انسانیت ابھی زندہ ہے: غریب مزدور نے سیلاب زدہ گھر سے ملنے والا سونا اور نقدی واپس کر دی

ویب ڈیسک

ہتھالہ کے اس بدنصیب گاؤں میں سیلاب کا ریلا اس قدر اچانک آیا کہ کسی کو سنبھلنے کا موقع ہی نہ ملا، سب لوگ مال متاع چھوڑ چھاڑ کر اپنی جان بچا کر وہاں سے محفوظ مقامات پر چلے گئے

اس گاؤں کے پاس ہی واقع چھینہ گاؤں کے لگ بھگ ڈیڑھ سو مزدور فوری طور پر قریبی گاؤں میں مدد کو پہنچ گئے تھے، محمد بلال بھی انہی میں شامل تھے

جس وقت بلال سیلاب زدہ مکان کے ملبے سے سامان نکال رہے تھے، تو انہیں ایک تباہ شدہ مکان سے رقم اور سونا ملا، جسے انہوں نے اپنے پاس سنبھال کر رکھ لیا۔ حالانکہ اس وقت مالک مکان وہاں موجود نہیں تھے

بلال بتاتے ہیں ”میں تو ایک مزدور ہوں، سیلاب سے جب قریبی گاؤں تباہ ہوا تو لوگوں کی مدد کے لیے ہم وہاں پہنچے تو ایک جوسر میں پڑی رقم اور سونا مجھے مل گیا تھا“

چھبیس سالہ محمد بلال مقامی سطح پر مزدوری کرتے ہیں، زیادہ تر بارانی زمینوں میں کام کرتے ہیں

انھوں نے بتایا ”جب ہتھالہ میں سیلاب سے تباہی ہوئی تو وہ دوسرے دن لوگوں کی مدد کو وہاں پہنچے تھے۔“ بلال کا تعلق قریبی دیہات چھینہ سے ہے

ان کا کہنا تھا ”جب ہم ہتھالہ پہنچے تو وہاں بیشتر مکان تباہ تھے اور ہر مکان کا سامان ملبے تلے گرا پڑا تھا، ایک یہ خوف بھی تھا کہ کہیں ملبے تلے کوئی انسان یا جانور نہ آیا ہو۔۔ ہم کچھ لوگ وہاں دیہات میں لوگوں کی مدد کو پہنچے تھے اور مکانات سے ملبہ اور سامان نکال رہے تھے“

سیلاب آنے کے بعد پہلے روز وہ سارا دن لوگوں کی مدد کے لیے وہاں موجود تھے اور شام کو واپس گھر آ گئے تھے

دوسرے روز جب وہ وہاں پہنچے تو وہاں تباہ شدہ مکان کا سامان اکٹھا کر رہے تھے کہ اتنے میں ایک مکان کے ملبے کے نیچے ایک جوسر پڑا تھا

بلال بتاتے ہیں ”میں نے جوسر اٹھا کر دیکھا تو اس کے جگ میں کچھ سامان تھا۔ جوسر سے لفافہ نکالا تو اس میں نقد رقم اور سونے کے زیورات پڑے تھے۔ رقم سات لاکھ روپے تھی اور سونے کی زیورات کوئی تین تولے تھے۔ میں نے وہ سامان اٹھا لیا۔۔ وہاں اس مکان کے مالک موجود نہیں تھے اور سب لوگ اس وقت اپنا اپنا سامان نکالنے میں مصروف تھے“

بلال نے بتایا ”تیسرے روز جب وہ وہاں پہنچے تو اس مکان کے مالک کی تلاش شروع کر دی تھی۔ اتنے میں انہیں اس مکان کا مالک ملا جن سے انہوں نے دریافت کیا اور نشانی مانگی جس کے بعد ان کی امانت ان کے حوالے کر دی“

مقامی لوگوں نے بتایا کہ مالک مکان کو ذرا بھر بھی یقین نہیں تھا کے اتنے بڑے سیلاب میں ان کا سامان محفوظ ہوگا جبکہ ان کا سارا مکان مٹی کا ڈھیر بن چکا ہے اور کافی سامان پانی کے ساتھ بہہ گیا ہے

بلال سے جب اتنی بڑی رقم اور سونا واپس کرنے کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے بڑی سادگی سے جواب دیا ”اس میں اتنی بڑی بات کیا ہے۔۔ یہ تو کچھ بھی نہیں ہے۔۔ جس کا سامان تھا، ہم نے انہیں واپس کر دیا ہے۔۔ اس میں میرا کوئی کمال نہیں ہے“

ایک سوال کے جواب میں بلال نے کہا ”میرے دل میں یہ خیال بھی نہیں آیا کہ یہ سامان میں اپنے پاس رکھ لوں یا مالک کو واپس نہ کروں یہاں تک کہ میں نے اپنے گھر میں بھی نہیں بتایا کہ مجھے یہ رقم اور سونا ملا ہے“

بلال شادی شدہ ہیں اور ان کے دو بچے ہیں۔ وہ مزدوری کرتے ہیں اور ایک پسماندہ گاؤں میں رہتے ہیں۔ وہ چار بھائی ہیں اور سب مزدوری کرتے ہیں

اس علاقے میں صرف بلال ہی ایسے نہیں ہیں، جنہوں نے اتنی بڑی مثال قائم کی ہے بلکہ اس گاؤں کے بیشتر لوگ ’دل کے امیر ہیں‘ لوگوں کے دکھ درد میں شریک ہوتے ہیں اور سب کچھ بانٹ کر کھاتے ہیں، کسی کو تکلیف میں نہیں دیکھ سکتے

