رواں سال جون کے وسط سے شروع ہونے والی شدید بارشوں اور ان کے نتیجے میں سیلابی ریلوں کے باعث اس وقت پاکستان کی ایک تہائی حصہ زیر آب آ چکا ہے، جبکہ تین کروڑ سے زیادہ لوگ متاثر ہوئے ہیں
حالیہ طویل مون سون میں ریکارڈ توڑ بارشوں اور تباہ کن سیلاب کو کچھ حلقے ایک سازش کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ یہ تباہی قدرتی آفت کی بجائے بالائی فضا کے مطالعے سے متعلق امریکی پراجیکٹ ہارپ (HAARP) کی وجہ سے ہے
اسی حوالے سے سوشل میڈیا پر جاری ایک بحث میں بارشوں اور سیلاب کے باعث ہونے والی تباہیوں کے پیچھے امریکہ کا ہاتھ تلاش کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے
اس سلسلے میں یوٹیوب پر کئی وی لاگز بھی کیے گئے ہیں، جبکہ ایک اردو اخبار میں ‘آن لائن انکشاف’ کے حوالے سے ملک میں بارشوں اور سیلاب کی تباہ کاریوں کا ذمہ دار امریکی پراجیکٹ ہارپ کو ٹھہرایا گیا ہے
کیا کہا جا رہا ہے؟
اخبار ”نیویارک ٹائمز“ میں ایک اسٹوری 8 دسمبر 1915ع میں امریکہ کے سائنسدان نیکولا ٹیسلا کے سائنسی تھیوری ٹیکنالوجی اور ایجادات کے بارے میں شائع ہوئی اور دوسری اسٹوری بھی ”نیویارک ٹائمز“ میں ہی مگر کوئی 25 سال بعد یعنی 22 ستمبر 1940ء کو شائع ہوئی۔ اس وقت اِس امریکی سائنسدان کی عمر کوئی 80 سال کی تھی، اس میں انہوں نے یہ نظریہ پیش کیا کہ موسم میں ایسے تغیرات لائے جا سکتے ہیں جو بارش برسا سکتے ہیں اور زلزلہ لا سکتے ہیں یا کسی جہاز کے انجن کو کسی خاص جگہ سے 250 کلومیٹر پہلے ہی ایک چھوٹی سی شعاع سے پگھلا یا جا سکتا ہے، کسی خاص ملک خطہ یا علاقے کے گرد شعاعوں کا دیوار چین جیسا حصار قائم کر سکتا ہے مگر معروف امریکی سائنسدانوں نے اس نظریہ کو یہ کہہ کر مشہور نہیں ہونے دیا کہ اُن کے نظریہ کو قبول کر لیا جائے تو کرہِ ارض کو توڑ دے گا مگر امریکی حکومت نے اُن کے نظریہ کو پایہِ تکمیل تک پہنچانے کے لئے پینٹاگون کو ذمہ داری سونپی
پینٹاگون نے High Frequency Active Aurol Research Program (HAARP) پر کام شروع کیا اور الاسکا سے 200 میل کی دوری پر ایک انتہائی طاقتور ٹرانسمیٹر نصب کیا۔ 23 ایکڑ پلاٹ پر 180 ٹاورز پر 72میٹرر لمبے انٹینا نصب کئے جس کے ذریعہ تین بلین واٹ کی طاقت کی Electromagnetic wave) 2.5-10(میگا ہرٹز کی فریکوئنسی سے چھوڑی جاسکتی ہے۔ اس کے علاوہ امریکن اسٹار وارز، میزائل ڈیفنس اسکیم اور موسم میں اصلاح اور انسان کے ذہن کو قابو کرنے کے پروگراموں پر عمل درآمد کر رہی ہے۔ موسمی تغیرات پیدا کرنے کے لئے ایک کم مگر طے شدہ کرہِ ارض کے فضائی تہوں میں کہیں بھی، جہاں موسمی تغیر لانا ہو، سے وہ الاسکا کے اس اسٹیشن سے ڈالی جاسکتی ہے جو کئی سو میلوں کی قطر میں موسمی اصلاح کر سکتی ہے۔ امریکہ میں کسی بھی ایجاد کو رجسٹر کرانا ضروری ہے اور اس میں اُس کا مقصد اور اُس کی تشریح کرنا ضروری ہے چنانچہ HARRP کا پنٹنٹ نمبر 4,686,605 ہے، اس کے تنقید نگار نے اس کا نام ’جلتی ہوئی شعاعی بندوق‘ رکھا ہے۔ اِس پنٹنٹ کے مطابق یہ ایسا طریقہ اور آلہ ہے جو کرہِ ارض کے کسی خطہ میں موسمیاتی تغیر پیدا کردے اور ایسے جدید میزائل اور جہازوں کو روک دے یا اُن کا راستہ بدل دے، کسی پارٹی کے مواصلاتی نظام میں مداخلت کرے یا اپنا نظام مسلط کردے۔ دوسروں کے انٹیلیجنس سگنل کو قابو میں کرے اور میزائل یا ایئر کرافٹ کو تباہ کردے۔ راستہ موڑ دے یا اس کو غیر موثر کردے یا کسی جہاز کو اونچائی پر لے جائے یہ نیچے لے آئے۔ اس کا طریقہ پنٹنٹ میں یہ لکھا ہے کہ ایک یا زیادہ ذرات کا مرغولہ بنا کر بالائی کرہِ ارض کے قرینہ یا سانچے (Pattern) میں ڈال دے تو اس میں موسم میں تبدیلی لائی جا سکتی ہے۔ اس کو موسمی اصلاح کا نام دیا گیا۔ پنٹنٹ کے مطابق موسم میں شدت لانا یا تیزی یا گھٹنا، مصنوعی حدت پیدا کرنا، اس طرح بالائی کرهِ ارض میں تبدیلی لا کر طوفانی سانچہ یا سورج کی شعاعوں کو جذب کرنے کے قرینے کو تبدیل کیا جاسکتا ہے اور اس طرح زمین کے کسی خطہ پر انتہائی سورج کی روشنی، حدت کو ڈالا جا سکتا ہے۔ اس نظام پر ایک کتاب Angles Don’t play this Haarp” ” جو دو سائنسدانوں JEANE MANNING اور Dr. NICK BEGICH نے لکھی ہے، اس کے مطابق کرہِ ارض کا اوپری قدرتی نظام جو سورج کی روشنی کا اس طرح بندوبست کرتا ہے کہ اُس کو انسان دوست رکھنے کے لئے نقصان دہ شعاؤں کو جذب کر لیتا ہے، مگر ہارپ کا مقصد Ionosphere کو اپنی مرض کے مطابق چلانا ہے، اس کو Ionospheric Heater کا نام بھی دیا گیا ہے۔ اس کے ذریعہ وہ مصنوئی حدت یا اس میں کمی بیشی کی جا سکتی ہے۔ ہارپ کے بارے میں پہلی اطلاع 1958ء میں وہائٹ ہاؤس کے موسم کی اصلاح کے چیف ایڈوائزر کیپٹن ہوورڈ ٹی اور ویلی یہ کہہ کر دی کہ امریکہ کرہ ارض کے موسم کو ہیرپھیر کے ذریعہ متاثر کرنے پر تجربات کر رہا ہے۔ اسی طرح 1986ء پروفیسر گورڈن جے ایف میکڈونلڈ نے ایک مقالہ لکھا کہ امریکہ ماحولیات کنٹرول ٹیکنالوجی کو ملٹری مقاصد کے حصول کے لئے تجربات کر رہا ہے۔ یہ جغرافیائی جنگوں میں کام آئے گی اور قلیل مقدار کی انرجی سے ماحول کو غیر مستحکم کردے گا
