل سی نہیں کھولی جا رہی ہے جو ’سی کے ڈی‘ کٹس کے لیے ضرورت ہے
واضح رہے کہ اس وقت پاکستان میں ڈالر کی قیمت ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر موجود ہے اور ایک ڈالر کی قیمت 236 روپے سے زیادہ ہے
اس وقت درآمد کے لیے کھولی جانے والی ایل سی 240 روپے فی ڈالر سے اوپر سیٹل ہو رہی ہے اور ملک میں ڈالر کی بیرون ذرائع سے کم آمد کی وجہ سے درآمدات کے لیے ایل سی کھولنے میں مشکلات پیش آ رہی ہیں جس کا شکار آٹو سیکٹر میں کام کرنے والی کمپنیوں کا بھی ہے کیونکہ بڑھتے ہوئے درآمدی بل کی وجہ سے ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر پر بہت زیادہ دباؤ موجود ہے
آٹو سیکٹر کے ماہر مشہود علی خان نے بتایا کہ ملک میں ڈالر کی کمی اس وقت اصل میں سے بڑا مسئلہ ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ گاڑیوں کی تیاری میں استعمال ہونے والا خام مال اور سپیئر پارٹس زیادہ تر بیرون ملک سے منگوائے جاتے ہیں تو ایسی صورت میں جب بینک ایل سی نہیں کھولیں گے تو لازمی طور پر پیداوار متاثر ہوگی
اُنہوں نے کہا کہ صورتحال اس وقت گھمبیر ہے جس کی ایک ہی وجہ ہے کہ ملک میں ڈالر کی کمی ہے جس کے لیے پالیسی سازوں کو مل کر سوچنا ہو گا۔ اُنھوں نے کہا کہ سٹیٹ بینک کی جانب سے سی کے ڈی کٹ کی درآمد کے قواعد و ضوابط میں سختی کی وجہ سے بھی مسائل بڑھے ہیں
صارفین کیسے متاثر ہوں گے؟
ٹویوٹا انڈس نے اس سلسلے میں کہا کہ ایسے صارفین جن کی جانب سے گاڑیاں بک کروائی گئی تھیں، وہ ان کی ڈیلیوری کا تقاضا کر رہے ہیں۔ اُنھوں نے کہا کہ کمپنی کیونکہ کار ڈیلیور نہیں کر سکتی، اس لیے اُنھوں نے ایسے صارفین کو کہا ہے کہ یا تو وہ تین سے چار مہینے انتظار کریں یا پھر اپنی رقم واپس لے لیں
پاک سوزوکی نے اس سلسلے میں بتایا کہ کمپنی کی جانب سے جون 2022 تک بک کروائی جانے والی گاڑیوں کی ڈیلیوری کے لیے کوشش کی جا رہی ہے
حکومتی ادارے انجینیئرنگ ڈویلپمنٹ بورڈ کے ترجمان عاصم ایاز نے بتایا کہ پاکستان کی آٹو پالیسی کے تحت اگر کمپنیاں بکنگ کے 60 دن بعد گاڑی ڈیلیور نہیں کرتیں تو اُنھیں جرمانہ ادا کرنا ہوتا ہے جو صارف کی ادا کردہ ایڈوانس رقم مارک اپ کے ساتھ ہوتا ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ موجودہ حالات میں بھی اُنھیں یہی جرمانہ ادا کرنا ہو گا۔