محمد ایاز اور محمد بلال ایک ہی گاؤں چھینہ کے رہائشی ہیں۔ محمد ایاز نے بتایا کہ چھینہ سے ہتھالہ کوئی پندرہ کلومیٹر دور ہے۔ چھینہ ٹانک کے قریب ہے، جبکہ ہتھالہ تحصیل کلاچی کا حصہ ہے

ایاز بتاتے ہیں ”جس رات سیلاب آیا تو خطرہ تھا کہ زیادہ تباہی ہوگی، ہم سب خوفزدہ تھے کہ سیلاب سے ان کا گاؤں چھینہ زیادہ متاثر نہیں ہوا، بس گاؤں میں پانی داخل ہوا ہے لیکن کوئی زیادہ نقصان نہیں ہوا“

انہیں جب معلوم ہوا کہ ہتھالہ میں نقصان زیادہ ہوا ہے تو اپنے گاؤں یعنی چھینہ کے کوئی ڈیڑھ سو کے لگ بھگ افراد اکٹھے ہوئے اور یہ فیصلہ کیا کہ وہ ہتھالہ جا کر لوگوں کی مدد کریں گے

سیلاب کے بعد اگلی صبح وہ سب اپنے اوزار، خوراک اور دیگر سامان لے کر ہتھالہ پہنچ گئے اور وہاں مقامی لوگوں نے کہا کہ اگر کسی کو مدد کی ضرورت ہے تو وہ حاضر ہیں

اس کے بعد جس گھر کو بھی ضرورت ہوتی تھی، وہ چار یا پانچ آدمی ساتھ لے جاتے۔ اس دوران ملبے سے سامان نکالنا، گھر سے مٹی اور پانی نکالنا اور اس کے علاوہ ان کو جس مدد کی ضرورت ہوتی تھی، وہ ان کے ساتھ کرتے تھے

محمد ایاز نے بتایا ”ہم اپنے گھر والوں سے کہتے تھے کہ ہمیں صبح جلدی اٹھا دینا، پھر ہم گھر میں ناشتہ کرتے اور دوپہر کا کھانا، دودھ اور چائے کی پتی کے علاوہ اور کوئی ضرورت کا سامان ہوتا، تو وہ ساتھ لے جاتے تاکہ وہاں موجود لوگوں کی مدد بھی کر سکیں“

”ہم یہ کھانا وہیں ساتھ کھاتے، خود ادھر چائے بنا لیتے وہ بھی ان متاثرین کے ساتھ پیتے تھے“

ان پسماندہ علاقوں میں انسانی ہمدردی کا واقعات بے تحاشہ سامنے آتے ہیں لیکن مقامی لوگوں کے نزدیک یہ کوئی بڑی بات نہیں ہے

سوشل میڈیا پر بلال کا چرچا ہوا تو اکثر صارفین کا کہنا تھا کہ انسانیت ابھی مری نہیں ہے، بلکہ ایسے لوگ زندہ ہیں، جو امانت دار بھی ہیں اور لوگوں کی مدد بھی کرتے ہیں

خیبر پختونخوا کے جنوب میں واقع پسماندہ ٹانک سے ڈیرہ اسماعیل خان کی جانب جائیں تو راستے میں یہ پسماندہ گاؤں آتے ہیں۔ کچھ سڑک کے قریب ہیں تو کچھ سڑک سے بہت دور

محمد ایاز کے مطابق ”ہم جب ہتھالہ لوگوں کی مدد کے لیے جاتے تھے تو پانچ کلومیٹر کا فاصلہ پانی سے گزر کر جاتے تھے۔ جوتی گھر سے نکال کر روانہ ہوتے اور بڑی سڑک پر پہنچ کر پھر پہنتے تھے“

ان علاقوں میں سیلاب نے بڑے پیمانے پر تباہی کی ہے۔ ہتھالہ گاؤں کے بارے میں لوگوں نے بتایا کہ اس گاؤں کے صرف چار مکان محفوط رہے ہیں، باقی سب مکان سیلابی ریلے سے تباہ ہو گئے ہیں

سیلاب کا ریلا گاؤں کو تباہ کرتے ہوئے گزر گیا لیکن تباہی کے آثار چھوڑ گیا ہے۔ ہتھالہ اور اس کے قریب ایسے گاؤں ہیں، جن کا ایسے صفایا ہوا ہے، جیسے وہ یہاں موجود ہی نہ تھے، بعض علاقے آثار قدیمہ کی طرح نظر آتے ہیں

ان علاقوں میں پانی کی شدید قلت پائی جاتی ہے سارا سال یہ لوگ جوہڑوں میں موجود پانی پیتے ہیں اور ان دنوں میں بارشوں اور سیلاب سے اپنے لیے پانی جمع بھی کرتے ہیں اور اس سے آبپاشی بھی ہوتی ہے

یہاں زیادہ تر بارانی زمینیں ہیں، بارش ہو جائے اور سیلاب آ جائے تو زمینیں سیراب ہو جاتی ہیں نہ آئے تو خشک سالی اور سیلاب زیادہ آ جائے تو پھر تباہی ہوتی ہے

بلال اور اس کے گاؤں والوں نے تو اپنے عمل سے لوگوں کو ابھی انسانیت کے زندہ ہونے کا یقین دلا دیا، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اب حکمران بھی سیلاب متاثرین کے لیے ملنے والی ملکی اور غیر ملکی امداد کے حوالے سے ایک غریب مزدور بلال کی پیروی کریں گے؟

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close