امریکہ کی رعونت کے پیچھے اُس کی وہ سائنسی طاقت ہے، جس میں ایٹم بم بھی ایک حقیر ہتھیار ہو کر رہ گیا ہے۔ وہاں پر موسموں کا ہیرپھیر، آب و ہوا کی اصلاح، قطب جنوبی و قطب شمالی کے برف کو بڑی مقدار میں پگھلانا یا پگھلنے کو روکنا اور اوزون کی تہوں کو تراشنا، سمندر لہروں کو قابو کرنا، دماغی شعاعوں کو قبضہ کرنا، دو سیاروں کی انرجی فیلڈ پر کام ہو رہا ہے۔
پاکستان میں موسم برسات میں عموماً مون سون کے بادل مشرق سے آتے ہیں اور سردیوں کی بارش کے مون سون مغرب سے، مگر اس دفعہ جس کی وجہ سے پاکستان میں تاریخ کا بدترین سیلاب آیا، جس سے پاکستان کی زرعی معیشت زمین بوس ہوگئی اور کروڑوں افراد بے گھر ہوگئے۔ مون سون کے بادل مشرق اور مغرب سے آئے اور وزیرستان و شمالی علاقہ جات میں آکر ٹکرا گئے، اب ایسا کیوں ہوا۔ اس کے بعد ہم یہ سوچنے میں حق بجانب ہونگے کہ پاکستان میں جو بد ترین بارش ہوئی اور ہیبتناک طوفان آیا، اس کی وجہ قدرتی موسمی تغیرات ہیں، یا یہ سب کچھ کسی انسانی عمل کے باعث ہوا؟
اس بات کے امکانات موجود ہیں کہ یہ تبدیلی بطور ہتھیار استعمال کی گئی، ایک خاص خطہ پر دو مون سون کو ٹکرا کر تباہی لائی گئی، اس کے بعد شبہات بڑھ گئے ہیں کہ 2005ء کا زلزلہ بھی زمینی پلیٹوں میں تبدیلی کرکے لایا گیا ہو، اِس بات پر بھی شک ہے کہ ایئر بلیو کی فلائٹ کے انجن کو کسی شعاع کے ذریعہ پگھلا دیا گیا اور سونامی بھی سمندری لہروں کو قابو کرنے کے کسی تجربہ کی بناء پر آیا ہو۔ ایسا کیوں کیا جارہا ہے؟ کیا ہم ان سائنسی ایجاد کے پہلے ہدف ہیں اور ہمیں زیادہ مطیع بنانے کی کوشش کی جارہی ہے یا ہمارے ایٹمی اثاثہ جات کو ٹھکانے لگانا مقصود ہے۔ ایسا کرنے کے لئے، یہ کہا جاسکتا ہے کہ دو وار کئے جاچکے ہیں، ایک زلزلہ اور دوسرا سیلاب
امریکہ آفیشلی طور پر ہارپ HAARP کے بارے میں کیا بتاتا ہے؟
ہارپ (High Frequency Active Auroral Research Program) امریکی فوج کی شروع کردہ ایک سائنسی کوشش ہے، جس کا مقصد زمین کی سطح سے پچاس میل اوپر سے خلا تک (زمین سے چار سو میل کی دوری پر) پھیلی ہوئی فضا (جسے آئنوسفیئر کہا جاتا ہے) کا مطالعہ کرنا ہے
1993ع میں شروع ہونے والا یہ منصوبہ اگست 2015ع میں امریکہ کی یونیورسٹی آف الاسکا فیئر بینکس کو منتقل کر دیا گیا تھا۔ ہارپ کی رصد گاہ (آبزرویٹری) امریکی ریاست الاسکا کے ایک چھوٹے سے شہر گاکونا کے قریب واقع ہے
یونیورسٹی آف آلاسکا کی ویب سائٹ کے مطابق ”ہارپ آئنوسفیئر کے مطالعے کے لیے دنیا کا سب سے زیادہ قابل ہائی پاور، ہائی فریکوینسی ٹرانسمیٹر ہے۔ ہارپ پروگرام عالمی سطح کی آئنوسفیرک ریسرچ تیار کرنے کے لیے پرعزم ہے، جس میں شامل ہیں:
1۔ آئنوسفیرک آلات، جن میں ہائی فریکونسی رینج میں کام کرنے والے ٹرانسمیٹر کی سہولت موجود ہے، جسے سائنسی تحقیق کی مقصد سے آئنوسفیئر کے ایک محدود حصے کو عارضی طور پر ابھارنے (excite کرنے) کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے
