اوم پرکاش جسے پاشا کے نام سے بھی پہچانا جاتا ہے، بھارت کی شمالی ریاست ہریانہ میں پولیس کو مطلوب ترین افراد کی فہرست میں شامل ہے
وہ تیس سال تک ہمسایہ ریاست اتر پردیش میں ڈکیتی اور قتل کی ایک واردات سے تعلق کے شبے میں مطلوب تھا، یہاں آنے کے بعد اس نے ایک نئی زندگی اپنا لی، نئی سرکاری دستاویزات بنوا لیں اور ایک مقامی خاتون سے شادی کر لی جن سے اس کے تین بچے بھی ہیں
لیکن اس ہفتے کے اوائل میں اس کی خوش قسمتی بالآخر اسے دھوکہ دے گئی اور پولیس نے پینسٹھ سال کے اس شخص کو غازی آباد کی کچی آبادی میں اس کے گھر سے دھر لیا
اوم پرکاش نے کئی روپ بدلے، اس نے ٹرک چلایا، ایک مقامی گروہ کے ساتھ قریبی دیہات میں بھجن گاتا رہا۔ حتیٰ کہ حقیقی زندگی میں روپ بدلنے کی اداکاری کے ساتھ ساتھ اس نے اٹھائیس کم بجٹ والی فلموں میں بھی اپنی اداکاری کے جوہر دکھائے
اوم پرکاش نے گرفتاری کے بعد خود پر لگائے گئے الزامات کے حوالے سے چپ سادھ لی ہے لیکن اسے گرفتار کرنے والی ہریانہ اسپیشل ٹاسک فورس کے رکن سب انسپکٹر وویک کمار نے بتایا ”اوم پرکاش نے سنہ 1992ع میں ہونے والے قتل کے لیے اپنے ایک ساتھی کو موردِ الزام ٹھہرایا ہے“
بی بی سی کی نمائندہ بتاتی ہیں ”میں اوم پرکاش کی گرفتاری کی خبریں آنے کے دو دن بعد اس کے خاندان کی تلاش میں گئی اور ان کے دفاع میں بیان کی گئی کہانی جاننا چاہی
ہربن نگر کی وسیع و عریض کچی آبادی کی تنگ گلیوں میں، جہاں گھروں کے نمبر بھی نہیں ہوتے، وہاں مجھے ان کا گھر تلاش کرنے میں ساڑھے تین گھنٹے لگ گئے
میں راج کماری سے ملی جو پچھلے پچیس سال سے ان کی بیوی ہیں اور اُن کے تین میں سے دو بچوں سے بھی ملی، اکیس سالہ بیٹا اور چودہ برس کی بیٹی سے
کمرے میں بستر کے نیچے سے راج کماری نے ایک ہندی اخبار نکالا اور اپنے شوہر پر لگے الزامات کی تفصیلات بتائیں۔ اُنہوں نے کہا کہ ’وہ اب تک صدمے میں ہیں اور انہیں ان کے ’مجرمانہ ماضی‘ کے بارے میں کچھ علم نہیں تھا اور وہ اس انکشاف کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں‘
لیکن اوم پرکاش کے دفاع میں کچھ کہلوانے کی کوشش بے کار ثابت ہوئی کیونکہ اس کے خاندان کے پاس اس کے لیے کوئی خوش آئند بات نہیں تھی
اوم پرکاش کی بیوی راج کماری نے بھی اوم پرکاش پر دھوکہ دہی کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا ’میں نے 1997ع میں اس سے شادی کی لیکن میں نہیں جانتی تھی کہ وہ پہلے سے شادی شدہ ہے اور اس کا ایک خاندان ہے“
