بھائی کے علاج کے لیے کروڑوں اکٹھے کرنے والی باہمت لڑکی خود اُسی نایاب بیماری سے چل بسی

ویب ڈیسک

رواں ہفتے بھارت میں ایک نوجوان سوشل میڈیا اسٹار انتقال کر گئیں، جنہوں نے وڈیو اپیل کی مدد سے اپنے چھوٹے بھائی کے علاج کے لیے کروڑوں روپے کا فنڈ جمع کیا تھا

سولہ سالہ عفرا رفیق پٹھوں کی نایاب بیماری، اسپائنل مسکولر اٹروفی (ایس ایم اے) میں مبتلا تھیں۔ یہ ایک ایسی جینیاتی بیماری ہے جس میں پٹھے کمزور ہو جاتے ہیں، حرکت کرنا اور سانس لینا دوبھر ہو جاتا ہے

اُن کی بیماری میں پیچیدگی کے بعد پیر کو بھارت کی جنوبی ریاست کیرالہ کے ایک ہسپتال میں انہوں نے اپنی آخری سانسیں لیں۔ ان کے والد پی کے رفیق کا کہنا ہے ”عفرا نے زندگی سے ہر ممکن خوشی حاصل کی“

عفرا کے خاندان اور ہمسائیوں کے مطابق وہ ایک باصلاحیت لڑکی تھیں، جو بے پناہ درد کا مقابلہ کرتے ہوئے بھی گیت گانا اور پڑھنا پسند کرتی تھیں

لیکن یہ ان کی ایک سال قبل 2021 میں وائرل ہونے والی وڈیو تھی، جس نے ملک بھر میں اُن کو شہرت دی

ان کے والد کے مطابق اس وڈیو سے پہلے عفرا کیرالہ کے کنور ضلع میں گھر سے زیادہ باہر نہیں نکلتی تھیں۔ ان کو چار سال کی عمر میں ایس ایم اے بیماری کی تشخیص ہوئی تھی اور وہ صرف ہسپتال یا اسکول جانے کے لیے گھر سے نکلتی تھیں۔ہماری ساری توجہ اور کوشش اس کے علاج پر ہی تھی“

لیکن پھر ان کے چھوٹے بھائی محمد کو بھی یہی بیماری لاحق ہوئی

رفیق بتاتے ہیں ”ان کا خاندان جیسے ٹوٹ کر رہ گیا کیوں کہ ہم جانتے تھے کہ ہماری بیٹی کس تکلیف سے گزر رہی تھی“

ایس ایم اے ایک جان لیوا بیماری ہے جو 6000 سے 10000 میں سے ایک بچے کو ہو سکتی ہے۔ اس بیماری میں ریڑھ کی ہڈی کے موٹر نیورون متاثر ہوتے ہیں اور اس کی شدت عمر کے ساتھ ساتھ بڑھتی جاتی ہے

اس بیماری کا شکار ہونے والے بچے جسمانی نشونما کے چند اہم سنگ میل حاصل کرنے میں مشکلات کا سامنا کرتے ہیں، جیسا کہ گردن اٹھانا، بیٹھنا، کھڑے ہونا اور چلنا

عفرا کے والد کا کہنا ہے کہ ان کی بیٹی کی خواہش تھی کہ ان کے بھائی محمد کو درست علاج ملے

اس کے لیے ان کو زولجینسما نامی ایک نئی دوائی تک رسائی درکار تھی، جس کی منظوری 2019ع میں امریکی ادارے ایف ڈی اے نے دی تھی۔ اس دوائی کے ذریعے ایس ایم اے بیماری سے متاثرہ بچوں کا جینیاتی علاج ممکن تھا۔ یہ دوا دو سال سے کم عمر بچوں کو ایک ہی بار دی جاتی ہے

اس وقت تک محمد کی عمر ڈیڑھ سال ہو چکی تھی اور ان کے خاندان کے پاس بہت کم وقت بچا تھا۔ لیکن رفیق بتاتے ہیں ”اس دوا کی قیمت ہماری سوچ سے بھی زیادہ تھی“

زولجینسما کی ایک خوراک کی قیمت 180 ملین بھارتی روپے یا 22 لاکھ امریکی ڈالر ہے جس کو امریکہ سے درآمد کرنا پڑتا ہے

اس دوائی کے استعمال کی منظوری کے بعد سے بہت سے بھارتی شہریوں نے کراؤڈ فنڈنگ کا سہارا لیا۔ ان میں سے چند کامیاب ہوئے، جن کی اپیل سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی تھی۔ بھارتی وزارت صحت نے ایس ایم اے جیسی نایاب بیماریوں کے لیے رضاکارانہ طور پر کراؤڈ فنڈنگ، جس میں عوام سے پیسوں کی اپیل کی جاتی ہے، کی اجازت دے رکھی ہے