2۔ جدید ترین سائنسی یا تشخیصی آلات، جنہیں آئنوسفیئر کے اکسائے گئے یا ابھارے گئے (excited) حصے میں ہونے والی تبدیلیوں (یا عوامل) کا مشاہدہ کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے
کم آبادی والی ریاست الاسکا کے دور دراز بیابانوں میں قائم ہارپ کی آبزرویٹری میں تین سو ساٹھ ریڈیو ٹرانسمیٹر، ایک سو اسی انٹیناز اور پانچ طاقت ور جنریٹر نصب ہیں، جو چلائے جانے پر ہر سمت میں جیومیٹرک پیٹرن بناتے ہیں
ہارپ آبزرویٹری میں نصب ہر انٹینا ایک فٹ موٹا اور 72 فٹ اونچا ہے
یونیورسٹی آف االاسکا بیئر بینکس کی ویب سائٹ پر ہارپ میں موجود سہولیات کا ذکر جس انداز میں کیا گیا ہے، اس سے واضح تاثر ملتا ہے کہ درس گاہ منصوبے کی مارکیٹنگ کر رہی ہے
یونیورسٹی کی ویب سائٹ پر ہارپ سے متعلق صفحے پر درج ہے ”ان آلات کے استعمال کے نتیجے میں ہونے والے عمل کا ایک کنٹرول شدہ انداز میں مشاہدہ سائنسدانوں کو ان عوامل کو بہتر طور پر سمجھنے میں مدد دے گا، جو سورج کے قدرتی محرک کے تحت مسلسل رونما ہوتے ہیں
’ہارپ آبزرویٹری میں نصب سائنسی آلات کو مختلف قسم کی مسلسل تحقیقی کوششوں کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے، جن میں ہارپ کے آلات کا استعمال شامل نہیں، لیکن سختی سے غیر فعال ہیں
’ان میں سیٹلائٹ بیکنز کا استعمال کرتے ہوئے آئینوسفیئرک خصوصیات، ارورہ میں باریک ساخت کا دوربین مشاہدہ اور اوزون کی تہہ میں طویل مدتی تغیرات کی دستاویزات شامل ہیں۔’
ہارپ منصوبے سے جڑے تنازعات
قدرتی آفات کے نتیجے میں ہونے والی تباہ کاریوں کو بین الاقوامی سازشوں سے منسلک کرنے کا رجحان صرف پاکستانی معاشرے تک محدود نہیں بلکہ بعض ترقی یافتہ مغربی ممالک میں بھی یہ معاملہ عام دکھائی دیتا ہے
ہارپ منصوبہ اپنے قیام کے فوراً بعد 1990ع کی دہائی کے وسط میں ہی تنازعات کا موضوع بنا، جب کہا گیا کہ اس کی آبزرویٹری میں نصب انٹیناز کو بطور ہتھیار استعمال کیا جا سکتا ہے
پاکستان میں بھی یہ پہلی بار نہیں کہ شدید سیلاب کو ہارپ سے جوڑا جا رہا ہے اور نہ ہی یہ نظریہ محض سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے پیش کیا جا رہا ہے، بلکہ پاکستان میں 2010ع کے سیلاب کے بعد بین الاقوامی شہرت رکھنے والے پاکستانی سائنسدان ڈاکٹرعطاءالرحمٰن نے ایک مضمون میں اُس سال آنے والے سیلاب کی ممکنہ وجہ ہارپ کے استعمال کو قرار دیا تھا
ڈاکٹر عطاءالرحمٰن کے اس مضمون کو پاکستان میں بہت پذیرائی ملی تھی، تاہم ایسے سائنسدان اور ماحولیاتی ماہرین بھی تھے، جنہوں نے اسے تنقید کا نشانہ بنایا تھا
