اسپین کے دارالحکومت میڈرڈ کے شمال میں پھیلا وسیع شمال مغربی سپین کا خود مختار علاقہ کاسٹیلا و لیون وسیع پہاڑی سلسلوں، اونچے سطح مرتفع اور قرون وسطیٰ کے قصبوں کا گہوارہ ہے۔
اگرچہ زیادہ تر سیاح کاسٹیلو کے قلعوں کی جلوہ گری دیکھنے آتے ہیں جس کے نام پر اس خطے کا نام پڑا یا پھر لیون اور برگوس کے مسحور کن گرجا گھروں کی تعریف سن کر چلے آتے ہیں لیکن زیادہ تر علاقہ تاحد نظر کہرے کی چادر میں گھرا ہوا ہے۔ لیکن سیگوویا، اویلا اور ولاڈولڈ کے صوبوں میں ایک بالکل مختلف خطۂ ارضی ابھرتا ہے۔
یہاں ٹیرا ڈی پنارس اور سیرا ڈی گریڈوس پہاڑی سلسلوں کے درمیان خوشبودار پائن یعنی صنوبر کے درختوں کا چار لاکھ ہیکٹر پر محیط ایک گھنا وسیع علاقہ ہے جو پہاڑ کے دامن سے لے کر اس کے نشیب و فراز میں پھیلا ہوا ہے۔
اسپین کی تپتی ہوئی دھوپ سے محفوظ اور پگڈنڈیوں سے جڑا یہ جنگلاتی علاقہ مقامی لوگوں اور سیاحوں میں ہائيکنگ کے لیے مشہور ہے اور اگر آپ سال کے صحیح وقت پر وہاں پہنچیں اور قریب سے دیکھیں تو آپ مزدوروں کو درختوں کے تنے کے ساتھ لپٹے ہوئے دیکھ سکتے ہیں جو پائن سے ’مائع سونا‘ جمع کرنے کی صدیوں پرانی روایت کو جاری رکھے ہوئے ہیں
ایک انتہائی ترقی پذیر بازار
پائن سے نکلنے والا مائع ہزاروں سال سے مختلف تہذیبوں کے ذریعے استعمال ہوتے رہے ہیں۔ سپین اور بحیرہ روم کے بیشتر حصوں میں جہازوں کو پانی سے بچانے، علاج کرنے اور مشعلیں جلانے کے علاوہ دیگر بہت سے کاموں میں اس کا استعمال ہوتا رہا ہے لیکن میڈرڈ پولی ٹیکنیک یونیورسٹی میں جنگلات اور انجینیئرنگ کے پروفیسر الیژاندرو چوزاس کے مطابق 19ویں اور 20ویں صدی میں آ کر ہی صنوبر کے درختوں سے رس نکالنا کاسٹیلا و لیون خطے کے لیے واقعی منافع بخش ثابت ہوا۔
19ویں صدی کے وسط میں جب ٹیکنالوجی اور صنعت کاری کی ترقی ہوئی تو اس کے دودھ جیسے سیفد اور گاڑھے رس کو پلاسٹک، وارنش، گوند، ٹائر، ربڑ، تارپین اور یہاں تک کہ کھانے کی اشیا میں تبدیل کرنے میں مدد ملی اور کاسٹیلا و لیون کے گھنے صنوبر کے جنگلات کے مالکان کو ان کا مستقبل تابناک نظر آیا۔S
مزدور قیمتی رال یا رس اکٹھا کرنے کے لیے پورے علاقے میں صنوبر کے درختوں پر جگہ جگہ کلہاڑی چلا کر رس نکال کر جمع کرتے۔
بہرحال یہ وقت طلب اور دقت طلب عمل اب دنیا کے بیشتر حصوں میں ختم ہو چکا ہے لیکن پچھلی دہائی میں کاسٹیلا و لیون میں اس میں نئی جان پڑ گئی ہے۔ یہ علاقہ یورپ کے ان آخری مقامات میں سے ایک ہے پر جہاں اب بھی یہ طریقہ برقرار اور رائج ہے
موت سے حیات نو تک
ماریانو گومیز صوبہ اویلا میں پیدا ہوئے اور 32 سال تک انھوں نے پائن ریزائنر یعنی صنوبر کا رس نکالنے والے کے طور پر کام کیا۔
وہ کہتے ہیں کہ میں نے یہ کام اپنے والد سے سیکھا۔
’شروع میں، میں نے کلہاڑی کا استعمال کیا تھا لیکن میرے ہاتھوں میں بہت زیادہ درد ہوتا تھا۔ آج ہر کام کے لیے اوزار بہتر طریقے سے تیار کیے گئے ہیں (لیکن اب بھی) کام دستی ہے۔‘