عفرا کے خاندان نے بھی اس راستے کو اپنایا۔ ان کے گاؤں کی کونسل نے ایک کمیٹی بھی تشکیل دی تاکہ دوائی کے لیے پیسہ اکٹھا کیا جا سکے۔ لیکن وہ چند ہزار روپے ہی اکھٹے کر پائے

یہی وہ وقت تھا، جب عفرا نے اپنے کزن کی مدد سے ایک وڈیو بنائی۔ اس میں انہوں نے اپیل کی ”میں نہیں چاہتی کہ میرا بھائی بھی اسی تکلیف سے گزرے، جس سے میں گزری ہوں“

یہ وڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی، جس کے بعد اس کی میڈیا کوریج بھی ہوئی

گاؤں کی کونسل کے رکن ابراہیم بتاتے ہیں ”اچانک پر طرف سے پیسہ آنا شروع ہو گیا“

تین دن میں محمد کے علاج کے لیے قائم فنڈ کو 468 ملین روپے ملے۔ حتیٰ کہ عفرا کو ایک اور اپیل کرنی پڑی کہ لوگ پیسے بھیجنا بند کر دیں

ابراہیم کہتے ہیں ”ہم نے بہت کچھ کیا لیکن یہ عفرا کی وڈیو تھی، جس نے لوگوں کو متاثر کیا“

محمد کے علاج کے بعد باقی فنڈ سے گاؤں کی کمیٹی نے ایس ایم اے سے متاثر دو اور بچوں کا بھی علاج کروایا۔ اس کے بعد بھی پیسہ بچ گیا، جو کیرالہ حکومت کو عطیہ کر دیا گیا

عفرا کے والد کہتے ہیں ”اس نے ہمارے خاندان کو بچا لیا“

عفرا نے ایک یو ٹیوب چینل بھی شروع کیا، جس میں وہ لوگوں کو اپنے بھائی کے علاج کے بارے میں آگاہ کرتی تھیں۔ ایک سال سے کم عرصے میں ان کے چینل کو 259000 لوگوں نے سبسکرائب کیا۔ ان وڈیوز میں ان کو ہسپتال جاتے، بھائی کے ساتھ وقت بِتاتے اور سالگرہ اور دیگر تہوار مناتے دیکھا جا سکتا ہے

اپنی وڈیوز میں وہ محمد کے علاج اور فزیو تھراپی پر بھی بات چیت کرتی تھیں

محمد اب دو سال کا ہو چکا ہے اور خود سے پیٹ کے بل چل سکتا ہے اور سہارے سے کھڑا بھی ہو جاتا ہے۔ رفیق کہتے ہیں ”ابھی وہ خود سے نہیں کھڑا ہو سکتا لیکن اس کی ٹانگوں میں کچھ طاقت ہے“

دوسری طرف عفرا کی طبیعت خراب ہوتی چلی گئی۔ ان کے والدین بتاتے ہیں کہ اپنی زندگی کے آخری دنوں میں ان کے لیے ہاتھ اٹھانا بھی مشکل ہو چکا تھا اور وہ درد سے دانت پیستی تھیں

عفرا کی آخری وڈیو میں ان کے خاندان کو ریاستی دارالحکومت میں ایک ہسپتال جاتے دیکھا جا سکتا ہے۔ ان کی موت کی خبر کے بعد ہزاروں لوگوں نے اس وڈیو کے نیچے تعزیتی پیغامات لکھے ہیں

رفیق کا ماننا ہے کہ عفرا کی وڈیوز نے بھارت میں ایس ایم اے بیماری کے بارے میں آگہی پھیلانے میں مدد دی

وہ کہتے ہیں ”میرا خیال ہے یہی اس کی زندگی کا مقصد تھا۔ بہت سے لوگ اب جان چکے ہیں کہ ایس ایم اے کیا ہیں اور اس سے کیا ہوتا ہے۔ یہ سب اس کی وجہ سے ہوا“

عفرا کو اس ماہ امتحان دینا تھا اور وہ زور و شور سے تیاری بھی کر رہی تھیں۔ ان کے والد کہتے ہیں کہ عفرا ہر مضمون میں پہلی پوزیشن لینے کے لیے پُرعزم تھیں

عفرا کی موت کے ایک دن بعد جب ان کے والد کی نظر عفرا کے کمرے میں مطالعے کی میز کے پیچھے دیوار پر پڑی تو ان کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ عفرا نے دیوار پر خود کے لیے ایک پیغام لکھا تھا تاکہ ان کو حوصلہ ملے۔ یہ پیغام تھا ”تم کر سکتی ہو“

ان کے والد کہتے ہیں ”مجھے اس پیغام نے یاد دلایا کہ عفرا اس گھر کے ہر حصے میں کس طرح سے اب بھی موجود ہے“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close