پاکستان کے دیگر صوبوں کی طرح جنوبی صوبہ سندھ میں مون سون کی طوفانی بارشوں اور اس کے نتیجے میں آنے والے سیلاب کی تباہ کاریاں جاری ہیں
جہاں رواں سال 1961ع کے بعد مون سون اسپیلز کے دوران سب سے زیادہ بارشیں ریکارڈ کی گئیں، جن کے اعداد و شمار نے ماہرین اور حکام کو حیران کر دیا ہے
معمول سے زیادہ بارشوں کی یہ شرح سندھ میں 522 فیصد رہی۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ سندھ کے نوشہرو فیروز ضلع کے قصبے پڈعیدن میں جولائی سے اب تک 1 ہزار 722 ملی میٹر بارش ہو چکی ہے، سندھ کے کسی قصبے میں کبھی بھی یہ مقدار ریکارڈ نہیں کی گئی۔ کئی دیگر اضلاع میں بھی صورتحال غیرمعمولی رہی
ان تباہ کن بارشوں کے بعد سندھ کے سیلاب سے متاثرہ مختلف اضلاع سے کچھ متاثرین کراچی پہنچے ہیں
کراچی کے سچل گوٹھ، گلشن معمار، گلشن حدید اور دیگر علاقوں کی سرکاری عمارتوں، اسکولوں میں عارضی کیمپ قائم کیے گئے ہیں جن میں سیلاب متاثرین کے کھانے پینے کا بندوبست سرکاری اور فلاحی ادارے کر رہے ہیں
سیلاب سے متاثر ان خاندانوں میں جیکب آباد کی تحصیل ٹُھل کے رہائشی چھیاسی سالہ مشتاق احمد جمالی کا خاندان بھی شمال ہے، جہاں رواں سال مون سون نے تباہی مچا دی ہے
2010ع میں آنے والے سیلاب، جسے اب عالمی سطح پر ’پاکستان سپر فلڈ 2010‘ کے نام سے جانا جاتا ہے، کے دوران بھی مشتاق احمد جمالی کا خاندان شدید متاثر ہوا تھا
ان کے خاندان کے افراد 2010ع کے سیلاب کے دوران کراچی پہنچے اور سچل گوٹھ کے ’نیو گرامر گورنمنٹ بوائز ہائر سیکنڈری اسکول‘ میں قائم کیمپ میں ٹھہرے تھے
اب 2022 کے سیلاب میں بھی ان کا خاندان دوبارہ اسی سکول میں آن پہنچا ہے
مشتاق احمد جمالی اس تباہی کی داستان یوں بیان کرتے ہیں ”ہمارا گاؤں مکمل طور پر زیرِ آب آگیا ہے۔ کئی افراد چھتوں اور دیواروں تلے دب کر ہلاک ہو گئے۔ مویشی ڈوب گئے۔ ہم اپنے گھروں سے کچھ نہیں نکال پائے۔ صرف جان بچا کر یہاں پہنچے ہیں“
ان کا کہنا ہے ”جب ہم گاؤں سے روانہ ہوئے تو ہم نے دیکھا کہ سیلاب متاثرین روڈ کے کنارے کھلے آسمان تلے قطاروں میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ نہ ان کے پاس سر چھپانے کے لیے چھت ہے اور نہ ہی کچھ کھانے پینے کے لیے ہے۔ گڑہی خیرو سے شہداد کوٹ، قمبر، رتوڈیرو اور لاڑکانہ تک لوگ سڑک کنارے کھلے آسمان تلے بیٹھے ہیں“
مشتاق جمالی کہتے ہیں ”اس سال سیلاب سے متاثرین کی تعداد 2010ع والے سیلاب سے کئی گنا زیادہ ہے۔ 2010ع میں پانی ایک مخصوص راستے سے گزرا تھا۔ باقی جگہوں سے پانی کے بہاؤ کو روک دیا گیا تھا۔ لیکن اس بار سارا ملک ڈوبا ہوا ہے۔ میں نے اپنے پوری زندگی میں ایسی آفت نہیں دیکھی“
مشتاق احمد جمالی کے مطابق اتنی تباہی تو جنگوں میں نہیں ہوتی۔ انہوں نے 1965 کی پاکستان بھارت جنگ بھی دیکھی ہے مگر اس میں بھی اتنا نقصان نہیں ہوا جتنا اس بار سیلاب سے ہوا ہے
دوسری جانب وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ سے اقوام متحدہ کے ہیومینیٹیرین کوآرڈینیٹر مسٹر جولین ہارنیس کی ملاقات ہوئی ہے، جس میں صوبے میں تباہ کاریوں کا جائزہ لیا گیا ہے
وزیراعلی سندھ نے انہیں بتایا ہے کہ چھیاسی ہزار خیمے سندھ حکومت کے پاس موجود ہیں، جبکہ اس وقت مزید دس لاکھ خیموں سے زیادہ کی ضرورت ہے
مراد علی شاہ کا کہنا تھا کہ 15 اگست کے بعد جو تیز بارشیں ہوئی ہیں، اس میں تقریباً تمام شہر ڈوب گئے ہیں اور لاکھوں کچے مکانات زمین بوس ہوگئے ہیں
اس پر جولین ہارنس کا کہنا تھا کہ میرپورخاص، سانگھڑ اور دیگر شہروں کا دورے کرکے سروے کیا جائے گا اور متاثرین کے لیے ہر ممکن مدد فراہم کی جائے گی۔