رحمان کے جوتے

راجندر سنگھ بیدی

دن بھر کام کرنے کے بعد، جب بوڑھا رحمان گھر پہنچا تو بھوک اسے بہت ستا رہی تھی۔ ”جینا کی ماں، جینا کی ماں۔۔۔!“ اس نے چلاتے ہوئے کہا۔۔۔ ”کھانا نکال دے بس جھٹ سے۔۔۔“

بڑھیا اس وقت اپنے ہاتھ کپڑوں لتوں میں گیلے کیے بیٹھی تھی اور پیشتر اس کے کہ وہ اپنے ہاتھ پونچھ لے، رحمان نے ایک دم اپنے جوتے کھاٹ کے نیچے اتار دیے، اور کھدر کے ملتانی تہمد کو زانوؤں میں دبا، کھاٹ پر چوکڑی جماتے ہوئے بولا ”بسم اللہ!“

بڑھاپے میں بھوک جوان ہو جاتی ہے۔ رحمان کا بسم اللہ بڑھاپے اور جوانی کی اس دوڑ میں رکابی سے بہت پہلے اور بہت دور نکل گیا تھا اور ابھی تک بڑھیا نے سجی اور نیل میں بھگوئے ہوئے ہاتھ دوپٹے سے نہیں پونچھے تھے۔ جینا کی ماں برابر چالیس سال سے اپنے ہاتھ دوپٹے سے پونچھتی آئی تھی اور رحمان قریب قریب اتنے ہی عرصے سے خفا ہوتا آیا تھا، لیکن آج یک لخت وہ خود بھی اس وقت بچانے والی عادت کو سراہنے لگا تھا۔ رحمان بولا، ”جینا کی ماں، جلدی ذرا۔۔۔“ اور بڑھیا اپنی چوالیس سالہ، دقیانوسی ادا سے بولی۔ ”آئے ہائے، ذرا دم تو لے بابا تُو!“

سوء اتفاق، رحمان کی نگاہ اپنے جوتوں پر جا تھمی، جو اس نے جلدی سے کھاٹ کے نیچے اتار دیئے تھے۔ رحمان کا ایک جوتا دوسرے جوتے پر چڑھ گیا تھا۔ یہ مستقبل قریب میں کسی سفر پر جانے کی علامت تھی۔ رحمان نے ہنستے ہوئے کہا، ’’آج پھر میرا جوتا جوتے پر چڑھ رہا ہے، جینا کی ماں۔۔۔ اللہ جانے میں نے کون سے سفر پہ جانا ہے۔‘‘

”جینا کو ملنے جانا ہے اور کہاں جانا ہے۔۔؟“ بڑھیا بولی ”یونہی تو نہیں تیرے گودڑ دھو رہی ہوں، بڈھے! دو پیسے ڈبل کا تو نیل ہی لگ گیا ہے تمہارے کپڑن کو۔ کیا تو دو پیسے روج کی کمائی بھی کرے ہے؟“

”ہاں ہاں!“ بڈھے رحمان نے سر ہلاتے ہوئے کہا۔ ”کل میں نے اپنی اکلوتی بچی کو ملنے انبالے جانا ہے۔ تبھی تو یہ جوتا جوتے سے نیارا نہیں ہوتا۔“

پارسال بھی جب یہ جوتا جوتے پر چڑھ گیا تھا، تو رحمان کو پرچی ڈالنے کے لیے ضلع کچہری جانا پڑا تھا۔ اس کے ذہن میں اس سال کا سفر اور جوتوں کی کرتوت اچھی طرح سے محفوظ تھی۔ ضلع سے واپسی پر اسے پیدل ہی آنا پڑا تھا، کیونکہ ہونے والے ممبر نے تو واپسی پر اس کا کرایہ بھی نہیں دیا تھا۔ اس میں ممبر کا قصور نہ تھا، بلکہ جب رحمان پرچی پر نیلی چرخی کا نشان ڈالنے لگا تھا تو اس کے ہاتھ کانپ رہے تھے اور اس نے گھبرا کر پرچی کسی دوسرے ممبر کے حق میں دے دی تھی

