سانڈھے کا تیل: کراچی میں جنسی مسائل کے لیے تیل کی فروخت کرنے والے دواخانے پر چھاپہ

ویب ڈیسک

سندھ کے محکمہ وائلڈ لائف کے اہلکاروں نے کراچی میں ایک دواخانے پر چھاپہ مار کر پانچ سانپ اور پچھتر سانڈھے بر آمد کیے ہیں

ان جانداروں کو کاروبار کے لیے استعمال کرنے والے دو ملزمان کو گرفتار کرنے کے بعد ضمانت پر رہا کر دیا گیا۔ برآمد کیے گئے سانپوں میں تین دو منہ والے سانپ اور دو کوبرا بھی شامل ہیں

کراچی وائلڈ لائف کے انسپیکٹر اعجاز نے بتایا ”ہمیں اطلاع ملی کہ کراچی کے علاقے قائد آباد میں ایک دیسی دواخانے پر سانڈھے اور سانپ سے تیار کردہ ادوایات فروخت ہو رہی ہیں۔ اس کے بعد کچھ روز تک اس دواخانے پر نظر رکھی گئی اور معلوم ہوا کہ یہ دواخانہ لوگوں کو سانڈھے کا تیل جنسی مسائل کے علاج کے لیے اور سانپ کے زہر سے بنی ہوئی ادویات کینسر کے علاج کے لیے فروخت کر رہا تھا“

انسپکٹر اعجاز کہتے ہیں ”کارروائی سے پہلے ہر طرح کی تسلی کرنے کے لیے میں خود وہاں پر گاہگ بن کر گیا اور اس کے بعد کارروائی کے دوران سانڈھے اور سانپ بر آمد کیے گئے جن کو نیشنل پارک میں چھوڑ دیا گیا ہے“

انسپیکٹر اعجاز کے مطابق دواخانے سے متعلق بڑی عجیب و غریب باتیں سننے کو مل رہی تھیں

انہوں نے بتایا ”جب میں دواخانے میں گیا تو انھوں نے مجھے گاہک سمجھا اور اپنے مختلف روایتی طریقوں سے مجھے اشیا فروخت کرنے کی کوشش کی“

انسپیکٹر اعجاز کا کہنا ہے ”انہوں نے مجھے بتایا کہ ایک سانڈھے کی قیمت ڈھائی ہزار روپیہ ہے اور اس سے تیار کردہ تیل کی قیمت تین سو روپیہ ہوگی۔ اس موقع پر اگر ان سے مول تول کرتا تو شاید وہ اس میں کمی بھی کر دیتے۔‘

سندھ کے محکمہ وائلڈ لائف کے اہلکار جاوید احمد مہر کا کہنا ہے ”برآمد ہونے والے سانپوں میں دو کوبرا اور تین دو منھ والے سانپ تھے۔ دو منھ والے سانپ تقریباً سارے ملک میں پائے جاتے ہیں“

جاوید مہر کہتے ہیں ”سانڈھے ہمارے صحرائی علاقوں میں ہیں۔ بدقسمتی سے پنجاب اور سندھ میں ان کو پکڑ کر فروخت کرنے اور ان سے مختلف ادویات بنانے کا رواج موجود ہے“

انہوں نے بتایا کہ سندھ اور بالخصوص کراچی میں وہ سانڈھے اور سانپوں کا کسی قسم کا کاروبار کرنے والوں کے خلاف بھرپور کارروائی کر رہے ہیں۔ کوشش یہ ہے کہ اس کاروبار کو سندھ اور کراچی میں نہ ہونے دیا جائے

سانڈھے کا بے دریغ قتل عام ہو رہا ہے، حالانکہ اس کا قدرتی نظام میں انتہائی اہم کردار ہے

انسپیکٹر اعجاز کہتے ہیں ”دواخانے میں مجھے وہ لوگ مختلف کہانیاں سناتے رہے کہ کینسر بھی ایک زہر ہے اور اس کا علاج زہر ہی سے ممکن ہے اس لیے وہ ان سانپوں کے زہر سے تیار کردہ ادوایات سے کینسر کا علاج کرتے ہیں۔ اس دوران وہ مختلف لوگوں کے حوالے بھی دیتے رہے“