اوم پرکاش اصلیت اور اس پر لگے الزامات
سب انسپکٹر وویک کمار نے بتاتے ہیں ”ہریانہ کے پانی پت ضلع میں نارینا گاؤں میں اوم پرکاش نے بھارتی فوج میں ٹرک ڈرائیور کی حیثیت سے بارہ سال کام کیا، جس کے بعد سنہ 1988 میں اسے چار سال تک غیر حاضر رہنے کی وجہ سے برطرف کر دیا گیا“
سب انسپکٹر وویک کے مطابق ”اوم پرکاش نے مبینہ قتل کی واردات سے پہلے کئی جرائم کیے، اس نے مبینہ طور پر 1986ع میں گاڑی چرائی، چار سال بعد ایک موٹر سائیکل، ایک سلائی مشین اور ایک اسکوٹر چرایا۔ یہ جرائم مختلف اضلاع میں کیے گئے ان میں سے کئی جرائم میں پولیس کے مطابق وہ گرفتار بھی ہوئے اور ضمانت پر رہا کیے گئے“
وویک کمار کا کہنا ہے ”جنوری 1992ع میں اوم پرکاش اور ایک دوسرے شخص نے ایک موٹر سائیکل سوار کو لوٹنے کی کوشش کی، جب اس شخص نے مزاحمت کی تو انہوں نے اسے چاقو مار دیا اور جب گاؤں کے لوگوں کو اپنی جانب آتے دیکھا تو یہ اسکوٹر چھوٹر کر بھاگ گئے“
سب انسپیکٹر وویک کے مطابق دوسرا شخص گرفتار ہو گیا اور اسے آٹھ سال قید ہوئی، جس کے بعد وہ ضمانت پر رہا ہو گیا لیکن اوم پرکاش غائب ہو گیا اور جلد ہی یہ مقدمہ سرد پڑ گیا۔ پولیس نے اوم پرکاش کو ’اشتہاری مجرم‘ قرار دے دیا اور اس کی فائل پر گرد جمنے لگی
پولیس کا کہنا ہے کہ گرفتاری کے بعد اوم پرکاش نے بتایا کہ اس مبینہ قتل کے بعد اس نے پانچ سال ہمسایہ ریاستوں تامل ناٹو اور آندھرا پردیش کے مندروں میں پناہ لیتے گزاری
ایک سال بعد وہ شمالی انڈیا لوٹ آیا لیکن گھر جانے کے بجائے ایک سو اسی کلومیٹر دور غازی آباد کے علاقے میں جا بسا، جہاں اسے ٹرک چلانے کا کام مل گیا
اوم پرکاش کی بیوی راج کماری بتاتی ہیں ”اُسے مقامی طور پر بجرنگ بلی یا بجرنگی کہا جاتا تھا، وہ سنہ 1990ع کی دہائی میں ویڈیو کیسٹس کرائے پر دیتا اور وڈیو فلموں کی دکان چلاتا تھا۔ وہ فوج میں اپنی ملازمت کی وجہ سے ’فوجی تاؤ‘ کے نام سے بھی پہچانا جاتا تھا“
سنہ 2007ع کے بعد سے وہ ہندی فلموں میں چھوٹے موٹے کردار بھی ادا کرتا رہا۔ جن میں وہ گاؤں کے بڑے، ولن یا پولیس اہلکار کا کردار ادا کرتا۔ ان میں سے ایک فلم ترکو کو یوٹیوب پر 76 لاکھ مرتبہ دیکھا گیا ہے
وویک کمار کے مطابق ’اس نے نئی دستاویزات بھی بنوا لی ہیں جن میں نیا ووٹر کارڈ اور آدھار کارڈ شامل ہیں‘
لیکن پولیس کے مطابق اوم پرکاش نے ایک بڑی غلطی کی کہ تمام دستاویزات میں اس کا اور اس کے والد کا نام اصلی تھا
اوم پرکاش کی بیوی راج کماری کی کہانی
