"کو کیئں نہ ڈوڑے مقتل ڈے
آ رت میں خوشبو مہندی جی!”
(کوئی کیسے نہ جائے مقتل گاہ
ہے لہو میں خوشبو مہندی کی..!)
ان دیوانوں کی زندگی تو ایاز کے اس شعر کی طرح ہو تی ہے۔
اسے تو آئی ایس پی آر کا سابقہ ترجمان میجر جنرل آصف غفور بھی ڈراتا رہا، لیکن وہ نہیں ڈرا..
جب آصف غفور کچھ صحافیوں کو دعوت دے کر آئی ایس پی آر کے وسیع کشادہ ٹھنڈے حال میں لے گیا تھا، جہاں وہ انہیں خود کی بنائی وہ پرزنٹیشن دکھا رہا تھا اور اس پرزنٹیشن میں اُس بات کی وضاحت کر رہا تھا کہ یہ جو مطلوبہ صحافی ہیں، جن کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ سے جو پوسٹ اور ٹوئیٹ کی جا تی ہیں وہ سراسر پاکستان مخالف ہیں.. ان میں ایک صحافی وہ بھی تھا جو آج اسلام آباد سے ڈرامائی طور اغوا ہو چکا ہے۔
پھر آصف غفور وہ ٹوئیٹ اور پوسٹیں دکھاتا رہا، جن پوسٹوں اور ٹوئیٹس میں سوائے ان سوالوں کے کچھ نہ تھا، جیسا سوال آج خود سی پیک کے چئیرمین آصف سلیم باجوہ اپنے پیچھے چھوڑ گئے ہیں.. جن سوالوں کو سن کر انسان کو سب سے پہلے یہی خیال آتا ہے کہ
"مولا مجھے بھی کوئی ایسی سستی گاڑی فری میں دلا دے!”
تواس دن آئی ایس پی آر کے ٹھنڈے کشادہ حال میں غفور بھائی دکھاتے جا رہے تھے اور حال میں موجود اور حال سے باہر ان صحافیوں کی سانسیں رُک رہی تھیں، جو یہ سمجھ رہے تھے کہ اب معلوم نہیں آنے والا فوٹو، پروفائیل، پوسٹ اور ٹوئیٹ کس کا ہوگا… اور غفور بھائی کا اس کے بارے میں کیا کہنا ہوگا.. سب صحافی بت بنے بیٹھے تھے اور اس پروجیکٹر کو دیکھ رہے تھے جس پروجیکٹر میں وہ پرزنٹیشن چل رہی تھی. ان ہی صحافیوں میں وہ صحافی بھی بلیک لسٹ ہوا تھا، جو اپنا فوج کا کمیشن چھوڑ کر اس خار دار سفر پر چل پڑا تھا، جہاں جوئی دکان نہ تھی اور نہ ہی اسے کوئی ملازمت دینے کو تیار تھا..
اس کا قصور بس اتنا سا تھا کہ وہ سچ سنتا تھا، سچ کہتا تھا اور سچ لکھتا تھا.
وہ لاکھ کوشش کے باوجود مبشر لقمان نہ بن پایا
اور مبشر لقمان جیسے کردار بھی تو اس کی طرح ملنگ نہیں بن پاتے، جو سچ کا حلف لے کر سچ ہی کہتے ہیں.. وہ ایسے نہیں ہوتے کہ سچ کا حلف لیں اور جھوٹ بکتے اور بیچتے رہیں. وہ جب سچ کا حلف لیتے ہیں، تو زندگیاں کٹ جائیں یا رُل جائیں، وہ پھر سچ ہی کہتے ہیں.. چاہے انہیں عدلیہ بلائے، چاہے انہیں کوئی میڈیا ہاؤس ملازمت دینے پر تیار نہ ہو، چاہے وہ کسی کو بھی قبول نہ ہوں پر ان کا سچ سے پیچ ایسے اڑ جاتا ہے جیسے سسئی کا پنہوں سے!
مطیع اللہ جان سچ کی سسئی تھا اور اس کا پنہوں بس سچ تھا!
اس لیے ایسے کردار صحافت میں روز روز پیدا نہیں ہو تے وہ سچ کے داعی ہو تے ہیں۔ وہ سچ کے مطیع ہو تے ہیں، سچ کے سوا باقی سب چیزیں ان کے پاس ثانوی ہوتی ہیں، سب سے پہلے سچ ہوتا ہے!
اور یہاں سچ کو کون برداشت کرتا ہے!!؟
سچ کو نہ لکھی کتابیں سہہ پا تی ہیں اور نہ سچ کو صحافت برداشت کر تی ہے۔
سچ کو قانون کے پلر بھی برداشت نہیں کرتے، سچ کو نہ وردی سہہ پا تی ہے اور نہ قانون..
