روہنگیا مسلمانوں کی ’نسل کُشی‘ کے پانچ برس

ویب ڈیسک

ہزاروں روہنگیا پناہ گزینوں نے جمعرات کو بنگلہ دیش میں ’نسل کُشی کا یادگاری دن‘ ریلیاں نکال کر اور ان انسانیت سوز اور وحشیانہ واقعات کی مذمت کرتے ہوئے منایا

میانمار میں فوجی آپریشن کے بعد ملک سے فرار ہونے اور مہاجرت اختیار کرنے پر مجبور روہنگیا باشندوں نے جمعرات 20 اگست کو بنگلہ دیش میں ‘نسل کشی‘ کے واقعات کے پانچ سال مکمل ہونے پر ریلیاں نکالیں

اگست 2017ع میں تقریباً ساڑھے سات لاکھ روہنگیا مسلمانوں نے بدھ مذہب کے جنونیوں کے حملوں سے بچنے کے لیے بنیادی طور پر بدھ مت کے پیروکاروں کے ملک میانمار کی سرحدیں پار کرنا شروع کیں۔ ان میں سے اکثریت نے پڑوسی ملک بنگلہ دیش میں پناہ لی اس دوران روہنگیا باشندوں کا ’قتل عام‘ ہوا

یہ واقعات اس قدر ہولناک اور وحشیانہ تھے کہ اقوام متحدہ کی اعلیٰ ترین عدالت میں انہیں نسل کشی کے ایک تاریخی مقدمے کے طور پر درج کر لیا گیا ہے

آج تقریباً دس لاکھ روہنگیا، جن میں سے نصف کی عمر اٹھارہ سال سے کم ہے، ان کیمپوں میں یا جھونپڑیوں میں کسمپرسی کی زندگی بسر کر رہے ہیں، جہاں مون سون کی بارشوں کے دوران سیوریج کا پانی اُبل پڑتا ہے اور ندی کی مانند گندگی بہنے لگتی ہے

جمعرات 25 اگست کو بنگلہ دیش کے مہاجر کیمپوں میں زندگی گزارنے والے ہزاروں روہنگیا مسلمانوں نے ریلیاں نکالیں۔ اس موقع پر اپنے احتجاج کا بھرپور اظہار کرتے ہوئے ان روہنگیا مسلمانوں نے ہاتھوں میں بینرز اُٹھا رکھے تھے، جن پر ایسے نعرے درج تھے، جن میں روہنگیا مسلمان اپنی آبائی ریاست میں اپنی واپسی کا مطالبہ کر رہے تھے۔ روہنگیا مسلمانوں کے ایک نوجوان رہنما مونگ ساوید اللہ اس موقع پر آبدیدہ نظر آ رہے تھے

ساوید اس وقت دنیا کی سب سے بڑی پناہ گزینوں کی بستی کوتوپالونگ میں منعقد ہونے والی ریلی کی قیادت کر رہے تھے، ان کا کہنا تھا ”آج وہ دن ہے، جس میں ہزاروں روہنگیا مارے گئے تھے۔25 اگست سے وابستہ درد کو صرف روہنگیا ہی سمجھ سکتے ہیں۔ آج سے پانچ سال پہلے اس دن تقریباً دس لاکھ روہنگیا بے گھر ہوئے تھے۔ 2017ع میں اس دن ہمارے تین سو سے زائد گاؤں جلا کر راکھ کر دیے گئے تھے۔‘‘

روہنگیا برادری کے ایک اور رہنما سید اللہ نے کہا ”ہم بس اپنے وطن کی طرف باعزت اور باوقار طریقے سے واپسی چاہتے ہیں۔ بدقسمتی سے، ہماری فریاد پر کسی کے کانوں میں جوں تک نہیں رینگتی۔ بین الاقوامی برادری کچھ نہیں کر رہی۔ یہاں ہم کیمپوں میں ترپال اور بانس کی پناہ گاہوں میں پڑے ہوئے ہیں اور چندے پر بمشکل زندہ ہیں‘‘

ریلیوں میں شریک بہت سے روہنگیا مسلمانوں نے 1982ع کے ایک قانون کو منسوخ کرنے کا مطالبہ بھی کیا، جس کے تحت میانمار میں ان کی شہریت چھین لی گئی تھی اور تب سے انہیں بڑے پیمانے پر غیر ملکی کے طور پر دیکھا جانے لگا

روہنگیا مسلمانوں کی مہاجر یا پناہ گزین کیمپوں سے وطن واپسی کی متعدد کوششیں ناکام ہو چُکی ہیں۔ ساتھ ہی یہ باشندے گزشتہ واقعات کے خوف سے بھی باہر نہیں نکل سکے۔ اس کمیٹی کے رہنماؤں کو شکایت ہے کہ ان کی برادری کو خاردار تاروں سے گھرے کیمپوں میں رکھا گیا ہے، جہاں سکیورٹی کی صورتحال بھی ابتر ہوتی جا رہی ہے۔ 2017ع سے اس علاقے میں رونما ہونے والے تشدد کے متعدد واقعات میں اب تک کم از کم سو افراد مارے جا چکے ہیں

بنگلہ دیشی پولیس کی طرف سے انتقامی کارروائی کے خوف سے اپنا نام بتانے سے انکار کرتے ہوئے ایک نوجوان روہنگیا کارکن نے کہا، ”یہ روہنگیا کے لیے ایک جیل ہے۔ ان پانچ سالوں میں روہنگیا کی زندگی بدتر ہو گئی ہے‘‘

اُن کا مزید کہنا تھا ”روہنگیا کی دکانوں کو مسمار کر دیا گیا تھا۔ ہمیں اپنے رشتہ داروں سے ملنے کے لیے کیمپوں سے باہر جانے کی اجازت لینا پڑتی تھی۔ تشدد اور ٹارگٹ کلنگ کی بڑھتی ہوئے واقعات کی وجہ سے ہم خود کو غیرمحفوظ محسوس کر رہے ہیں‘‘

جمعرات کو ڈاکٹرز ود آؤٹ بارڈرز (ایم ایس ایف) کی طرف سے شائع ہونے والے پناہ گزینوں کے ایک سروے سے پتہ چلتا ہے کہ روہنگیا کیمپوں کی صورتحال صحت کے حوالے سے تیزی سے بد سے بدتر ہوتی جا رہی ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close