پولیس اس بات سے اتفاق کرتی ہے کہ اوم پرکاش کا نیا خاندان اور ہمسائے ان کے مجرمانہ ماضی سے لاعلم تھے
راج کماری کا کہنا تھا کہ شادی کے بعد انھیں محسوس ہوا تھا کہ اوم پرکاش ان سے کچھ چھپا رہا ہے
وہ انہیں اپنے ساتھ نارینا گاؤں لے کر گئے اور اپنے بھائی اور ان کے خاندان سے ملوایا اور ان سے کہا کہ یہ ان کے دوست ہیں
کچھ سال کے بعد انہیں اوم پرکاش کی پہلی شادی کے بارے میں پتا چلا جب ان کی پہلی بیوی نے ان کے گھر آ کر شور شرابہ کیا
راج کماری کا کہنا تھا ”تب مجھے اور ہمسایوں کو پتا چلا کہ اس کی ایک اور زندگی بھی ہے، ایک بیوی اور ایک بیٹا ہے جسے یہ چھپاتا رہا۔ ہمیں دھوکہ دیا گیا“
ان کا کہنا تھا کہ ان کی شادی کے بعد وہ طویل عرصے تک غائب رہا، جس کی وجہ وہ اس کے دور دارز ٹرک کے سفر کو قرار دیتی رہیں لیکن اب ان کا اصرار ہے کہ وہ اپنے دوسرے خاندان سے ملنے جاتا تھا
ان کے تعلقات خراب ہو گئے اور ایک دو جھگڑوں کے بعد سنہ 2007 میں اوم پرکاش پھر سے غائب ہو گیا
راج کماری کہتی ہیں ”میں اتنی تنگ آ چکی تھی کہ میں نے اس سے قطع تعلق کر لیا، میں ایک مقامی سرکاری دفتر گئی اور وہاں حلف لکھ دیا کہ میرا اس شخص کے ساتھ آئندہ کوئی لینا دینا نہیں لیکن یہ سات سال بعد لوٹ آیا اور اس کے بعد آتا جاتا رہتا ہے“
ان کی 14 سالہ بیٹی کا کہنا ہے ”وہ ہمیں برا بھلا کہتے ہیں مگر وہ جب بھی آتے ہیں تو ہم انہیں ترس کھا کر تھوڑا کھانا دے دیتے ہیں کیونکہ وہ ہمارے والد اور بوڑھے شخص ہیں“
راجکماری کہتی ہیں کہ اس سے پہلے ایک مرتبہ ہریانہ پولیس اسے چوری کے شبہے میں گرفتار کر کے لے جا چکی ہے
وہ کہتی ہیں ”اس نے تب جیل میں چھ سے سات ماہ گزارے تھے مگر پھر وہ لوٹ آیا اور ہمیں بتایا کہ اُسے تمام الزامات سے بری کر دیا گیا ہے“
دلچسپ بات یہ ہے کہ تیس سال بعد گرفتاری کے باوجود اوم پرکاش قتل کے مقدمے میں اشتہاری ہے، کیونکہ پولیس کے رکارڈز اب بھی مکمل طور پر ڈیجیٹلائز نہیں ہوئے ہیں اور مختلف اضلاع کی پولیس کا ایک دوسرے سے معلومات کا تبادلہ کرنا اتنا عام نہیں
اوم پرکاش کا سراغ کیسے ملا؟
سنہ 2020ع میں جب ہریانہ نے منظم جرائم، منشیات، دہشتگردی اور بین الریاستی جرائم کی روک تھام کے لیے خصوصی ٹاسک فورس بنائی تو سرد خانے کی نذر ہونے والی اوم پرکاش کی فائل بھی دوبارہ کھل گئی
فورس نے اُسے ’انتہائی مطلوب‘ افراد کی اپنی فہرست میں ڈال کر اُس کی اطلاع کے بدلے پچیس ہزار روپے انعام کا اعلان کیا
ماضی میں بھی ایسے مقدمات رہے ہیں جن میں مجرمان ایک طویل عرصے، کبھی کبھی تو دہائیوں تک کے لیے غائب رہے مگر پھر گرفتار ہوئے