جینا کو ملے دو سال ہونے کو آئے تھے۔ جینا انبالے میں بیاہی ہوئی تھی۔ ان دو سالوں میں آخری چند ماہ رحمان نے بڑی مشکل سے گزارے تھے۔ اسے یہی محسوس ہوتا تھا جیسے کوئی دھکتا ہوا اپلا اس کے دل پر رکھا ہوا ہے۔ جب اسے جینا کو ملنے کا خیال آتا تو اسے کچھ سکون، کچھ اطمینان میسر ہوتا۔ جب ملنے کا خیال ہی اس قدر تسکین دہ تھا تو ملنا کیسا ہوگا؟۔۔۔ بڈھا رحمان بڑی حیرت سے سوچتا تھا۔ وہ اپنی لاڈلی بیٹی کو ملے گا اور پھر تلنگوں کے سردار علی محمد کو۔ پہلے تو وہ رو دے گا۔ پھر ہنس دے گا، پھر رو دے گا اور اپنے ننھے نواسے کو لے کر گلیوں، بازاروں میں کھلاتا پھرے گا۔۔۔

”یہ تو میں بھول ہی گیا تھا، جینا کی ماں!“ رحمان نے کھاٹ کی ایک کھلی ہوئی رسی کو عادتا گھسا کر کاٹتے ہوئے کہا۔۔۔ ”بڑھاپے میں یادداش کتنی کمجور ہو جاتی ہے“

علی محمد، جینا کا خاوند، ایک وجیہ جوان تھا۔ سپاہی سے ترقی کرتے کرتے وہ نائیک بن گیا تھا۔ تلنگے اسے اپنا سردار کہتے تھے۔ صلح کے دنوں میں علی محمد بڑے جوش و خروش سے ہاکی کھیلا کرتا تھا۔ این۔ ڈبلیو۔ آر، پولیس مین، برگیڈ والے، یونیورسٹی والے اس نے سب ہرا دیے تھے۔ اب تو وہ اپنی ایمٹی کے ساتھ بصرے جانے والا تھا، کیونکہ عراق میں رشید علی بہت طاقت پکڑ چکا تھا۔۔۔ اس ہاکی کی بدولت ہی علی محمد کمپنی کمانڈر کی نگاہوں میں اونچا اٹھ گیا تھا۔ نائیک بننے سے پہلے وہ جینا سے بہت اچھا سلوک کرتا تھا، لیکن اس کے بعد وہ اپنی ہی نظروں میں اتنا بلند ہو گیا تھا کہ جینا اسے پانو تلے نظر نہ آتی تھی۔ اس کی ایک اور وجہ بھی تھی۔ مسز ہولٹ، کمپنی کمانڈر کی بیوی نے تقسیم انعامات کے وقت انگریزی میں علی محمد سے کچھ کہا تھا، جس کا ترجمہ صوبیدار نے کیا تھا۔۔۔ ”میں چاہتی ہوں تمہاری اسٹک چوم لوں۔“ علی محمد کا خیال تھا، لفظ اسٹک نہیں ہوگا، کچھ اور ہوگا۔ بڑا حاسد ہے صوبیدار۔ انگریزی بھی تو بس گوہانے تک ہی جانتا ہے

