عمران خان کا ’اسمبلیوں سے نکلنے کا اعلان‘ اب کیا ہوگا؟

ویب ڈیسک

پاکستان تحریکِ انصاف نے جب سے 26 نومبر کو اسلام آباد کی بجائے راولپنڈی میں اجتماع کرنے کا فیصلہ کیا تھا تو اس حوالے سے چہ مگوئیاں ہو رہی تھیں کہ عمران خان آخر اس اجتماع میں اگلا لائحہ عمل کیا دیں گے

اپنے ’حقیقی آزادی مارچ‘ کے آغاز سے قبل عمران خان نے ملک بھر میں جلسے کیے اور اس عرصے میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں اکثریت سے کامیابی بھی سمیٹی۔ عمران خان حکومت سے جلد انتخابات کا مطالبہ کر رہے ہیں

لیکن راولپنڈی پہنچ کر عمران خان نے جو کہا، وہ ن لیگ کی زیر قیادت پی ڈی ایم کی حکومت کے لیے تو سرپرائز ہے ہی، لیکن یہ سب کچھ شاید سیاسی ماہرین کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا

عمران خان نے اپنے خطاب میں کہا ’ہم نے فیصلہ کیا ہے اور ساری اسمبلیوں سے نکلنے لگے ہیں۔‘

لانگ مارچ کے شرکا سے خطاب میں انھوں نے کہا کہ ہم بجائے اپنے ملک میں توڑ پھوڑ کریں، بجائے اپنے ملک میں تباہی کے، اس سے بہتر ہے کہ ہم اس کرپٹ نظام سے باہر نکلیں اور اس سسٹم کا حصہ نہ بنیں، جدھر یہ چور بیٹھ کر ہر روز اپنے اربوں روپے کے کیسز معاف کروا رہے ہیں۔

عمران خان نے شرکا کو بتایا کہ وہ اب اسلام آباد کا رخ نہیں کر رہے ہیں کیونکہ ’جب لاکھوں لوگ اسلام آباد جائیں گے تو کوئی نہیں روک سکتا لیکن فیصلہ کررہا ہوں کہ اسلام آباد نہیں جانا کیونکہ مجھے پتا ہے اس سے تباہی مچے گی‘

’عمران خان کے پاس بظاہر واپسی کا کوئی راستہ نہیں تھا اور یہ اعلان آخری کارڈ تھا‘

خیبرپختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں نجی ٹی وی چینل آج نیوز کی بیورو چیف فرزانہ علی کا کہنا ہے ‘عمران خان کے پاس بظاہر واپسی کا کوئی رستہ نہیں تھا اور یہ اعلان آخری کارڈ تھا، جو انھوں نے کھیلا ہے۔’

عمران خان کی سیاسی چال پر تبصرہ کرتے ہوئے انگریزی روزنامہ ’دی نیشن‘ کے ایڈیٹر سلمان مسعود نے لکھا ’عمران خان نے سڑکوں پر احتجاج اور افراتفری سے ہٹ کر سیاسی چال چلنے کا فیصلہ کیا ہے

صحافی و اینکرپرسن کامران خان نے ایک ٹویٹ میں لکھا کہ ان کے خیال میں عمران خان کا اسمبلیوں سے استعفے دینے کا اعلان ان کا ’جمہوری و آئینی‘ حق ہے

انہوں نے مزید لکھا کہ ’اب فوری طور پر بہترین ٹیکنوکریٹس پر مشتمل غیر جانبدار نگراں حکومت قائم ہو۔‘

جیو نیوز سے منسلک صحافی و اینکر پرسن حامد میر نے عمران خان کے فیصلے کو وزیراعظم شہباز شریف کے لیے ایک ’سرپرائز‘ قرار دیا۔

