”کیا آسمانی بجلی کا بل بھی ہمیں بھیج دیا؟“ یہ فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کیا ہے؟

ویب ڈیسک

پاکستان میں اس وقت مہنگائی کے بھوت سے زیادہ بڑا مسئلہ بجلی کے غیر معمولی بل ہیں جس کی وجہ سے ملک کے طول و عرض میں لوگ احتجاج کر رہے ہیں

ملک کے کئی بڑے شہروں میں سینکڑوں لوگوں نے احتجاج کے دوران بجلی کے بل جلائے ہیں

پنجاب کے علاقے سیالکوٹ میں پولیس نے ایک مقدمہ درج کیا ہے جس میں ایک تاجر سے دو ڈاکوؤں نے ایک لاکھ 60 ہزار بندوق کے زور پر چھیننے کے بعد اسے بتایا کہ وہ پروفیشنل ڈکیت نہیں۔ بجلی کا بل جمع کروانے کے پیسے نہیں تھے اس لیے یہ کام کرنا پڑ رہا ہے۔ تاجر نے پولیس کو دی جانے والی درخواست میں ڈاکوؤں کا جملہ بھی لکھا، جسے ایف آئی آر کا حصہ بنا دیا گیا ہے

کراچی میں بجلی کے بلوں میں ٹیکسز میں اضافے پر عوام اور تاجروں کا شدید ردعمل دیکھنے میں آیا ہے

عوام کا کہنا ہے فیول ایڈجسٹمنٹ سمیت دیگر چارجز نا قابل قبول ہیں۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ بجلی کے بلوں پر عائد ٹیکس واپس لیے جائیں

دو روز قبل کراچی کے مختلف علاقوں میں اس کے خلاف احتجاج بھی کیا گیا ہے۔ امن و امان کی صورتحال خراب ہونے پر پولیس اور رینجرز نے عوام کو منتشر کرنے کے لیے شیلنگ اور لاٹھی چارج بھی کیا۔ کے الیکٹرک کے مختلف دفاتر میں سکیورٹی کے انتظامات بھی کیے گئے ہیں

کراچی کے علاقے لی مارکیٹ کے رہائشی رمضان بلوچ نے اگست کے مہینے میں اپنے بجلی کے بل میں اضافے پر بتایا کہ مئی کے مہینے میں ان کا بجلی کا بل تقریباً ساڑھے پانچ ہزار تھا، جون میں یہ بل 7800 تک چلا گیا، جولائی کے مہینے میں یہ آٹھ ہزار اور اگست کے مہینے میں تو یہ ساڑھے بارہ ہزار ہو گیا

رمضان بلوچ کہتے ہیں ”مسلسل چند ماہ سے میرے گھر کے بجلی کے بل میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ایک آدھ مہینہ تو انسان برداشت کر لے لیکن یہ اضافہ مسلسل ہو رہا ہے۔ اگست کے بل میں تو اضافہ بہت زیادہ ہے جو اب میری مالی برداشت سے باہر ہو چکا ہے“

رمضان کہتے ہیں ان کے گھر میں اے سی وغیرہ تو نہیں اور بجلی کا استعمال بہت کم ہے لیکن اگست کے مہینے میں بجلی کے بل نے انھیں پریشان کر کے رکھ دیا

کراچی میں رہنے والے عمران نے بھی اپنے بجلی کے بل میں اضافے کی شکایت کی۔ انھوں نے کہا چھ سو یونٹ استعمال کرنے والے کو 30000 سے 32000 روپے بجلی کا بل سراسر ظلم اور ناانصافی ہے

لوگوں کے گھروں میں کام کر کے گزر بسر کرنے والی لاہور کی رہائشی قدسیہ بتاتی ہیں ’’میرے گھر میں صرف ایک بلب اور ایک پنکھا ہے۔ مجھے 12 ہزار روپے بجلی کا بل آیا ہے۔ میری مالی حیثیت نہیں ہے کہ میں یہ بل ادا کر سکوں۔ اگر میرا بجلی کا میٹر اتار دیں گے تو مجھے پروا نہیں میں بل جمع نہیں کروا سکتی‘‘

