راستے میں ڈاکٹر مبارک سے تاریخ پر گفتگو جاری ہے، جت اور مید قبائل پر بحث، جت اور مید جو پیشے ہیں،جن میں اکثریت ھوت کی ہے۔ ھوت سکندر اعظم کے وقت سے سونمیانی سے جیونی تک پھیلے ہوئے تھے۔ سکندر سے ان کی گدورشیا (آج کا لسبیلہ اور مکران) میں جنگیں ہوئیں۔ ایرین نے ان کو ھوریتائی لکھا ہے۔بقول ڈاکٹر مبارک کے: معاد/ماد جو ہیں، ھوت کا تعلق بھی ماد/معاد سے ہے۔
ھوت، جو ھوریتاتی ہیں، کے پاس اونٹوں کے گلے تھے۔ خشکی کی تجارت پر ان کا کنٹرول تھا۔ پیشے کے وجہ سے یہ جت کہلائے۔ (یعنی اونٹوں کے گلہ بان) یہ سونمیانی سے ایران کے علاقے میناب تک ہیں۔ میناب ھوت حکمرانوں کا مرکز رہا ہے اور کبھی کبھی جاشک بھی ان کا مرکز ہوا کرتا تھا۔
جو ھورتائی ماہیگیری کے کاروبار سے منسلک تھے، وہ مید کہلائے۔ صدیاں گذرنے کے بعد اب مید ایک الگ قبیلائی شناخت رکھتے ہیں۔ مید جن کو سندھی میں مُھانا، ماھیگیر کہتے ہیں۔ ان کا تعلق ہوریتائی سے نہیں ہے ، سندھ میں جو ماھیگیری پیشے سے وابستہ رہے، وہ مھانا یا ماھیگیر کہلائے۔ سندھ کے ماہیگیر ماضی میں اصل میں کن کن قبائل سے تعلق رکھتے تھے، اس پر بحث کی ضرورت ہے۔
عربوں نے جنہیں زط کہا، وہ اصل میں جاٹ ہے۔ عربی میں ’ت‘ موجود ہے، اس لیے وہ ’جت‘ کو ’زط‘ کیوں کہیں گے؟ عربی میں ’ٹ‘ موجود نہیں ہے, اس لیے انہوں نے جاٹ، جن کا کاروبار بھی اونٹ پالنا تھا، زط کہا ہے۔
⊛⊛⊛⊛⊛
جب سکندر اپنے فوج سے بوزی کے بجائے لمبا چکر کاٹ کر اورماڑہ کلمت کی طرف گیا تھا،
اس وقت کے سفری نوٹ میں ایرین اس پہاڑی سلسلے کو راس میلان ہی لکھتا ہے۔ یہ واحد علاقے کا نام ہے، جو ابھی تک اسی نام سے ہے۔
کلمت بندر کی جگہ ہوریتائی قبیلہ سے سکندر کی فوجوں لڑائی ہوئی تھی۔ کلمت ميں ایک علاقہ ہے،ل رمبڑو، جس کے لیے محقق لکھتے ہیں کہ یہ سکندر نے گدورشیا میں جو شہر رام بیکا بسایا تھا، رامبڑو/رمبڑو وہی رامبیکا ہے۔ رمبڑو پہاڑ سے جو ندی نکلتی ہے اس کا نام بھی رمبڑو ہے۔ اس کے بعد پھر کلمت کھاری (کلمت ھور) آتا ہے۔
یہاں پر ایک پرانے قبرستان کے بارے میں مشہور ہے کہ یہ ہوریتائی قبیلی کے مقابلے میں سکندر کے جو فوجی مارے گئے، تھے ان کی قبریں ہیں۔
⊛⊛⊛⊛⊛