بعد ازاں ڈاکٹر عطاءالرحمٰن نے اس مضمون کی یہ کہتے ہوئے وضاحت کی کہ وہ دوسرے سائنسدانوں کے خیالات اور مشاہدات کا ذکر کر رہے تھے اور خود ان سے متفق نہیں
اگست 2002ع میں روس کی ہارپ کی مخالفت منظر عام پر آئی، جس میں کہا گیا کہ امریکہ اس منصوبے کو استعمال کر کے نئے اور زیادہ مہلک ہتھیار بنا رہا ہے
روس کے علاوہ وینزویلا کے صدر یوگو شاویز بھی ہارپ پر تنقید کرنے والوں میں شامل رہے، یہی نہیں خود امریکی ریاست مینیسوٹا کے سابق گورنر جیسی وینٹورا نے بھی سوال اٹھایا تھا کہ ”کیا امریکی حکومت ہارپ کے ذریعے موسم یا لوگوں کے ذہنوں کو کنٹرول کرنا چاہ رہی ہے؟“
ایران-عراق اور ہیٹی میں آنے والے تباہ کن زلزلوں کو بعض حلقوں نے ہارپ منصوبے سے جوڑنے کی کوشش کی
گذشتہ سال جولائی میں جرمنی میں آنے والے سیلاب سے متعلق بھی اسی قسم کی سازشوں کا ذکر سامنے آیا تھا
2017ع میں برازیل میں بجلی کے کھمبوں کو گرائے جانے کی ایک وڈیو کو سوشل میڈیا پر یہ کہہ کر پوسٹ کیا گیا کہ مظاہرین ہارپ کے انٹینا تباہ کر رہے ہیں
ہارپ موسم میں تبدیلی كی وجہ بن سكتا ہے؟
اگرچہ دنیا بھر میں ہارپ کے حوالے سے شکوک و شبہات کا اظہار کرنے والے سرکردہ لوگوں کی کمی نہیں، لیکن اکثر ماہرین ہارپ اور موسمیاتی تبدیلیوں کے درمیان کسی تعلق کی موجودگی کو رد کرتے ہیں
اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام یو این ڈی پی سے منسلک رہنے والے ماہر ماحولیات ڈاکٹر قمر زمان چوہدری کے مطابق ہارپ اور موسم کا تعلق بیان کرنے والی کہانیاں بہت پرانی اور محض جھوٹ اور کم علمی پر مبنی ہیں
ڈاکٹر قمر زمان چوہدری کہتے ہیں کہ ہارپ منصوبے کی اس کے قیام سے اب تک کوئی بڑی کامیابی سامنے نہیں آئی
انہوں نے مزید کہا کہ اگر امریکہ دوسرے ملکوں میں بارشیں اور دوسری قدرتی آفات لانے کے لیے ہارپ کو استعمال کر سکتا تو سب سے پہلے وہ ان کے ہاں تباہی مچانے والے سائیکلونز کو کنٹرول کرنے کی کوشش ضرور کرتا
انہوں نے کہا کہ قدرتی عوامل کو بدلنے یا کنٹرول کرنے کے لیے اتنی زیادہ توانائی کی ضرورت ہوتی ہے، جو انسان ابھی بنانے یا پیدا کرنے سے قاصر ہے
ڈاکٹر قمر زمان چوہدری نے بتایا کہ جو مصنوعی بارشیں کی جاتی ہیں، وہ بھی محدود علاقوں پر بالکل تھوڑے وقت کے لیے ممکن ہوتی ہیں
پاکستان کے محکمہ موسمیات کے ساتھ تین دہائیوں تک منسلک رہنے والے ماہر موسمیات محمد حنیف کہتے ہیں کہ ایسا ممکن نہیں کہ پاکستان میں ہونے والی موسمیاتی تبدیلیوں کو کنٹرول کرنے کے لیے ہارپ منصوبے کو استعمال کیا جا سکے