اگر وہ آج اغوا نہ ہوا ہوتا تو کل اس سچ کا سامنا اسلام آباد کی کورٹ سے ہوتا اور نہیں معلوم وہ وہاں کیا کچھ کہتا اور پھر قانون کے رکھوالے اس سچ کو کیسے برداشت کر پاتے؟ قانون اور سچ کا سامنا ہوتا، اس سے پہلے سچ کو پھانسی گھاٹ کی طرف لے جایا گیا ہے اور پیچھے رہ گئی ہے اس کی وہ گاڑی، جس گاڑی کی حالت دیکھ کر ہی ہمیں یہ اندازہ ہوجانا چاہیے کہ وہ ملنگ اپنی ذات اور اپنے پیشے میں کتنا ایمان دار رہا ہوگا!؟
اور اسے کوئی بڑے بڑے پیکچ بھی نہیں ملتے تھے۔ اس کے پاس تو سوائے سچ اور اپنے یوٹیوب چینل کے سوا کچھ تھا بھی نہیں۔ وہ سچ سنتا، سچ دیکھتا اور سچ لکھتا اور اس پورے سچ کو اپنے یو ٹیوب چینل پر اپ لوڈ کر دیتا..
جب اس کے پاس کوئی ملازمت ہی نہیں تھی، جب اسے کوئی پرنٹ میڈیا یا نام نہاد الیکٹرونک میڈیا برداشت ہی نہیں کرتا تو اسے بھاری بھاری پیکچ کون دیتا؟
سمیع ابراہیم، مبشر لقمان محفلوں میں وزرا کے بھاری تھپڑ کھا کر تھانوں کے چکر لگاتے رہتے،
کیوں کہ وہ جھوٹ کی پیداوار تھے اور مقتدر حلقوں کے پے رول پر تھے.
جب کہ مطیع اللہ جان ملنگ! یسوع کی طرح سچ کا داعی اور مطیع تھا اور بھوکے خالی پیٹ سے بس سچ کے لیے لڑتا رہتا اور وہی اس کا جرم ٹھہرا ہے!
اس لیے سچ کو ڈرایا جاتا رہا ہے، دھمکایا جاتا رہا ہے، سولی کا سزا وار کیا جاتا رہا ہے، ابلتے تیل کی کڑاھی میں پھینکا جاتا رہا ہے، آرے سے چیرا جاتا رہا ہے، پھانسی گھاٹ پہ لے جایا جاتا رہا ہے، بھوکتے بھوکے کتوں کے بیچ ڈالا جاتا رہا ہے، چیختی بندوقوں کے درمیان کھڑا کیا جاتا ریا ہے، تن سے سر جدا کیا جاتا ریا ہے
پھر بھی سچ کے دائی، مطیع اور عاشقوں کی یہ روش رہی ہے کہ
"کو کئیں نہ ڈوڑے مقتل ڈے
آ رت میں خوشبو مہندی جی!”
(کوئی کیسے نہ جائے مقتل گاہ
ہے لہو میں خوشبو مہندی کی!)
آدھی رات کے گیدڑ مطیع ﷲ جان کو پریشان تو کر سکتے ہیں.. اسے اذیت تو دے سکتے ہیں.. اس پر تشدد تو کر سکتے ہیں.. اس کے ہاتھوں اور پیروں کے ناخن تو نکال سکتے ہیں.. اس کے ہاتھ پیر تو توڑ سکتے ہیں.. اس کے سر کے بال تو نوچ سکتے ہیں.. اسے ماں بہن بیوی بیٹی کی بہت سی گالیاں تو دے سکتے ہیں.. اسے نیند سے بے وجہ روک تو سکتے ہیں، لیکن وہ سچ اور نیند کا جھٹکا آنے پر پھر سے سچ کہنا، سچ لکھنا، سچ سننا شروع کر دے گا.. اسے سچ کہہ دینے سے کیسے روک سکتے ہیں، کیو ں کہ مطیع اللہ جان سچ کا یسوع ہے، سچ کی سسی ہے
اور سچ ہی اس کا یروشلم اور پنہوں ہے!
ایسے کردار کسی کے ڈرانے سے نہیں ڈرتے
کیوں کہ وہ ایاز کا یہ شعر ہو تے ہیں کہ
"کو کئین نہ ڈوڑے مقتل ڈے
آ رت میں خوشبو مہندی جی!”
کوئی کیسے نہ جائے مقتل گاہ
ہے لہو میں خوشبو مہندی کی!