ایک دن سرکاری دفتر میں

ڈاکٹر محمد کلیم

کسی نے ہم سے کہا تھا کہ سرکاری دفتر میں اگر کام کروانا ہو تو صبح جلدی جلدی دفتر میں پہنچیں تو کام ہو جاتا ہے۔ ہم ٹھہرے بدھو فوراً ان کی باتوں میں آ گئے اور صبح صبح دفتر جا پہنچے۔ دفتر بالکل خالی تھا حالانکہ سرکاری اوقات کے مطابق دفتر کھلے آدھ پون گھنٹہ ہو چکا تھا۔ ایک خاکروب صفائی کرتا دکھائی دیا تو ہم تیزی سے اس کے پاس جا پہنچے اور پوچھا بھیا! دفتر میں بابو کب آئیں گے تو اس نے عجیب نگاہوں سے دیکھا جیسے کہہ رہا ہو باؤلا ہوا ہے کیا اور پھر کہنے لگا آ جائیں گے صاحب آپ بڑے جلدی تشریف لے آئے خیر تو ہے

ہم نے اس کو اپنا معمولی سا کام بتایا تو اس پر صفائی کرتے ہوئے وہ آگے چل دیا۔ ہم دفتر کے باہر ٹوٹے ہوئے بنچ پر بیٹھ گئے۔ کوئی مزید پون گھنٹے کے بعد دفتر کے بابو آنا شروع ہوئے اور آتے ہی چائے کا آرڈر دیا۔ اب یہ بابوؤں کے چائے پینے کا وقت تھا۔ کوئی آدھ گھنٹہ میں چائے پی گئی۔ اسی اثناء میں ہم نے اپنا مدعا انہیں بتانے کی کوشش کی تو کہنے لگے بھائی صاحب ابھی بڑے صاحب کا کام کر رہے ہیں بعد میں آنا۔ ہم پھر ایک طرف کمرہ میں بیٹھ گئے تھوڑی دیر بعد کیا دیکھتے ہیں کہ سارے بابو اٹھ کر جانے لگے تو معلوم ہوا کہ کھانے اور نماز کا وقفہ ہو گیا ہے اور اب ڈیڑھ گھنٹہ وہ آنے والے نہیں ہیں

اب ہم بھی اپنا سا منہ لے کر کینٹین پر پہنچ گئے اور دوپہر کا کھانا کھایا نماز پڑھی، دوبارہ دفتر پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں کہ دفتر ابھی تک خالی پڑا ہے۔ لوگ وقفہ کے بعد واپس نہیں آئے۔ وقفہ سے جب بابو واپس آئے تو آتے ہی چائے منگوا لی۔ ہم نے پھر بات کرنے کی کوشش کی تو بابو ناراض ہو گئے یار تمہیں بہت جلدی ہے۔ جن کی درخواستیں پہلے آئیں ہیں ان پر کام کرنا ہے یا سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر تمہارا کام شروع کر دوں۔ ہم پھر ایک جانب اپنا سا منہ لے کر بیٹھ گئے

کچھ دیر بعد بابو صاحب کے کچھ مہمان آ گئے اور وہ ادھر ادھر کی باتیں کرنے لگے۔ آدھا پون گھنٹہ اور گزر گیا۔ اب عصر کی نماز کا وقت ہو گیا۔ بابو مہمانوں سے فارغ ہو کر پھر نماز پڑھنے تشریف لے گیا اور ہم اس کی آنی جانیاں دیکھتے رہ گئے۔ کوئی آدھ گھنٹے بعد وہ نماز پڑھ کر واپس آیا تو اپنا سامان سمیٹنے لگا۔ ہم پھر اس کی طرف تشریف لے گئے اور اس نے بڑے روکھے انداز میں کہا کل آنا دفتر کا وقت ختم ہو چکا ہے۔ سارا دن میں اس نے کسی فائل کو ہاتھ نہیں لگایا تھا، بس کمپیوٹر پر مختلف وڈیو دیکھتا رہا تھا

وہاں سے بور ہوتا تو سرکاری فون سے کسی کے ساتھ بات کرنے لگتا۔ جب اس نے دیکھا کہ ہم ٹس سے مس نہیں ہو رہے تو کہنے لگا کیا ”اب میرے ساتھ گھر بھی چلو گے چلو جاؤ کل آنا“ ہم نے ایک دن سرکاری دفتر میں گزار کر دیکھا اور ہمیں معلوم ہوا کہ یہاں کسی وقت بھی کوئی کام نہیں ہوتا صرف وہ کام ہوتا ہے جو بڑا صاحب کہتا ہے۔

بشکریہ: ہم سب

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close