گوجرانولہ کے ایک رہائشی محمد عطار نے بھی بتایا کہ ان کا بجلی کا بل 25 ہزار روپے آیا ہے۔ جبکہ ان کے مہینے کی آمدن 20 ہزار روپے ہے۔ ’میری آمدن اٹھنی ہے اور مجھے کہا جا رہا ہے کہ میں ایک روپیہ بل جمع کرواؤں میرے لیے یہ ممکن نہیں اس مہینے میں بجلی کا بل جمع نہیں کروا رہا۔‘

لاہور ہی کے ایک اور رہائشی عبد الرؤف کو بھی اگست کے مہینے کا بل 32 ہزار روپے آیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ’اس بجلی کے بل نے کمر توڑ دی ہے۔ میں لیسکو کے دفتر گیا تو انہوں نے بات ہی نہیں سنی۔ وہاں لائنیں لگی ہوئی ہیں۔ لوگ بل ہاتھوں میں لے کر کھڑے ہیں۔ اور کوئی سننے والا نہیں۔ بند گھروں کو بھی دس دس ہزار کا بل آیا ہے۔ میں نے جب عملے کو کہا کہ اس کی قسطیں کر دیں تو ان کا کہنا تھا کہ اس کی قسط نہیں ہو سکتی۔ اگر میں بل جمع کرواتا ہوں تو مہینہ نکالنے کے لیے کسی سی قرض لینا پڑے گا۔‘

اسلام آباد کے رہائشی بشیر احمد نے بھی اپنے بجلی کے بل میں اضافے کی شکایت کی اور بتایا کہ ان کا بل بہت بڑھ گیا ہے

بشیر احمد سرکاری ملازم ہیں جو ایک سرکاری فلیٹ میں رہتے ہیں۔ ان کے مطابق بجلی کے بہت کم استعمال کے باوجود ان کا بجلی کا بل دس ہزار تک پہنچ گیا ہے

اگست میں بجلی کے اضافی بلوں کے بعد اس وقت پورے ملک میں بجلی کے زیادہ بلوں کی وجہ سے عوام احتجاج کر رہے ہیں اور بجلی کے بل نذر آتش کر رہے ہیں

اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے دو روزہ دورے پر قطر میں موجود وزیر اعظم شہباز شریف نے منگل کی شام اعلان کیا کہ ملک میں بجلی کے تین کروڑ صارفین میں سے ایک کروڑ 71 لاکھ کو بجلی کے بلوں پر فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز نہیں دینا پڑیں گے

تاہم ابھی تک یہ واضح نہیں کہ جو لوگ زائد بل جمع کروا چکے ہیں اور جن کے بل پرنٹ ہو کر آ گئے ہیں وہ اس اعلان سے کیسے استفادہ کریں گے؟

واضح رہے کہ پاکستان میں بجلی سب سے زیادہ گھریلو صارفین استعمال کرتے ہیں اور حکومتی اعداد و شمار کے مطابق ان کی تعداد 50 فیصد کے لگ بھگ ہے

تجارتی بنیادوں پر بجلی استعمال کرنے والے سات فیصد اور صنعتی صارفین 25 فیصد ہیں۔ اس کے علاوہ زرعی صارفین کی تعداد نو فیصد اور دیگر شعبے آٹھ فیصد بجلی استعمال کرتے ہیں

وزیر اعظم شہباز شریف کے اس اعلان کے ساتھ ہی یہ سوال بھی گردش کرنے لگا کہ حکومت یہ رعایت کیسے دے گی اور اس ریلیف کے لیے رقم کہاں سے آئے گی

واضح رہے کہ بجلی کے شعبے کے ریگولیٹر نیپرا نے کے الیکٹرک کو 11.37 روپے فی یونٹ اور پاکستان کی دوسری پاور ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کو 9.89 روپے فی یونٹ فیول ایڈجسٹمنٹ کی اجازت دی تھی جسے اگست کے مہینے میں وصول کرنے کی اجازت دی گئی تھی

زیادہ بل کی وجہ: فیول پرائس ایڈجث

بجلی کے زیادہ بل کو دیکھتے ہی لوگ سب سے پہلے دیوار پر لگے اے سی، یا میز پر پڑی استری کو الزام دیتے ہیں، لیکن پھر جب ان کی نظر استعمال شدہ یونٹس پر پڑتی ہے تو یہ گذشتہ ماہ سے کچھ زیادہ نہیں ہوتے