رحمان کو یوں محسوس ہونے لگا جیسے اسے اپنے داماد سے نہیں بلکہ کسی بہت بڑے افسر سے ملنے جانا ہے۔ اس نے کھاٹ پر سے جھک کر جوتے پر سے جوتا اتار دیا، گویا وہ انبالے جانے سے گھبراتا ہو۔ اس عرصے میں جینا کی ماں کھانا لے آئی۔ آج اس نے خلاف معمول گائے کا گوشت پکا رکھا تھا۔ جینا کی ماں نے گوشت بڑی مشکل سے قصبے سے منگوایا تھا اور اس میں گھی اچھی طرح سے چھوڑا تھا۔ چھ ماہ پہلے رحمان کو تلی کی سخت شکایت تھی، اس لیے وہ تمام مولدات سودا، گڑ ، تیل، بینگن، مسور کی دال، گائے کے گوشت اور چکنی غذا سے پرہیز کرتا تھا۔ اس چھ ماہ کے عرصے میں رحمان نے شاید سیر کے قریب نوشادر چھاچھ کے ساتھ گھول کر پی لیا تھا، تب کہیں اس کے سانس کی تکلیف دور ہوئی تھی۔ بھوک لگنے کے علاوہ اس کے پیشاب کی سیاہی سپیدی میں بدلی تھی، لیکن اس کی گردن بدستور پتلی تھی۔ آنکھوں میں گدلاہٹ اور تیرگی ویسے ہی نمایاں تھی۔ پلکوں پر کی بھربھراہٹ بھی قائم تھی اور جلد کا رنگ سیاہی مائل نیلگوں ہو گیا تھا۔ گائے کا گوشت دیکھ کر رحمان خفا ہو گیا۔ بولا ”چار پانچ روز ہوئے تو نے بینگن پکائے تھے۔ جب میں چپ رہا۔ پرسوں مسور کی دال پکائی، جب بھی چپ رہا۔ تو تو بس چاہتی ہے کہ میں بولوں ہی نہیں۔۔۔ مری مٹی کا ہو رہوں۔ سچ کہتا ہوں تو مجھے مارنے پہ تلی ہوئی ہے۔ جینا کی ماں!“

بڑھیا پہلے روز سے ہی، جب اس نے بینگن پکائے تھے، رحمان کی طرف سے اس احتجاج کی متوقع تھی۔ لیکن رحمان کی خاموشی سے بڑھیا نے الٹا ہی مطلب لے لیا۔ دراصل بڑھیا نے قریب قریب ایک نکھٹو آدمی کے لیے اپنا ذائقہ بھی ترک کر ڈالا تھا۔ بڑھیا کا سوچنے کا ڈھب بھی نیارا تھا۔ جب سے وہ پیٹ بڑھے ہوئے اس ڈھانچ کے ساتھ وابستہ ہوئی تھی،اس نے سکھ ہی کیا پایا تھا۔ بھلا چنگا رحمان لدھیانے میں سپاہی تھا، لیکن ایک تربوز پر سے پھسل کر گھٹنا توڑ بیٹھنے سے اس نے پنشن پالی تھی اور گھر میں بیٹھ رہا تھا۔ بڑھیا نے کپڑے چھانٹتے ہوئے کہا ”تو نہ کھا بابا۔۔۔ تیری کھاطر میں تو نا مروں، مجھے تو روج دال، روج دال میں کچھ مجا نہیں دکھے۔“

رحمان کا جی چاہتا تھا کہ وہ کھاٹ کے نیچے سے جوتا اٹھا لے اور اس بڑھیا کی چندیا پر سے رہے سہے بالوں کا بھی صفایا کر دے۔ سر کی پشم کے اترتے ہی بڑھیا کا دائمی نزلہ دور ہو جائے گا۔ لیکن چند ہی لقمے منھ میں ڈالنے کے فورا بعد ہی اسے خیال آیا۔تلی ہوتی ہے تو ہوتی رہے۔ کتنا ذائقے دار گوشت پکایا ہے میری جینا کی ماں نے۔ میں تو ناشکرا ہوں پورا پورا، اور رحمان چٹخارے لے لے کر ترکاری کھانے لگا۔ سالن کا تر کیا ہوا لقمہ جب اس کے منھ میں جاتا تو اسے خیال آتا، آخر اس نے جینا کی ماں کو کون سا سکھ دیا ہے؟ وہ چاہتا تھا کہ اب تحصیل میں چپراسی ہو جائے اور پھر اس کے پرانے دن واپس آ جائیں