انہوں نے مزید لکھا کہ ’یہ ایک اچھی چال ہے لیکن یہ عمران خان کا آخری کارڈ ہے۔‘

سینیئر تجزیہ کار سہیل وڑائچ کے خیال میں عمران خان کا یہ اعلان ان کی طرف سے اٹھایا گیا پہلا سنجیدہ قدم ہے۔ ان کے مطابق یہ آپشن پہلے دن سے عمران خان کے پاس موجود تھا مگر انھوں نے اس آپشن کو استعمال نہیں کیا۔ سہیل وڑائچ کی رائے میں یہ بہت ’سیریز تھریٹ‘ ہے کیونکہ بجائے اس کے کہ وہ اسمبلی واپس جائیں وہ صوبائی اسمبلیوں سے بھی استعفیٰ دے رہے ہیں

سہیل وڑائچ کے مطابق پرویز الٰہی چاہیں گے تو نہیں مگر عمران خان کے کہنے پر وہ اسمبلی تحلیل کر دیں گے کیونکہ آگے ان کا سیاسی مستقبل عمران خان کے ساتھ وابستہ ہے۔

عاصمہ شیرازی کہتی ہیں کہ اگرچہ کاغذوں میں پنجاب تحریک انصاف کے پاس ہے مگر عمران خان کو عملی طور پر ایسا لگتا ہے کہ پنجاب ان کے ہاتھ میں نہیں۔

ان کی رائے میں اسٹیبلشمنٹ کے خلاف ایک بیانیے پر عمران خان کے ساتھ آگے بڑھنا پرویزالٰہی کے لیے دُوبھر ہے۔

عاصمہ شیرازی کے خیال میں اگر اپوزیشن تحریک عدم اعتماد کے ذریعے اسمبلی گرانے میں کامیاب ہوجاتی ہے تو پھر پرویزالٰہی عمران خان کی بات مانیں گے تاہم ان کے مطابق ابھی آصف زرداری پنجاب میں تحریک انصاف کے ناراض اراکین اسمبلی سے ملاقاتیں کریں گے اور انھیں اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کریں گے۔

واضح رہے کہ پرویز الٰہی کے بیٹے مونس الٰہی نے ایک ٹویٹ کے ذریعے یہ دعویٰ کیا ہے کہ ’جس دن عمران خان نے کہا اس وقت پنجاب اسمبلی توڑ دی جائے گی۔‘

عمران خان کی جانب سے کیے گئے اعلان کے بعد سے مقامی میڈیا میں یہ بحث چھڑ گئی ہے کے آیا پرویز الٰہی اسمبلیاں توڑنے کا فیصلہ کریں گے یا نہیں۔

واضح رہ کہ عملی طور پر تحریک انصاف کی پنجاب میں صوبائی حکومت ہے جہاں کے ان کے وزرا اور مشیر موجود ہیں جبکہ مسلم لیگ ق کے اراکین کی تعداد صرف دس ہے۔

پنجاب اور خیبرپختونخوا کے علاوہ دوخطوں پاکستان کے زیرانتظام کشمیر اور گلگت بلتستان میں بھی تحریک انصاف کی حکومت ہے، جس کا وفاق پر کوئی اثر نہیں پڑتا مگر عمران خان کے تمام اسمبلیوں سے باہر نکلنے کے اعلان کا تعلق ان دو اسمبلیوں پر بھی پڑ سکتا ہے۔

اسمبلیوں سے پی ٹی آئی کے استعفوں کی صورت میں کیا ہوگا؟

اس وقت پی ٹی آئی کی پنجاب، خیبر پختونخوا، گلگت بلتستان اور پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں حکومت ہے۔
اگر عمران خان کی صوبائی وزرائے اعلٰی اور ارکان سے مشاورت کے بعد پی ٹی آئی پنجاب اور خیبر پختونخوا میں اسمبلیاں توڑ دیتی ہے تو مرکزی حکومت کے لیے انتخابات کو دیر تک روکے رکھنا مشکل ہو جائے گا

پاکستان میں روایت ہے کہ چاروں صوبائی اسمبلیوں اور قومی اسمبلی کے انتخابات ایک ساتھ ہوتے ہیں اس لیے بڑی صوبائی اسمبلیاں ٹوٹنے کی صورت میں یا تو حکومت کو وہاں علیحدہ سے نئے انتخابات کروانے پڑیں گے یا پھر قومی اسمبلی اور باقی دو صوبائی اسمبلیوں کو تحلیل کر کے جلد ایک ساتھ انتخابات کروانے ہوں گے