ایسے میں یہ بھی سوچا جا سکتا ہے کہ اگر یونٹ بھی زیادہ استعمال نہیں ہوئے تو کیا پھر حکومت نے آسمانی بجلی کا بل بھی اس بل میں شامل کر دیا ہے؟

بل کا بغور جائزہ لینے پر نظریں جب انگریزی کے تین حروف ’ایف پی اے‘ پر پڑتی ہیں تو اس کے سامنے لکھی رقم پڑھ کر بجلی کا ایک جھٹکا سا لگتا ہے

جی ہاں، یہ مار ایف پی اے کی ہے، جو ’فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ’ کا مخفف ہے۔ اس کی مد میں لکھی رقم دیکھ کر پتہ چلتا ہے کہ اس بھاری بل کے لیے برقی آلات یا گھر کے کسی فرد کا کوئی قصور نہیں، بلکہ یہ کاررستانی موجودہ حکومت کی ہے

بدقسمتی سے اس موسمِ گرما میں یہ گھر گھر کی رام کہانی ہے اور گذشتہ دو ماہ سے سب ہی اپنے گھر کے بجٹ یہ سوچ کر بنا رہے ہیں کہ ابھی بجلی کا بل بھی آنا ہے۔ یہی نہیں بجلی کے بلوں کے خلاف ملک کے مختلف علاقوں میں احتجاج بھی ہوئے ہیں

سوشل میڈیا پر بجلی کے بلوں کی قیمتوں میں غیر معمولی اضافے پر ایک طرف تو صارفین کی جانب سے تنقید کی جا رہی ہے لیکن ساتھ ہی بجلی کے بل کا بغور جائزہ لینے والے ایف پی اے سے متعلق سوال بھی اٹھا رہے ہیں

تو یہ فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کیا ہے، اس کا تعین کون اور کیسے کرتا ہے اور کیا اس کا بوجھ عوام پر ڈالنے کے سوا کوئی چارہ نہیں؟

فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کیا ہے؟

توانائی کے شعبے کے ماہر مصطفیٰ امجد کا کہنا ہے کہ فیول ایڈجسٹمنٹ کا ایک سیدھا سادھا مینکنزم ہے جس کے تحت بجلی کی پیداوار کی لاگت میں اضافے کو صارفین سے وصول کیا جاتا ہے اور اگست کے مہینے میں بھی یہی نظر آیا کہ بجلی کی پیداوار کی لاگت میں اضافے کو صارفین سے وصول کیا گیا، جس کی وجہ سے بجلی کے بل بہت زیادہ بڑھ گئے ہیں

عارف حبیب لمیٹڈ میں ہیڈ آف ریسرچ طاہر عباس کہتے ہیں ”فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کو سمجھنے کے لیے ایکچوئل فیول کاسٹ (ایک ماہ میں ایندھن پر آنے والی لاگت) اور ریفرنس فیول کاسٹ سمجھنا ضروری ہے“

انہوں نے اس کی تفصیل بتاتے ہوئے مزید کہا:

ہر مالی سال کے آغاز میں نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) ایک ریفرنس فیول کاسٹ دیتا ہے۔ یعنی ایک ایسا حوالہ، جس سے ہر ماہ ایندھن پر آنے والی کل لاگت کا موازنہ کیا جا سکے

ایک مہینے میں بجلی کی پیداوار میں استعمال ہونے والے ایندھن کی کُل لاگت (باسکٹ فیول کاسٹ) دراصل ملک میں توانائی کے مختلف ذرائع میں استعمال ہونے والے ایندھن (جیسے کوئلہ، ایل این جی، فرنس آئل) پر آنے والی لاگت کے اعتبار سے نکالی جاتی ہے

یوں ہر ماہ کے اختتام پر اس ماہ کی مجموعی فیول کاسٹ کا موازنہ ریفرنس فیول کاسٹ سے کیا جاتا ہے اور اسی حساب سے یہ ’ایڈجسٹمنٹ‘ دو ماہ کے بعد بجلی کے بلوں میں لگ کر آتی ہے