گومیز اور بہت سے دوسرے مقامی لوگ اپنے گھروں میں رس نکالنے کے لیے قدیم طرز کی کلہاڑی اور اوزار رکھتے ہیں جو ان کے آباؤ اجداد کے تھے۔
اگرچہ رس نکالنے کا طریقہ اس صنعت کے آغاز پر جیسا تھا عملی طور پر بغیر کسی تبدیلی کے ویسا ہی ہے لیکن موجودہ مینوفیکچررز کو زیادہ مؤثر اور کم خرچ ٹول کے ساتھ کم خرچ کیمیائی مصنوعات بھی حاصل ہیں جن سے رس میں ابال آتا ہے۔ اس کے نتیجے میں پیداوار میں بہتری آئی ہے۔
اگرچہ ماضی میں رس نکالنے کی کوشش میں درخت کو موت کی طرف دھکیل دیا جاتا تھا لیکن اب درختوں میں کم سے کم چیرا لگایا جاتا ہے تاکہ اسے کم سے کم نقصان ہو
مارچ سے نومبر کے گرم مہینوں میں مقامی لوگ سب سے پہلے درخت کی چھال کی بیرونی تہہ کو اتار کر پائن سے رس نکالتے ہیں۔ پھر درخت پر ایک کیل گاڑ کر ایک برتن کو اس پر لٹکایا جاتا ہے تاکہ رس اس میں گرے۔
پھر رس نکالنے والا اس درخت پر ترچھا چیرا لگاتا ہے تاکہ رس قطرہ قطرہ خون کی طرح برتن میں گرے۔ جب ان کے برتن بھر جاتے ہیں تو وہ سارے درختوں سے نکلنے والے رس کو 200 کلو گرام والے برتنوں میں ڈال دیتے ہیں۔
اس کے بعد پروڈیوسرز ان کنٹینرز کو فیکٹری بھیج دیتے ہیں جہاں ڈسٹلیشن کا عمل شروع ہوتا ہے جس میں رس سے تارپین کو نکالا جاتا ہے۔ جب مائع تارپین کو ہٹا دیا جاتا ہے تو ایک چپچپا اور زرد رنگ کا گاڑھا مادہ تیار ہو جاتا ہے جو ٹھنڈا ہونے کے بعد چمکدار اور عنبر نما پتھروں میں بدل جاتا ہے
مقامی طور پر قابل فخر
سنہ 1961 میں سپین میں صنوبر سے رس نکالنے کے عروج کے زمانے میں جب 55،267 ٹن رال نکالی گئی تھی تو اس کا 90 فیصد سے زیادہ حصہ کاسٹیلا و لیون کے جنگلات سے آیا تھا۔
اس کے بعد کی دہائیوں میں رس کی مانگ اور قیمتوں میں تیزی سے کمی پیداوار میں بھی مسلسل کمی کا باعث بنی اور سنہ 1990 کی دہائی میں تقریباً ختم سی ہو گئی اور بہت سے لوگوں کو یہ پریشانی کھانے لگی کہ اس سے وابستہ ہسپانوی روایت ختم ہو رہی ہے۔
کاسٹیلا و لیون میں رس نہ صرف دیہی برادریوں کے لیے معاشی لائف لائن رہی ہے بلکہ ایک تجارت نسل در نسل منتقل ہوتی رہی ہے۔
مقامی لوگوں سے بات کریں تو آپ کو جلد ہی اندازہ ہو جائے گا کہ تقریباً ہر خاندان میں کم از کم ایک شخص ایسا ہوتا ہے جس نے درختوں کا ’خون‘ نکالا یا اس میں شامل رہا۔ ان قصبوں میں زیادہ تر اقتصادی اور سماجی سرگرمیاں ہمیشہ رس کی صنعت سے وابستہ رہی ہیں اور یہاں کی برادری اس وراثت کو اپنی ثقافت کے ایک اہم حصے کے طور پر مانتی ہے
تیل کا ایک ماحولیاتی متبادل؟