انہوں نے دعویٰ کیا کہ ہارپ منصوبہ گذشتہ کئی برسوں سے بند پڑا ہے اور اب ایک امریکی یونیورسٹی کے کنٹرول میں ہے
اسلام آباد میں قائد اعظم یونیورسٹی میں فزکس پڑھانے والے ایک پروفیسر پرویز ہود بھائی روزنامہ ڈان میں چھپنے والے ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ موسم کی تبدیلی صرف ہارپ کی ریڈیو لہروں کی وجہ سے نہیں ہو سکتی
وہ لکھتے ہیں ’آئنوسفیئر پر 3.6 میگا واٹ ریڈیو ٹرانسمیٹر کے اثرات کا پتہ صرف حساس آلات سے لگایا جا سکتا ہے، حتیٰ کہ یہ اثرات بھی دن میں زمین سے ٹکرانے والے سورج سے چارج شدہ ذرات سے تقریباً مکمل طور پر دھل جاتے ہیں۔’
پروفیسر ہود بھائی کے خیال میں ہارپ کے اثرات کو دیکھنا ایسا ہی ہوگا، جیسے سورج کی روشنی میں ایک میل دور موم بتی دیکھنے کی کوشش کرنا
مضمون میں مزید لكھا گیا ”آج، یہاں تک کہ انتہائی طاقت ور لیزر اور ریڈیو بھی آئنوسفیئر کے بڑے حصوں کو گرم کرنے کی ضرورت سے لاکھوں گنا کمزور ہیں۔ (یقیناً، کہیں بھی چھوٹی مقدار میں ہاٹ اسپاٹ بنانا کوئی مسئلہ نہیں ہے، لیکن ان کا موسم یا زلزلوں پر کوئی اثر نہیں پڑتا) شاید مستقبل کی کسی صدی میں کوئی لیزر یہ کام کرنے کے قابل ہو جائے“
آسٹریلیا کی یونیورسٹی آف نیوکیسل کے آئنوسفیئر اور میگنیٹوسفیئر پر تحقیق کرنے والے پروفیسر فریڈ منک ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ ہائی فریکونسی ریڈیو ٹرانسمیشنز آئنوسفیئر میں سو کلومیٹر کی اونچائی سے اوپر موجود ذرات یا الیکٹرانز کے ساتھ تعامل کرتی ہیں
انہوں نے کہا کہ زمینی سطح پر رونما ہونے والی موسمیاتی تبدیلیوں کا تعلق زمین کے بہت قریب ہونے والے جیو فزیکل اثرات سے ہوتا ہے، جن میں سطح کے قریب سورج کی حرارت اہم کردار ادا کرتی ہے
پروفیسر فریڈ منک نے مزید کہا ”دنیا میں کئی دوسرے ہائی فریکئونسی مواصلات ہو رہی ہوتی ہیں، جو آئنوسفیئر کو درمیانے اور اونچے درجے کے سگنلز بھیجتے ہیں، اور ان کا مقصد آئنوسفیئر کا مطالعہ ہوتا ہے۔۔روزمرہ کے موسم پر اس میں سے کسی کے اثر انداز ہونے کا کوئی امکان نہیں۔ ایسی کوئی بھی تجویز بکواس ہے“
آسٹریلوی پروفیسركے مطابق سطح زمین پر موسموں میں ردو بدل كا تعلق محض 15 كلومیٹر كی اونچائی تک ہوتا ہے، جو آئنوسفیئر (سطح زمین سے 50 سے 400 کلو میٹر تک) بہت نیچے ہے۔
پاکستان میں زیادہ بارشیں کیوں ہوئیں؟
عالمی ماحولیاتی ادارے گذشتہ کئی سالوں سے پاکستان میں ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث ممکنہ تباہیوں کی طرف اشارہ کرتے آ رہے ہیں
پاکستان کا شمار بہت عرصہ قبل دنیا کے ان پانچ ملکوں میں کر دیا گیا تھا جو ماحولیاتی تبدیلی کے باعث سب سے زیادہ موسمیاتی خطرات سے دوچار ہیں