دونوں صورتوں میں ایک بڑا سیاسی بحران پیدا ہو جائے گا اور حکومت مشکلات کا شکار ہو جائے گی

اس لیے سیاسی تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ عمران خان کا یہ اعلان حکومت کو انتخابات کے اعلان کے لیے دباؤ میں لا سکتا ہے

موجودہ حکمران اتحاد کیا حکمت عملی اختیار کر سکتا ہے؟

حکومت میں شامل اہم شخصیات اور وزرا عمران خان سے یہ مطالبہ کرتے آئے ہیں کہ اگر عمران خان نئے انتخابات کے سلسلے میں مذاکرات کرنا چاہتے ہیں تو وہ پہلے خیبر پختونخوا اور پنجاب اسمبلی سے استعفے دیں۔ اس پر عمران خان اور ان کی جماعت سے کی طرف سے مسلسل خاموشی دیکھنے کی ملی۔

مگر بالآخر عمران خان نے یہ اعلان بھی کر دیا تاہم ابھی یہ واضح نہیں کہ عمران خان نے اسمبلیاں تحلیل کرنے کا فیصلہ کیا ہے یا پھر وہ ابھی اسمبلیوں سے استعفوں سے متعلق مشاورت کریں گے، جس طرح تحریک انصاف نے تحریک عدم اعتماد کے بعد قومی اسمبلی سے اپنا تعلق ختم کر دیا۔

تاہم ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ جہاں یہ عمران خان کا غیرمتوقع اعلان تھا وہیں یہ ان کا آخری کارڈ بھی تھا، جو انھوں نے ظاہر کر دیا۔

حکومتی اتحاد اب عمران خان کے اس کارڈ کا کیسے مقابلہ کرے گا۔ یہ جاننے سے قبل پہلے تحریک انصاف کے رہنما فواد چوہدری کے ٹویٹ پر نظر دوڑاتے ہیں کہ انھوں نے عمران خان کے اس اعلان کا کیا نقشہ پیش کھینچا ہے۔

فواد چوہدری نے اپنے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ ’تحریک انصاف کے استعفوں کے نتیجے میں قومی اسمبلی کی 123 نشستوں، پنجاب اسمبلی کی 297 نشستوں، خیبر پختونخواہ کی 115 نشستوں، سندہ اسمبلی کی 26 اور بلوچستان کی دو نشستوں یعنی کل 563 نشستوں پر عام انتخابات ہوں گے۔‘

ان کا کہنا تھا ‘عمران خان کا عوام پر اعتماد ہے کہ اپنی حکومتیں تحلیل کر کے انتخابات میں جا رہے ہیں، گھوڑا بھی ہے اور میدان بھی، انتخابات کے علاوہ کوئی اور طریقہ ملک میں سیاسی استحکام نہیں لا سکتا، آئیے انتخابات کی طرف بڑھیں’۔

پاکستان پیپلزپارٹی کے سینیئر رہنما قمر زمان کائرہ نے کہا کہ اگر عمران خان اسمبلیوں سے نکلنے کے فیصلے پر قائم رہے اور استعفے دیے تو پھر ایسے میں ہمارے پاس بھی اور آپشنز موجود ہیں

عمران خان کے اعلان پر وزیرِ داخلہ راناثنا اللہ نے ایک ٹویٹ بھی کی، جس میں انھوں نے کہا کہ ‘ممکن ہی نہیں! صوبائی اسمبلیوں میں وقت ضائع کیے بغیر کسی بھی وقت عدم اعتماد لائی جا سکتی ہے۔ نتیجتاً صوبائی اسمبلیاں تحلیل نہیں ہوں گی، قائم رہیں گی۔ صوبہ پنجاب میں حکومت قائم کرنے کے لیے واضح طور پر اپوزیشن کے پاس نمبر پورے ہیں۔’