متعدد مطالعات کے مطابق موجودہ شرح کے لحاظ سے سنہ 2050 کے بعد زمین کے تیل کے ذخائر کسی دن خشک ہو جائیں گے۔ میڈرڈ کی یونیورسٹی میں قانون کی فیکلٹی کی نائب ڈین اور ماحولیاتی پالیسیوں کی ماہر بلینکا روڈریگیز چاویز کا خیال ہے کہ رس ایک مناسب متبادل فراہم کر سکتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ پیٹرولیم سے بنی زیادہ تر مصنوعات کو، مثال کے طور پر پلاسٹک جو کہ بائیو ڈیگریڈیبل نہیں، صنوبر کے رس سے بھی بنایا جا سکتا ہے اور وہ آسانی سے گل سکتی ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’رس آج کا اور مستقبل میں دنیا کا پیٹرولیم ہے۔ ارادہ یہ ہے کہ پیٹرولیم کے تمام استعمال کو رس سے بدل دیا جائے۔ پلاسٹک کو پہلے ہی رس سے بنایا جا رہا ہے۔ کاسمیٹک اور دوا سازی کی صنعت میں، (اس کا استعمال کیا جاتا ہے) تعمیر میں یا وارنش اور گلوز کی تیاری میں اس کے استعمال کے علاوہ یہ جنگل کی صورت میں قابل تجدید وسائل اور توانائی کا بہت بڑا فراہم کنندہ ہے۔ پیٹرولیم مصنوعات کے متبادل کے طور پر رس بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔’
راڈریگو کا یہ بھی خیال ہے کہ صنوبر کے رس کی غیر استعمال شدہ صلاحیت کا مطلب سپین کے لیے بڑی چیزیں ہو سکتی ہیں۔
’ہسپانوی رس دنیا میں سب سے زیادہ خالص ہے اور فی الحال صرف پرتگال اور سپین یورپ میں رس پیدا کر رہے ہیں۔‘
دیہات کی جانب واپسی
اس کے ماحولیاتی فوائد کے علاوہ صنوبر کی گوند کے حامیوں کا یہ بھی خیال ہے کہ یہ سپین کے دیہی خروج کا حل پیش کر سکتا ہے۔
بینک آف سپین کی ایک رپورٹ کے مطابق ملک کے 42 فیصد قصبے کم آبادی سے متاثر ہیں کیونکہ نوجوانوں کی بڑھتی تعداد شہروں میں روزگار کے بہتر مواقع تلاش کرنے کے لیے دیہی علاقوں کو چھوڑ دیتی ہے۔
یہ رجحان کیسٹیلا ولیون میں اور زیادہ 14 مقامی صوبوں کے 80 فیصد قصبوں کو ’ناپید ہونے کے خطرے سے دوچار‘ سمجھا جاتا ہے۔
صنوبر کی گوند میں پائی جانی والی نئی دلچسپی کے باعث چند نوجوان افراد کی کام کی تلاش میں خطے میں واپسی ہو رہی ہے۔
گیولیرمو آرنز ان افراد میں سے ایک ہیں۔ وہ کیولر سیگویا میں رہتے اور کام کرتے ہیں اور اپنے خاندان کی چوتھی پیڑھی سے تعلق رکھتے ہیں جو صنوبر کے درخت کی گوند اکٹھی کرنے کا کام کرتی رہی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’صنوبر کے جنگلات میرا دفتر ہے اور یہ مجھے وہاں کام کرنے کا موقع فراہم کرتے ہیں جہاں میں پیدا ہوا ہوں، مجھے اپنے کام کی جو بات سب سے زیادہ پسند ہے کہ یہاں میرا کوئی باس نہیں اور دوسری یہ کہ میں یہاں قدرت اور اپنے لوگوں سے براہ راست رابطے میں رہتا ہوں۔‘
’میری سلطنت‘
وسنٹے روڈرگیز ایویلا صوبے کے ان 30 افراد میں شامل ہیں جو یہاں صنوبر کی گوند اکٹھا کرنے کا کام کرتے ہیں۔ وہ اپنے آبائی قصبے کاساویجا میں رہتے ہیں اور ان کے خیالات بھی آرنز سے ملتے جلتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ’ہم یہاں چند ہی لوگ بچے ہیں، لوگ ہمیں صنوبر کی گوند نکالتا دیکھ کر حیران ہوتے ہیں۔ وہ ہمیں پرانے زمانے کا سمجھتے ہیں لیکن وہ یہ نہیں جانتے کہ ان علاقوں کا مستقبل صنوبر کی گوند سے جڑا ہے۔ میں اپنی اصل اور پہاڑوں کے درمیان واپس اس لیے آیا کیونکہ یہ مجھے اچھا لگتا ہے۔‘