کھانے کے بعد رحمان نے اپنی انگلیاں پگڑی کے شملے سے پونچھیں اور اٹھ کھڑا ہوا۔ کسی نیم شعوری احساس سے اس نے اپنے جوتے اٹھائے اور انھیں دالان میں ایک دوسرے سے اچھی طرح علاحدہ علاحدہ کر کے ڈال دیا

لیکن اس سفر سے چھٹکارا نہیں تھا۔ ہرچند کہ اپنی آٹھ روزہ مکی میں نلائی لازمی تھی۔ صبح دالان میں جھاڑو دیتے ہوئے بڑھیا نے بے احتیاطی سے رحمان کے جوتے سر کا دیے اور جوتے کی ایڑی دوسری ایڑی پر چڑھ گئی۔ شام کے قریب ارادے پست ہو جاتے ہیں۔ سونے سے پہلے انبالے جانے کا خیال رحمان کے دل میں کچا پکا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ ترائی میں نلائی کر چکنے کے بعد ہی وہ کہیں جائے گا، اور نیز کل کی مرغن غذا سے اس کے پیٹ میں پھر کوئی نقص واقع ہو گیا تھا۔ لیکن صبح جب اس نے پھر جوتوں کی وہی حالت دیکھی تو اس نے سوچا اب انبالے جائے بنا چھٹکارا نہیں ہے۔ میں لاکھ انکار کروں ،لیکن میرا دانہ پانی، میرے جوتے بڑے پر دین ہیں۔ وہ مجھے سفر پہ جانے کے لیے مجبور کرتے ہیں۔ اس وقت صبح کے سات بجے تھے اور صبح کے وقت ارادے بلند ہو جاتے ہیں۔ رحمان نے پھر اپنا جوتا سیدھا کیا اور اپنے کپڑوں کی دیکھ بھال کرنے لگا

نیل میں دھلے ہوئے کپڑے سوکھ کر رات ہی رات میں کیسے اجلے ہو گئے تھے۔ نیلاہٹ نے اپنے آپ کو کھو کر سپیدی کو کتنا ابھار دیا تھا۔ جب کبھی بڑھیا نیل کے بغیر کپڑے دھوتی تھی تو یونہی دکھائی دیتا تھا، جیسے ابھی انہیں جوہڑ کے پانی سے نکالا گیا ہو اور پانی کی مٹیالی رنگت ان میں یوں بس گئی ہو جیسے پاگل کے دماغ میں واہمہ بس جاتا ہے

جینا کی ماں اوکھلی میں متواتر دو تین دن سے جو کوٹ کر تندل بنا رہی تھی۔ گھر میں عرصہ سے پرانا گڑ پڑا تھا، جسے دھوپ میں رکھ کر کیڑے نکال دیے گئے تھے۔ اس کے علاوہ سوکھی مکی کے بھٹے تھے۔ گویا جینا کی ماں بہت دنوں سے اس سفر کی تیاری کر رہی تھی اور جوتے کا جوتے پر چڑھنا تو محض اس کی تصدیق تھی۔ بڑھیا کا خیال تھا کہ ان تندلوں میں سے رحمان کا زاد راہ بھی ہو جائے گا اور بیٹی کے لیے سوغات بھی

رحمان کو کوئی خیال آیا۔ بولا ’’جینا کی ماں بھلا کیا نام رکھا ہے انہوں نے اپنے ننھے کا؟‘‘

بڑھیا ہنستے ہوئے بولی، ’’ساہق (اسحاق) رکھا ہے نام، اور کیا رکھا ہے نام انہوں نے اپنے ننھے کا۔۔ واہ! سچ مچ کتنی کمجور ہے تیری یادداش۔۔‘‘