قانونی ماہرین کیا کہتے ہیں

معروف وکیل عبدالمعیز جعفری نے کہا کہ پی ٹی آئی کا نظام سے باہر نکلنا ’جمہوری خسارے‘ کا باعث بن سکتا ہے اور قانون سازی کے عمل سے سیاسی جواز چھین سکتا ہے لیکن اس سے کوئی قانونی صورت حال پیدا نہیں ہوگی

عبدالمعیز جعفری نے بتایا کہ اہم نکتہ یہ ہے کہ پرویز الہٰی ایسا نہیں ہونے دیں گے، ان کے صاحبزادے مونس الہٰی احتساب کی وکٹ پر چل رہے ہیں اور وزیراعلیٰ کی اپنی سیاست اتنی تیزی سے تبدیل نہیں ہوسکتی کہ کسی عارضی چیز سے متاثر ہو سکے جیسا کہ گارڈز کی تبدیلی

بیرسٹر اسد رحیم نے بتایا کہ پارلیمنٹری نظام میں پی ٹی آئی کی بطور بڑی جماعت مقننہ میں جگہ ہے، جہاں پر بحث اور ریاستی قوانین کو بہتر کیا جا سکتا ہے

اسد رحیم نے بتایا کہ آئین کے آرٹیکل 107 اور 112 کے مطابق وزیر اعلیٰ کے مشورے پر گورنر صوبائی اسمبلی تحلیل کر سکتے ہیں، پنجاب اور خیبرپختونخوا میں ان کی اکثریت ہے، پی ٹی آئی نئے صوبائی الیکشن کروانے کی پوزیشن میں ہے

ان کا کہنا تھا کہ کوئی ایسی شق نہیں ہے جس کے تحت یہ مینڈیٹ دیا گیا ہو کہ عام انتخابات بھی ایک ہی وقت میں کروائے جائیں، وفاقی اور صوبائی انتخابات مختلف اوقات میں کروانا نقصان دہ ہوگا

انہوں نے اظہار خیال کیا کہ دوسری طرف، پی ٹی آئی ایک بار پھر سلسلہ وار استعفے دینے کا فیصلہ کر سکتی ہے، جو تحلیل کا مکمل عمل شروع ہونے سے کچھ عرصہ پہلے دیے جا سکتے ہیں، جس کی وجہ سے انتخابات کے اندر مزید ضمنی انتخابات کی صورت حال پیدا ہو سکتی ہے

اسد رحیم نے بتایا کہ پارلیمنٹری نظام میں حکومت لازمی طور پر اکثریت اور عوام کی مرضی کے مطابق تشکیل دی جانی چاہیے

انہوں نے کہا کہ یہ بڑی بدقسمتی ہے کہ ہمارے منتخب نمائندے جیسا کہ غیر جمہوری قوتوں کی جانب سے حوصلہ افزائی کی جاتی ہے، خود کو اتنا زیادہ پولرائزڈ پاتے ہیں کہ وہ بنیادی تصور پر عمل کرنے سے قاصر ہیں

وکیل باسل نبی ملک نے بتایا کہ پی ٹی آئی کا اقدام ایسی صورت حال پیدا کرسکتا ہے کہ جہاں چند اسمبلیوں کے انتخابات ایک وقت میں جبکہ دیگر کے کسی دوسرے وقت میں منعقد ہوں

ان کا کہنا تھا کہ ہو سکتا ہے یہ اتنا غیرمعمولی نہ ہو، جتنا کوئی سوچ سکتا ہے، یہ بات ذہن میں رکھیں کہ ماضی میں گلگت بلتستان میں انتخابات ہوچکے ہیں، جس کے لیے ضروری نہیں تھا کہ چاروں صوبوں میں بھی اسی دوران انتخابات ہوں، یہ ممکن ہے کہ علیحدہ علیحدہ وقت میں انتخابات ہوں، تاہم سیاسی دباؤ شدید ہوگا۔

باسل نبی ملک نے کہا کہ متعدد صوبائی انتخابات پاکستان کے لیے پہلے سے گرتی معیشت، استحکام اور سیاسی کشمکش کے حوالے سے دھچکا ثابت ہوں گے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close