اگر اُس ماہ مجموعی فیول کاسٹ، ریفرنس کاسٹ سے زیادہ ہو تو آپ کے بل میں ایف پی اے کی مد میں اضافہ ہوگا جبکہ اگر اس ماہ کی مجموعی فیول کاسٹ ریفرنس کاسٹ سے کم ہو تو ایف پی اے کی مد میں کمی آتی ہے۔ اسے ہی فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کہتے ہیں

فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کے تعین کا طریقہ کار کیا ہے؟

اس بارے میں ماہر معیشت عمار حبیب خان کا کہنا ہے ”فیول کاسٹ ایڈجسٹمنٹ کا تعین کرنے کے لیے متعدد عوامل کار فرما ہوتے ہیں لیکن اس میں سب سے اہم یہ ہے کہ توانائی کے کن ذرائع سے پیداوار ہوئی ہے

اس کی تفصیل انہوں نے یوں بتائی:

اگر کوئی پاور پلانٹ کوئلہ استعمال کرتا ہے تو یہ دیکھا جائے گا کہ اس نے کتنا کوئلہ استعمال کیا اور یہ کس قیمت پر خریدا گیا یعنی مجموعی طور پر بجلی کی پیداوار توانائی کے کن ذرائع سے ہوئی اور اس پر کتنی لاگت آئی

مثال کے طور اگر ہائیڈل کے ذریعے بجلی کی پیداوار زیادہ ہوئی ہے تو مجموعی طور پر فیول پرائس کم ہو جائے گی، یا اگر کسی ماہ گیس زیادہ استعمال ہوئی تو کیونکہ اس کی قمیت زیادہ ہوتی ہے، اس لیے فیول پرائس زیادہ ہو جائے گی

اس میں روپے کی قدر میں کمی یا بہتری بھی اثر انداز ہوتی ہے

اس کی وجہ یہ ہے کہ کوئلہ، ایل این جی اور فرنس آئل درآمد کیا جاتا ہے اس لیے روپے کی قدر میں کمی یا بہتری کا مجموعی لاگت پر براہ راست اثر پڑتا ہے

جبکہ آئیسکو کی جانب سے اس بارے میں گذشتہ روز جاری کردہ اعلامیے کے مطابق اس میں تھرمل جنریشن کے لیے سستے ایندھن کی عدم دستیابی کا بھی عمل دخل ہوتا ہے

ایف پی اے کو بل میں شامل کرنے کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے؟

عمار خان کہتے ہیں ’حکومت کی جانب سے پہلے فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کی مد میں سبسڈی دی جاتی تھی۔ اب یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ اسے بل میں ہی لگایا جائے

طاہر عباس کہتے ہیں کہ ایک سال پہلے تک ایندھن کی لاگت میں بہت زیادہ تبدیلی نہیں آ رہی ہوتی تھی لیکن گذشتہ چند ماہ سے دنیا بھر میں ایل این جی اور کوئلے کی قیمتوں میں بہت زیادہ اضافہ ہونا شروع ہوا ہے

تاہم ان کا کہنا تھا ’آئندہ مہینوں میں عالمی مارکیٹ میں قیمتوں میں کمی آنے کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے اور انرجی مکس میں ہائیڈل کا حصہ بھی بڑھے گا، اس لیے مجموعی فیول کاسٹ کم ہونے کا امکان ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا ’فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ دراصل دو ماہ کی تاخیر سے ہو رہی ہوتی ہے، یعنی اگست کے مہینے کے بل میں جون کے مہینے کی فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ نظر آئے گی۔

’آنے والے مہینوں میں ہائیڈل کا شیئر بڑھنے کے باعث مجموعی لاگت میں کمی آتی جائے گی۔‘

بل پر لگنے والے ٹیکس کون سے ہیں ان سے بل میں کتنا اضافہ ہوتا ہے؟

خیال رہے کہ صرف فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ ہی نہیں بلکہ بل پر متعدد ٹیکسز بھی لگتے ہیں۔ عمار خان اور طاہر عباس بتاتے ہیں کہ یہ ٹیکس بل کی مجموعی قیمت پر لگائے جاتے ہیں

عمار خان کہتے ہیں ’اگر آپ کبھی بل دیکھیں تو اس کا 30 سے 32 فیصد حصہ ٹیکسز ہوتے ہیں یعنی جب آپ کے یونٹ کی قیمت بڑھتی ہے اور فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ میں اضافہ ہوتا ہے تو ساتھ ہی آپ کا جی ایس ٹی بڑھتا ہے کیونکہ یہ تمام چیزیں منسلک ہوتی ہیں۔‘