اسحاق کا نام بھلا رحمان کیسے یاد رکھ سکتا تھا۔ جب وہ خود بھی ننھا تھا تو اس کے دادا کو بھی رحمان کا نام بھول گیا تھا۔ دادا کھاتا پیتا آدمی تھا، اس نے چاندی کی ایک تختی پر عربی لفظوں میں رحمان لکھوا کر اسے اپنے پوتے کے گلے میں ڈال دیا تھا۔ لیکن پڑھنا کسے آتا تھا۔ بس وہ تختی کو دیکھ کر ہنس دیا کرتا تھا۔ ان دنوں تو نام گاموں شیرا، فتو، فجا وغیرہ ہی ہوتے تھے۔ اسحاق، شعیب وغیرہ نام تو اب قصباتی لوگوں نے رکھنے شروع کر دیے تھے۔ رحمان سوچنے لگا۔۔۔ ساہق اب تو ڈیڑھ برس کا ہو چکا ہوگا۔ اب اس کا سر بھی نہیں جھولتا ہوگا۔ وہ گردن اٹھا میری طرف ٹک ٹک دیکھتا جائے گا اور اپنے ننھے سے دل میں سوچے گا، اللہ جانے یہ بابا، چٹے بالوں والا بوڑھا ہمارے ہاں کہاں سے آ ٹپکا۔ وہ نہیں جانے گا کہ اس کا اپنا بابا ہے، اپنا نانا، جس کے گوشت پوست سے وہ خود بھی بنا ہے۔ وہ چپکے سے اپنا منھ جینا کی گود میں چھپا لے گا۔ میرا جی چاہے گا جینا کو بھی اپنی گودی میں اٹھا لوں۔ لیکن جوان بیٹیوں کو کون گودی میں اٹھاتا ہے۔۔۔ ناحق اتنی بڑی ہو گئی جینا۔ بچپن میں وہ جب کھیل کود کر باہر سے آتی تھی تو اسے سینے سے لگا لینے سے کتنی ٹھنڈ پڑ جاتی تھی۔ ان دنوں یہ دل پر سلگتا ہوا اپلا رکھا نہیں محسوس ہوتا تھا۔۔۔ اب وہ صرف اسے دور سے ہی دیکھ سکے گا۔ اس کا سر پیار سے چوم لے گا۔۔۔ اور۔۔۔ کیا وہی تسکین حاصل ہوگی؟

رحمان کو اس بات کا تو یقین تھا کہ وہ ان سب کو دیکھ کر بے اختیار رو دے گا۔ وہ آنسو تھامنے کی لاکھ کوشش کرے گا، لیکن وہ آپی آپ چلے آئیں گے۔ وہ اس لیے نہیں بہیں گے کہ تلنگا اس کی بیٹی کو پیٹتا ہے۔ بلکہ زبان کے طویل قصوں کی بجائے، آنکھوں سے اس بات کا اظہار کر دے گا کہ جینا، میری بیٹی، تیرے پیچھے میں نے بہت کڑے دن دیکھے ہیں۔ جب چودھری خوشحال نے مجھے مارا تھا تو اس وقت میری کمر بالکل ٹوٹ گئی تھی۔ میں مر ہی تو چلا تھا۔ پھر تو کہاں دیکھتی اپنے ابے کو؟ لیکن بن آئی کوئی نہیں مرتا۔ شاید میں تمھارے یا ساہقے یا کسی اور نیک بخت کے پانو کی خیرات، بچ رہا۔۔۔ اور کیا ننھے کا لہو جوش مارنے سے رہ جائے گا؟ وہ ہمک کر چلا آئے گا میرے پاس، اور میں کہوں گا۔ ساہق بیٹا، دیکھ میں تیرے لیے لایا ہوں تندل، اور گڑ، اور کھلونے اور۔۔۔ بہت کچھ لایا ہوں۔ ہاں، گانو کے لوگوں کا یہی گریبی دعویٰ ہوتا ہے۔ ننھا مشکل سے دانتوں میں پپول سکے گا کسی ہرے بھٹے کو، اور جب تلنگے سے میری تو تو مَیں مَیں ہو گی تو میں اسے خوب کھری کھری سناؤں گا۔ بڑا سمجھتا ہے اپنے آپ کو۔ کل کی گلہری اور۔۔۔ اور۔۔۔ وہ ناراض ہو جائے گا۔ کہے گا، گھر رکھو اپنی بیٹی کو ۔۔۔ پھر میں اس کے بیٹے کو اٹھائے پھروں گا۔ گلی گلی ، بازار بازار۔۔۔ اور من جائے گا تلنگا