ایزابل جیمنیز اس خطے کی چند خواتین میں سے ایک ہیں جو صنوبر کی گوند اکٹھا کرنے کا کام کرتی ہیں۔ اس کام میں مشقت اور سختی کے پیش نظر عموماً خواتین کو اس کام میں مدد تک محدود سمجھا جاتا ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ ’مجھے آج بھی یاد ہے جب میں نے گوند نکالنا شروع کی تو مردوں نے میرا مذاق اڑایا اور اس بات پر شرطیں لگائیں کہ دیکھتے ہیں کہ یہ کتنے ہفتے ایسا کر پاتی ہے۔‘
’اور آج مجھے یہ کام کرتے تین سال سے زیادہ ہو گئے ہیں۔ میں جسمانی طور پر ایک مضبوط عورت ہوں اور آج نہ صرف یہ میرا زندگی کا طرز عمل ہے بلکہ میرے روزگار کا ذریعہ بھی۔ یہ میری سلطنت ہے۔ زمین پر میری چھوٹی سی دنیا۔‘
کام میں خود مختاری
آج تقریباً 96 فیصد صنوبر کی گوند کیسٹیلا ولیون سے اکٹھی کی جا رہی ہے۔ آرینز اور روڈگریز کا ماننا ہے کہ ان قدیم جنگلات کو بچانے کا سب سے اچھا طریقہ یہ ہے کہ صنوبر کے شوقین افراد کو یہاں زیادہ اختیار دیا جائے۔
روڈگریز کہتے ہیں کہ ’مستقبل یہ ہے کہ گوند نکالنے والوں کو اپنے علاقے کا خود انتظام کرنے دیا جائے، اگر حکومت اس کے بدلے ہمیں پہاڑوں کو صاف کرنے اور اس کی دیکھ بھال کرنے میں مالی امداد دے تو ہم پورا سال کام کریں گے اور پھر پہاڑوں پر گوندھ اکٹھا کرنے والے مزید مزدور بھی ہو گے جو یہاں کام کرنا چاہتے ہیں۔‘
زیادہ سے زیادہ نوجوانوں کو دیہی قصبوں میں کام کرنے اور رہنے پر راغب کرنے سے روڈگریز کا ماننا ہے کہ خطے میں ایکو ٹورزم یعنی سیاحت بھی بڑھے گی اور زیادہ سے زیادہ کمپنیاں سیاحوں کو جنگلات کی سیر کے لیے لے کر آئیں گے اور مقامی عجائب گھروں میں گوند کشید کرنے کی ورکشاپ ہوں گی۔
گوند سے جڑی سیاحت
اس خواب کو حقیقت میں تبدیل کرنے کے لیے گوند سے بھرے خطے وادی تیٹر نے حال ہی میں اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو بائیو سفئیر کی حفاظت میں آنے کی درخواست دی ہے۔
اس علاقے میں متعدد عجائب گھر بھی ہیں۔ جن میں کیسیلا عجائب گھر، ناوا اورو عجائب گھر اور اونا عجائب گھر شامل ہیں۔ یہاں سیاح ان جھونپڑیوں کو دیکھ سکتے ہیں جہاں قدیم زمانے کے گوند کشید کرنے والے مزدور رہتے تھے اور یہاں ان کے قدیم اوزار بھی رکھے گئے ہیں۔
یہاں متعدد ایسی کمپنیاں بھی ہیں جو سیاحوں کو سیاحتی دورے پر لے جانے کی پیشکش کرتی ہیں جن میں گوند اکٹھا کرنے سے لے کر جنگلات کی سیر اور مقامی عجائب گھروں کا دورہ شامل ہے۔
ہفتہ وار چھٹیوں میں گھنے جنگلوں کی ان پگڈنڈیوں پر سیاحوں کے قدموں کی چاپ سنائی دیتی ہے، جو شہر کی شور و شرابے کی زندگی سے دور کچھ وقت یہاں بتانے آتے ہیں۔
اگر آپ ان جنگلوں میں غور سے سنیں تو آپ کو درختوں کے تنوں پر لٹکے مٹکوں پر سپین کا مایا سونا قطرہ قطرہ ٹپکتا سنائی دے گا
رپورٹ بحوالہ بی بی سی اردو