واضح رہے کہ آئیسکو کی جانب سے جاری اعلامیے کے مطابق بجلی کے بل پر لگنے والے ٹیکسز میں 17 فیصد جنرل سیلز ٹیکس، الیکٹریسٹی ڈیوٹی اور انکم ٹیکس شامل ہوتے ہیں

آئیسکو کی جانب سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ میں اضافہ دراصل مئی جون میں مہنگے فرنس آئل سے پیدا ہونے والی بجلی کے باعث ہوا جو اگست کے بعد بتدریج کم ہو جائے گا

اس تمام بحث میں ایک بات صارف کے لیے سمجھنی ضروری ہے کہ اگست کے مہینے میں بجلی کے بل میں شامل کی جانے والی فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کا براہِ راست تعلق جون کے مہینے میں آپ کے بجلی کی استعمال سے ہے یعنی آپ نے اگر جون کے مہینے میں جولائی سے زیادہ بجلی استعمال کی ہے تو عین ممکن ہے کہ اگست کے بل میں فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کی مد میں لی جانے والی رقم آپ کے اصل بل کی رقم سے بھی زیادہ ہو

ایف اے پی اور سوشل میڈیا پر ردِعمل

بجلی کے بلوں کی قیمتوں میں اضافے پر سوشل میڈیا پر خاصا سخت ردِ عمل دیکھنے میں آ رہا ہے اور لوگ موجودہ حکومت سے یہ سوال پوچھ رہے ہیں کہ وہ اتنا زیادہ بل کیسے ادا کریں

اس حوالے سے صارفین کی جانب سے بجلی کے بلز کی تصاویر بھی پوسٹ کی جا رہی ہیں اور مختلف شہروں میں احتجاج کرنے والے عوام کی وڈیوز بھی گردش کر رہی ہیں

صورتحال کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ن لیگ کے خاصی قریب سمجھی جانے والی اور موجودہ حکومت کی پرجوش حامی صحافی غریدہ فاروقی نے اس بارے میں ٹویٹ کی کہ ’جتنے خوفناک اور ناقابلِ برداشت، ناقابلِ قبول بجلی کے بل آئے ہیں عوام کے اس ماہ کے، انصاف کی بات کریں تو لوگوں کو بجلی کا بل ادا کرنے سے اجتماعی انکار کر دینا چاہیے۔‘

’یہ ظلم ہے غریب اور مڈل کلاس عوام پر۔ کمرشل کے بل ایسے کہ خدا کی پناہ، لوگ کاروبار بند ہونے کی دہائیاں دے رہے ہیں، احساس کریں۔‘

حتیٰ کہ پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما اور سینیٹر آصف کرمانی اپنے بجلی کے بل کی تفصیل لکھتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’استعمال شدہ یونٹ 198 جبکہ بل 10 ہزار 412 روپے یعنی 52 اعشاریہ 58 روپے فی یونٹ۔ یہ 19 دن کا بل ہے کیونکہ میں 19 جولائی سے پانچ اگست تک بیرونِ ملک تھا۔‘

صارف ذیشان خان نیازی نے لکھا ’اس حکومت نے جو بجلی کے بل بھیجے ہیں، ان کا خمیازہ الیکشن میں بھگتیں گے۔ آپ کو احساس بھی ہے کہ عوام آپ سے کتنی متنفر ہو چکی ہے؟‘

بظاہر ن لیگ سے تعلق رکھنے والے صارف راجہ فہیم نے لکھا ’جناب وزیر اعظم شہباز شریف صاحب! ہم لوگ آپ کے ورکر ہیں۔ جس طرح آپ کی لائی مہنگائی سے عوام کی چیخیں نکل رہی ہیں اور جو بجلی کے بل آ رہے ہیں، کچھ دن بعد عوام سڑکوں پر ہوگی اور ووٹ تو کیا آپ کو پوچھے گا بھی کوئی نہیں۔‘

یہ حکومتی حامیوں کی ٹویٹس ہیں ، باقی عوام کے ردعمل کا اندازہ آپ خود ہی لگا لیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close