ڈائریکٹر بائیو ڈائیورسٹی وزارت کلائمنٹ چینج اسلام آباد نعیم اشرف راجہ کے مطابق ’دو منھ والے سانپ پاکستان کے مختلف علاقوں میں پائے جاتے ہیں۔ بلوچستان اور ایران کی سرحدی علاقے میں ان سانپوں کی تعداد کافی زیادہ ہے۔ یہ سانپ زہریلے اور خطرناک نہیں ہوتے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا ’سانڈھے پاکستان کے تقریباً تمام صحرائی علاقوں میں موجود ہیں۔ پاکستان کے صحرائی علاقوں میں ابھی تک ماحولیات سے زیادہ چھیڑ چھاڑ اور تعمیرات وغیرہ نہیں ہوئی ہیں۔ مگر سانڈھے کا دیسی طریقہ علاج میں استعمال اور اس کی خرید و فروخت ماحولیات کی تباہی کا باعث بن سکتا ہے۔‘

نعیم اشرف راجہ کا کہنا تھا ’مختلف امراض میں بالخصوص اس تیل کے فائدہ مند ہونے کی باتیں اور افواہیں اس کی خرید و فروخت کی بڑی وجوہات ہیں۔

’اس کی بے دریغ خرید و فروخت کی گئی ہے۔ سانڈھے کی خرید و فروخت کی دوسری وجہ اس کو پالنا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’گذشتہ صدی کے آخر اور رواں صدی کے آغاز میں پاکستان سے بھی اس کی بڑی تعداد کی سمگلنگ کی جاتی ہے۔

’ہم نے خود بلوچستان کے علاقے چاغی سے 1998 میں ایک سے ایک بڑی سمگلنگ پکڑی تھی۔ اس وقت پکڑی جانے والے کھپت کی قیمت پچاس ہزار ڈالر بتائی جاتی تھی۔‘

نعیم اشرف راجہ کا کہنا تھا کہ اس کے بعد اس کی سمگلنگ پر بہت کنٹرول کیا گیا تھا۔

پاکستان میں تعداد
جاوید احمد مہر کہتے ہیں کہ ’بدقسمتی سے سانڈھے کا اتنا غیر قانونی اور غیر اخلاقی کاروبار ہوا ہے کہ لگتا ہے کہ ان کی تعداد بہت کم ہوگئی ہے۔

’بلکہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ اب یہ معدومیت کے خطرے کا شکار ہو چکے ہیں۔‘

پاکستان میں ایسے کوئی اعدادوشمار دستیاب نہیں ہیں کہ جن کی بنیاد پر کہا جا سکے کہ سانڈھے کی تعداد میں کتنی کمی ہوئی ہے اور کون سے علاقے متاثر ہوئے ہیں

تاہم اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے شعبہ فارسٹری وائلڈ لائف مینجمنٹ نے چولستان میں سانڈھوں کی تعداد پر ایک تحقیقاتی رپورٹ تیار کی ہے

سنہ 2020 کی اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ چولستان کے صحرا میں بالغ سانڈھے کی تعداد نابالغ سانڈھے اور چھوٹے سانڈھے سے کم تھی

رپورٹ کے مطابق دوران تحقیق دیکھا گیا ہے کہ خوراک کی کمی کو پورا کرنے کے لیے سانڈھے اپنے ہی جلد کو کھا رہے ہوتے ہیں

غیر قانونی شکار کرنے والے ان کو چربی اور تیل حاصل کرنے کے لیے پکڑ کر ان کی کمر کی ہڈی توڑ کر انھیں اپنی ظالمانہ قید میں رکھتے ہیں

جاوید احمد مہر کہتے ہیں ’یہ زیر زمین اپنی رہائش کے لیے بل بناتے ہیں جو ایک طرح کی سرنگ جیسے ہوتے ہیں۔

’یہ سرنگیں زمین کو مضبوط کرنے کے علاوہ زمین کی مختلف ضرورتیں پوری کرتی ہیں۔ جو درختوں اور پودوں کے لیے بھی فائدہ مند ہوتی ہیں۔ صحرا کے ماحولیاتی نظام میں ان کا بہت بڑا حصہ ہے۔‘

نعیم اشرف راجہ کہتے ہیں ’یہ سبزی خور ہیں اور قدرتی نظام میں یہ صحرا کی گوشت خور جنگلی حیات کی خوراک اور شکار بنتے ہیں۔ یہ قدرتی فوڈ چین کا حصہ ہیں۔ ان کی تعداد میں کمی کا مطلب صحرا کے پورے قدرتی نظام کا تباہ و برباد ہو جانا ہے۔‘

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close