رحمان نے نلائی کا بندوبست کیا۔ کھڑی کھیتی کی قسم پر کچھ روپئے ادھار لیے۔ سوغات باندھی۔ زاد راہ بھی، اور یکے پر پانو رکھ دیا۔ بڑھیا نے اسے اللہ کے حوالے کرتے ہوئے کہا ’’بصرے چلا جائے گا علیا چند روج میں۔ میری جینا کو ساتھ ہی لیتے آنا اور میرے ساہقے کو، کون جانے کب دم نکل جائے!‘‘

ملکہ رانی سے مانک پور پہنچتے پہنچتے رحمان نے اسحاق کے لیے بہت سی چیزیں خرید لیں۔ ایک چھوٹا سا شیشہ تھا۔ ایک سیلو لائیڈ کا جاپانی جھنجھنا جس میں نصف درجن کے قریب گھنگھرو ایک دم بج اٹھتے تھے۔ مانک پور سے رحمان نے ایک چھوٹا سا گڈیرا بھی خرید لیا تاکہ اسحاق اسے پکڑ کر چلنا سیکھ جائے۔ کبھی رحمان کہتا اللہ کرے، اسحاق کے دانت اس قابل ہوں کہ وہ بھٹے کھا سکے۔ پھر ایک دم اس کی خواہش ہوتی کہ وہ اتنا چھوٹا ہو کہ چلنا بھی نہ سیکھا ہو اور جینا کی پڑوسنیں جینا کو کہیں۔۔۔ ننھے نے تو اپنے نانا کے گڈیرے پر چلنا سیکھا ہے اور رحمان نہیں جانتا تھا کہ وہ ننھے کو بڑا دیکھنا چاہتا ہے یا بڑے کو ننھا۔ صرف اس کی خواہش تھی کہ اس کے تندل، اس کے بھٹے، اس کا شیشہ، اس کا جاپانی جھنجھنا اور باقی خریدی ہوئی چیزیں سب سپھل ہوں۔ انہیں وہ قبولیت حاصل ہو جس کا وہ متمنی ہے۔ کبھی وہ سوچتا ،کیا جینا گانو کے گنوار لوگوں کے ان تحائف کو پسند کرے گی؟ کیا ممکن وہ محض اس کا دل رکھنے کے لیے ان چیزوں کو پاکر باغ باغ ہو جائے۔ لیکن کیا وہ صرف میرا جی رکھنے کے لیے ہی ایسا کرے گی؟ پھر تو مجھے بہت دکھ ہو گا۔ کیا میرے تندل سچ مچ اسے پسند نہیں آسکتے؟ میری بیٹی کو، میری اپنی جینا کو۔ علیا تو پرایا پیٹ ہے وہ تو کچھ بھی نہیں پسند کرنے کا۔ وہ تو نائیک ہے۔ اللہ جانے، صاحب لوگوں کے ساتھ کیا کچھ کھاتا ہو گا۔ وہ کیوں پسند کرنے لگا۔ گانو کے تندل، اور مانک پور سے روانہ ہوتے ہوئے رحمان کانپنے لگا

رحمان پر جسمانی اور ذہنی تھکاوٹ کی وجہ سے غنودگی سی طاری ہو گئی۔ رات کے گوشت نے اس کے پیٹ کا شیطان جگا دیا تھا۔ آنکھوں میں گدلاہٹ اور تیرگی تو تھی ہی، لیکن کچھ سفر، کچھ مرغن غذا کی وجہ سے آنکھوں میں سے شعلے لپکنے لگے۔ رحمان نے اپنے پیٹ کو دبایا۔ تلی والی جگہ پھر ٹھس سی معلوم ہوتی تھی۔ جینا کی ماں نے ناحق گائے کا گوشت پکایا۔ لیکن اس وقت تو اسے دوپٹے سے ہاتھ پونچھنا اور گائے کا گوشت دونوں چیزیں پسند آئی تھیں