غازی آباد میں کئی سالوں سے جرائم پر رپورٹنگ کرنے والے انڈین ایکسپریس کے سینیئر صحافی امِل بھٹناگر کہتے ہیں ”پولیس عام طور پر سرد خانے کی نذر ہو چکے مقدمات کی فائل صرف تب کھولتی ہے جب یہ دہشتگردی یا سلسلہ وار قتل کا معاملہ ہو یا پھر اُنہیں کہیں سے کوئی خفیہ اطلاع ملے“
بھٹناگر کا کہنا ہے ”مگر دو ماہ قبل پولیس نے نارینا گاؤں کا دورہ کیا اور پچاس اور ساٹھ سال کے ان لوگوں سے بات کی، جنہیں اوم پرکاش کے بارے میں کچھ یاد ہوگا“
اُنہیں یہیں سے پہلا سراغ ملا کہ اوم پرکاش تقریباً دو دہائیوں قبل گاؤں آیا تھا اور یہ بھی کہ شاید اب وہ اترپردیش میں کسی جگہ مقیم ہو
دوسری بار پولیس یہاں آئی تو اوم پرکاش کے نام پر رجسٹرڈ ایک فون نمبر پانے میں کامیاب ہو گئی، جس کے ذریعے اُنھیں بالآخر اس کا پتا مل گیا
پولیس نے دو ہفتوں تک اس جگہ کی نگرانی کی اور اس کا گھر شناخت کر لیا۔ پولیس کے مطابق اُنھیں اس کی شناخت میں بھی مشکل ہوئی کیونکہ ان کے پاس اوم پرکاش کی تیس برس پرانی تصویر تھی اور اب وہ بہت مختلف نظر آتے ہیں
وویک کمار کہتے ہیں ”ہم یقین کرنا چاہتے تھے کہ ہم صحیح شخص تک پہنچے ہیں“
اُنہوں نے مزید کہا ”یہ پورا آپریشن انتہائی رازداری سے کیا گیا کیونکہ ہمیں فکر تھی کہ ایک غلطی کی تو وہ پھر تیس برس کے لیے غائب ہو جائے گا“
اب کیا ہوگا؟
اتنے طویل عرصے تک غائب رہنے والے شخص کی گرفتاری اسپیشل ٹاسک فورس کے لیے ایک کامیابی سمجھی جا رہی ہے، لیکن امل بھٹناگر سمجھتے ہیں کہ پولیس کا اصل کام اب شروع ہوگا ”اُنہیں عدالت میں ثابت کرنا ہوگا کہ اُنہوں نے درست شخص کو پکڑا ہے اور عدالتوں کو تفصیلی جائزہ لینا ہوگا کہ یہی وہ شخص ہے اور اس نے ہی وہ جرائم کیے ہیں، جن کے اس پر الزامات عائد کیے گئے ہیں“
بھٹناگر کہتے ہیں ”چونکہ یہ جرم کئی دہائیوں قبل ہوا تھا اس لیے ثبوتوں کا معیار بھی دیکھنا ہوگا. فوجداری مقدمات میں ثبوتوں کے معیار میں گراوٹ بہت معنی رکھتی ہے۔ پولیس اور استغاثہ کے لیے اس کیس کو ٹھوس بنانا بہت مشکل کام ہوگا“
بی بی سی کی نمائندہ کے مطابق ”میں نے ان کے گھر سے نکلنے سے قبل راجکماری سے پوچھا کہ کیا اُنہوں نے گرفتاری سے اب تک اُس سے ملاقات کی کوشش کی ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ ’پولیس کہتی ہے کہ ہمیں ان سے ملنے کے لیے شناختی کارڈ جمع کروانے ہوں گے مگر میں ایسا نہیں کرنا چاہتی۔ اس سے کیا فائدہ حاصل ہوگا؟“