اورماڑہ کے حوالے سے ایک روایت یہ بھی ہے کہ جب سکندر اعظم کے امیر البحر نیئرکس کا جنگی بیڑہ ’آرماڑ‘ یہاں خراب ہوگیا تھا تو وہ بہت عرصہ یہاں رہے۔ اس بندر پر نام آرماڑ پڑا، جو بگڑ کر اورماڑہ ہوا۔ اس کے لیئے کوئی مستند حوالہ موجود نہیں، یہ میری اپنی روایت ہے، جس پر تحقیق کی ضرورت ہے
⊛⊛⊛⊛⊛
رات کو ایک بجے ہم کلمت پہنچے، جو ایک بندر ہے۔ کلمت کے تاریخی علاقہ اور بندر کے مقام پر ہی سکندر مقدونی سے ہوریتائی (ھوت) قبیلہ نے فیصلہ کن جنگ کی۔ جنگ میں ہوریتایوں کو شکست ہوئی۔یہاں سکندر نے ایک نیا شہر رامبیکا بسایا تھا۔ کلمت میں رمبڑو/رامبڑو کے علاقے کے لئے محققین خیال ہے کہ یہ رامبیکا ہے۔کلمت حمل جیئند کلمتی کا تخت گاہ تھا، جس نے پورچیگیزوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا تھا۔ ایک دن حمل اپنے دوستوں کے ساتھ قریب ستا دیپ جزیرے کے قریب سمندر میں تھا کہ پورچیگیزوں نے حملہ کیا، دوست بھاگ گئے حمل گرفتار ہوا اور پورچیگیز اسے کہاں لے گئے، آج تک اس ’مسنگ پرسن‘ کا پتا نہ چل سکا۔ بعد میں پورچوگیزوں نے ہندوستان کے شہر گوا میں اس کا مجسمہ نصب کیا۔
کلمت کے بارے ایک بلوچی کلاسک شاعری موجود ہے، جس کا ترجمہ اس طرح ہے کہ،
کلمت ان دنوں کلمت ہوا کرتا تھا، جب شاہی بنگو اس کا سردار تھا،
جہاں فوج کا سربراہ سمائیل اور تلوار چلانے کا ماھر حمل تھا۔
مشہور اداکار انور اقبال نے اس کہانی پر پہلی بلوچی فلم ’حمل ءُ ماھ گنج“ بنائی تھی، نمائش سے پہلے یہ فلم سیاست کی نظر ہوئی ،اس کے بعد سنیما کے لیے کوئی بھی بلوچی فلم نہیں بن سکی۔
کلمت کے ساتھ بدوک کا علاقہ ہے اور یہاں سے جنوب مغرب میں مکران کوسٹ کا مشہور جزیرہ ھپت تلار موجود ہے، جسے ھندوؤں نے ستا دیپ یونانیوں نے استالو اور پورچیگیزوں نے اسٹولا کا نام دیا۔ اس کی لمبائی سات مربع کلومیٹر ہے اور چوڑائی تین مربع کلومیٹر ہے۔ نیچے سمندر ہے، ساتھ خواجہ خضر کا آستانہ بھی ہے۔ یہ جزیرہ سبز کچھووں (گرین ٹرٹلز) کے حوالے سے بھی مشہور ہے۔
اس جزیرے کے لیے مشہور ہے کے سندھ کے سپوت سورھیہ بادشاھ کو جب انگریزوں نے حیدرآباد جیل میں پھانسی دے کر مکران کوسٹ کے جس جزیرے پر دفن کیا، وہ یہی جزیرہ ہے۔ اس کے اوپر آج بھی کے نامعلوم قبر موجود ہے، جس کے قریب نانی ھنگلاچ کا آستان ہے ۔نانی ماتا کے لیے مشہور ہے کہ،
”سات پہر ستادیپ، آٹھواں پہر ھنگلاچ“
یعنی ماتا دن رات کے سات پہر ستا دیپ پر ہوتی ہیں، ایک پہر وہ ھنگلاچ میں ہوتی ہیں۔
جاری ہے۔