رحمان کو ایک جگہ پیشاب کی حاجت ہوئی اور اس نے دیکھا کہ اس کا قارورہ سیاہی مائل گدلا تھا۔ رحمان کو پھر وہم ہو گیا۔ بہرحال، اس نے سوچا، مجھے پرہیز کرنا چاہیے۔ پرانا مرض پھر عود کر آیا ہے

گاڑی میں، کھڑکی کی طرف سے، شمالی ہوا فراٹے بھرتی ہوئی اندر داخل ہو رہی تھی۔ درختوں کے نظر کے سامنے گھومنے، کبھی آنکھیں بند کرنے اور کھولنے سے رحمان کو گاڑی بالکل ایک پنگورے کی طرح آگے پیچھے جاتی ہوئی معلوم ہوتی تھی۔ دو تین اسٹیشن ایک اونگھ سی میں نکل گئے۔ جب وہ کرنال سے ایک دو اسٹیشن ورے ہی تھا تو اس کی آنکھ کھل گئی۔ اس کی سیٹ کے نیچے سے گٹھری اٹھا لی گئی تھی۔ صرف اس کے اپنے گزارے کے لیے تندل اور چادر کے پلو میں بندھے ہوئے مکی کے بھٹے رہ گئے تھے، یا اس کے پھیلے ہوئے پانوں میں گڈیرا کھڑا تھا

رحمان شور مچانے لگا۔ اس ڈبے میں ایک دو اچھی وضع قطع کے آدمی اخبار پڑھ رہے تھے۔ بڈھے کو یوں سیخ پا ہوتا دیکھ کر چلائے، ’’مت شور مچاؤ، اے بڈھے، مت غل کرو۔‘‘ لیکن رحمان بولتا چلا گیا۔ اس کے سامنے ایک بٹی ہوئی مونچھوں والا کانسٹیبل بیٹھا تھا۔ رحمان نے اسے پکڑ لیا اور بولا ”تو نے ہی میری گٹھڑی اٹھوائی ہے، بیٹا!“

کانسٹیبل نے ایک جھٹکے سے رحمان کو پرے پھینک دیا۔ اس کھینچا تانی میں رحمان کا دم پھول گیا۔ بابو پھر بولے۔ ”تُو سَو کیوں گیا تھا بابا؟ تو سنبھال کے رکھتا اپنی گٹھڑی کو، تیری عقل چرنے گئی تھی بابا۔۔“

رحمان اس وقت ساری دنیا کے ساتھ لڑنے کو تیار تھا۔ اس نے کانسٹیبل کی وردی پھاڑ ڈالی۔ کانسٹیبل نے گڈیرے کا لٹھا کھینچ کر رحمان کو مارا۔ اسی اثنا میں ٹکٹ چیکر داخل ہوا۔ اس نے بھی خوش پوش لوگوں کی رائے کا پلہ دیکھ کر رحمان کو گالیاں دینا شروع کیا اور رحمان کو حکم دیا کہ وہ کرنال پہنچ کر گاڑی سے اتر جائے۔ اسے ریلوے پولیس کے حوالے کیا جائے گا۔ چیکر کے ساتھ لڑائی میں ایک لات رحمان کے پیٹ میں لگی اور وہ فرش پر لیٹ گیا

کرنال آچکا تھا۔ رحمان، اس کی چادر اور گڈیرا پلیٹ فارم پر اتار دیے گئے۔ گڈیرے کی لٹھ، جسم سے علاحدہ، خون میں بھیگی ہوئی ایک طرف پڑی تھی اور مکی کے بھٹے کھلی ہوئی چادر سے نکل کر فرش پر لڑھک رہے تھے