صرف پاکستان نہیں بلکہ جنوبی ایشیا کا پورا خطہ نشانے پر ہے
دنیا بھر کے موسمیاتی تبدیلیوں سے شدید متاثر دس ممالک کے فہرست میں سے سات ممالک بشمول پاکستان، بنگلہ دیش، میانمار یعنی برما، نیپال، فلپائن، تھائی لینڈ اور ویت نام کا تعلق جنوبی ایشیا سے ہے
موسمیاتی ماہرین کے مطابق غربت، بےروزگاری، بڑھتی آبادی اور موسموں کے تابع زراعت پر انحصار کے باعث دنیا کے دیگر خطوں کے مقابلے میں جنوب مشرقی ایشیا اور خاص طور پر جنوبی ایشیا کو زیادہ خطرہ لاحق ہے
ماہر موسمیات محمد حنیف کا اس سلسلے میں کہنا تھا کہ اس سال شدید موسم کی وجوہات اندرونی تھیں، جس کا ثبوت رواں موسم گرما کے شروع میں ہی کئی کئی دن تک درجہ حرارت کا بہت زیادہ رہنا تھا
‘اس سال گرمیوں کے شروع میں ہی ریکارڈ بریکنگ درجہ حرارت ریکارڈ کیے گئے اور ایسا کئی کئی دنوں تک ہوتا رہا۔’
یو این ڈی پی كے ڈاکٹر قمر الزمان کہتے ہیں کہ ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث پاکستان کا موسم بہت زیادہ بے اعتبار ہو کر رہ گیا ہے، اور اس موسم گرما میں اس کا عملی نمونہ دیکھنے میں آیا
انہوں نے مزید کہا کہ حالیہ بارشیں ان چھ سات سسٹمز کا نتیجہ ہیں، جو بنگال کے اوپر پیدا ہوئے اور انڈیا کو عبور کرتے ہوئے پاکستان پہنچے، جہاں انہوں نے بحیرہ عرب سے نمی حاصل کی اور برس پڑے
ماہر ماحولیات علی توقیر شیخ کا کہنا تھا ماحولیاتی تبدیلی کے ساتھ موسموں کی بےیقینی بڑھ گئی ہے اور پہلے سے کسی چیز کی پیشن گوئی نہیں کی جا سکتی
انہوں نے کہا کہ پاکستان کا مون سون سیزن ہمیشہ سے بغیر کسی ترتیب سے رہا، تاہم اس کے باوجود معلوم تھا کہ برسات کب اور کن علاقوں میں کتنی شدت سے ہوتی ہے
انہوں نے کہا کہ اس سال صرف یہ نہیں کہ بارشیں زیادہ ہوئیں بلکہ دریائے سندھ کے علاوہ (نان انڈس یا نان ریور بیسڈ) سیلاب آئے، جن میں گلگت بلتستان کے گلیشیئرز کا پگھلنا، کراچی میں اربن فلڈنگ، بلوچستان میں بارشوں کے باعث سیلاب، پھر جنوبی پنجاب اور سندھ کے زیریں حصوں میں سیلاب، خیر پور اور سکھر میں بارشوں کے باعث سیلاب اور نوشہرہ مین کلاوڈ برسٹ شامل ہیں
انہوں نے کہا کہ یہ چھ واقعات یکے بعد دیگرے ایک ہی خطے میں ہوئے اور بہت زیادہ تباہی کا باعث بنے
تاہم انہوں نے کہا کہ اس سب کچھ کے باوجود ان بارشوں سے ہونے والے نقصانات کو بچایا جا سکتا تھا
ماہرین کے خیال سازشی نظریات پھیلانے یا ان پر یقین رکھنے کی بجائے پاکستانی قوم کو اپنی حکومتوں پر سیلاب اور شدید بارشوں کے نقصانات کم کرنے کے لیے اقدامات اٹھانے کا مطالبہ کرنا چاہیے۔