رحمان کے پیٹ میں بہت چوٹ لگی تھی۔ اسے اسٹریچر پر ڈال کر کرنال کے ریلوے ہسپتال میں لے جایا گیا

جینا، ساہقا، علی محمد، جینا کی ماں۔۔۔ ایک ایک کر کے رحمان کی نظروں کے سامنے سے گزرنے لگے۔ زندگی کی فلم کتنی چھوٹی ہوتی ہے۔اس میں بہ مشکل تین چار آدمی اور ایک دو عورتیں ہی آسکتی ہیں۔ باقی مرد عورتیں بھی آتی ہیں، لیکن ان میں سے کچھ بھی تو یاد نہیں رہتا۔ جینا، ساہقا، علی محمد اور جینا کی ماں۔۔۔ یا کبھی کبھار انہی چند لوگوں کے لیے کشمکش کے واقعات ذہن میں تازہ ہو جاتے ہیں، مثلا گڈیرا پلیٹ فارم پر پڑا ہوا، اور مکی کے لڑھکتے ہوئے بھٹے جنہیں خلاصیوں، واچ مینوں، سگنل والوں کے آوارہ چھوکرے اٹھا اٹھا کر بھاگ رہے ہوں اور ان کے کالے کالے چہروں میں سفید دانت بالکل اسی طرح دکھائی دیں، جیسے اس تاریک سے پس منظر میں ان کی ہنسی، ان کے قہقہے۔۔۔ یا دور کوئی پولیس مین اپنی ڈائری میں چند ضروری و غیر ضروری تفاصیل لکھ رہا ہو۔۔۔

پھر لات ماری۔۔۔

ایں؟ یہ نہیں ہو سکتا۔۔۔ اچھا، پھر لات ماری۔

اور پھر۔۔۔

پھر ہسپتال کے سفید بسترے، کفن کی طرح منھ کھولے ہوئے چادریں، قبروں کی طرح چارپائیاں، عزرائیل نما نرسیں اور ڈاکٹر۔۔۔

رحمان نے دیکھا اس کی تندلوں والی چادر ہسپتال میں اس کے سرہانے پڑی تھی۔ یہ بھی وہیں چھوڑ آئے ہوتے۔ رحمان نے کہا۔ اس کی مجھے کیا ضرورت ہے؟ اس کے علاوہ رحمان کے پاس کچھ بھی نہ تھا۔ ڈاکٹر اور نرس اس کے سرہانے کھڑے ہر لحظہ لٹھے کی سفید چادر کو منھ کی جانب کھسکا دیتے تھے ۔۔۔ رحمان کو قے کی حاجت محسوس ہوئی۔ نرس نے فورا ایک چلمچی بیڈ کے نیچے سرکا دی۔ رحمان قے کرنے کے لیے جھکا اور اس نے دیکھا کہ اس نے اپنے جوتے بدستور جلدی سے چارپائی کے نیچے اتار دیے تھے اور جوتے پر جوتا چڑھ گیا تھا۔ رحمان ایک میلی سی، سکڑی ہوئی ہنسی ہنسا اور بولا۔۔۔ ”ڈاک دار جی! مجھے سفر پہ جانا ہے، آپ دیکھتے ہیں میرا جوتا جوتے پر کیسے چڑھ رہا ہے؟“

ڈاکٹر جوابا مسکرا دیا اور بولا ”ہاں بابا، تو نے بڑے لمبے سفر پہ جانا ہے، بابا۔۔۔“ پھر رحمان کے سرہانے کی چادر ٹٹولتے ہوئے بولا ”لیکن تیرا زاد راہ کتنا ناکافی ہے بابا۔۔۔“

یہی فقط تندل اور اتنا لمبا سفر۔۔۔ بس جینا، جینا کی ماں، ساہقا اور علی محمد یا وہ افسوس ناک واقعہ۔۔۔۔

رحمان نے زاد راہ پر اپنا ہاتھ رکھ دیا اور ایک بڑے لمبے سفر پہ روانہ ہو گیا۔۔۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close